چنئی ۔( پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) تمل ناڈو کے ریاستی صدر نیلائی مبارک نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں تمل ناڈو عام بجٹ 25۔2024پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمل ناڈو بجٹ میں اقلیتی برادریوں اور تمل ناڈو کے لوگوں کو سماجی انصاف کے تحت کوئی اعلانات اور منصوبے نہیں ہیں۔ صرف درگاہوں اور گرجاگھروں کی تعمیر نو حکومت کا واحد اقلیتی سماجی بہبود کا منصوبہ نہیں ہوسکتا ہے!۔تمل ناڈو حکومت کے بجٹ میں جہاں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے وہی نظر انداز اس سال کے بجٹ (25۔2024) میں بھی جاری ہے۔ تمل ناڈو حکومت کے بجٹ میں سماجی انصاف کے پیش نظر اقلیتوں کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ شامل نہیں ہے، جس سے حکومت کے سماجی انصاف کے ہدف پر سوالیہ نشان ہے۔یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بجٹ کے اعلانات میں چرچ، مساجد اور درگاہوں کی مرمت اور تعمیر نو کے لیے فنڈز مختص کرنے کے علاوہ اقلیتوں کی ترقی کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، الاٹ کی گئی رقم بہت کم ہے اور کچھ روایتی درگاہوں جیسے متھوپیٹ درگاہ کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت کہ اقلیتی برادریوں کی بہتری کے لیے ایک بھی پروجیکٹ کا بجٹ نہیں رکھا گیا ہے ۔جس سے اقلیتی برادری کی تئیں حکومت کی بے حسی ظاہر ہوتی ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لیے 1ہزار روپئے گرانٹ جیسے اسکیم میں تمل میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والی اور سرکاری امداد یافتہ اقلیتی اسکولوں کی طالبات کو شامل کرنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے، لیکن یہ مایوس کن ہے کہ اردو سمیت دیگر زبانیں پڑھنے والے اقلیتی طلبہ کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
ایس ڈی بی آئی پارٹی اس بات پر اصرار کرتی رہی ہے کہ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم جس کو مرکزی حکومت نے روک دیا ہے اس کے لیے ریاستی حکومت فنڈز مختص کرے۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر مرکزی حکومت اس اسکیم کو نافذ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ریاستی حکومت اسے قبول کر کے نافذ کرے گی۔ یہاں تک کہ گرشتہ دنوں ہوئی مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کی میٹنگ میں بھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ مسلم طالبات کو اس اسکیم کے تحت وقف بورڈ کے ذریعہ اسکالرشپ دیا جائے گا۔ تاہم بجٹ میں اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
ایس ڈی بی آئی پارٹی مسلسل مطالبہ کر رہی ہے کہ تمل ناڈو حکومت اقلیتی برادری کے لیے الگ بجٹ مخٹص کرے کیونکہ تمل ناڈو حکومت کے بجٹ میں اقلیتی برادری کی معیشت، حالت زندگی اور کاروبار کو بہتر بنانے کے اعلانات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اسی طرح ایس ڈی پی آئی پارٹی اس بات پر اصرار کرتی رہی ہے کہ سچر کمیٹی کی طرح ایک کمیٹی قائم کی جائے جو تمل ناڈو میں مسلمانوں کے حالات زندگی کا پتہ لگائے اور مسلم کمیونٹی کی ترقی کے لیے ہر طرح کی منصوبہ بندی کی سرگرمیاں انجام دے۔ اس سلسلے میں بھی بجٹ میں کوئی اعلان نہیں ہے۔ حکومت کو قائم ہوئے تین سال ہونے کے باوجود حکومت نے اقلیتی برادری کی ترقی کے لیے کوئی معاشی منصوبوں کااعلان اور رقم مختص نہیں کی جس سے اقلیتی برادری میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ بجٹ ایک ناقص بجٹ ہے جو اقلیتی طبقہ کی توقعات اور امیدوں پر پورا نہیں اترتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ڈی ایم کے کے انتخابی منشور میں کہی گئی بہت سی باتوں کو ہوا میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت کے قیام کے بعد تین بجٹ پیش کیے گئے لیکن انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بجٹ تیار نہیں کیا گیاہے۔ اس حکومت نے سروس رائٹس ایکٹ کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ بجٹ نوٹیفکیشن میں ریاست کی تعلیمی پالیسی یا مالیاتی منصوبہ بندی سے متعلق کوئی اعلان نہیں ہے۔
نیز، تمل ناڈو کو اقتصادی طور پر بہتر بنانے کے لیے صنعتی ترقی کے بارے میں کوئی اعلانات نہیں ہیں۔ اس حکومت کے پاس روزگار بڑھانے کا کوئی منصوبہ یا ویژن نظر نہیں آتا۔ صرف نجی کمپنیوں یا کارپوریٹس پر انحصار کیے بغیر بڑے پیمانے پر کاروباری افراد پیدا کرنے کے لیے ضروری پروگرام بنانے کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ تمل ناڈو کی معیشت کارپوریٹ معیشت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک چھوٹے پیمانے پرمتوسط طبقے کی معیشت ہے۔ اس کو تسلیم کرتے ہوئے اسے بہتر بنانے کے لیے ضروری منصوبہ بندی فوری طور پر کی جائے۔
اسی طرح اس بجٹ میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کا اعلان نہ ہونا بھی مایوس کن ہے۔ جہاں مختلف ریاستیں ذات کے حساب سے گنتی کے لیے اقدامات کر رہی ہیں، وہیں سماجی انصاف کی ایک علمبردار ریاست تمل ناڈو میں اسے لاگو کرنے کے لیے اقدامات کیے بغیر مرکزی حکومت کی طرف مسنوب کردینے کا اعلان قابل قبول نہیں ہے۔ لہٰذا تمل ناڈو حکومت کو ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ذات کے لحاظ سے مردم شماری کرانے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے۔