ترقی کی دوڑ میں معذورافراد پیچھے رہ جاتے ہیں

0
0

شگن کماری

پٹنہ، بہار

آج کے دور میں چھوٹی سے چھوٹی گلیاں، محلے، گاؤں اور شہر بھی ترقی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے بہت سی اسکیمیں چلائی جارہی ہیں تاکہ سماج کے تمام طبقات اس سے مستفید ہو کیں اورتمام شہری یکساں طور پر ترقی یافتہ ہندوستان کا حصہ بن سکیں۔ اس بارمرکزی بجٹ میں بھی اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال کے مقابلے اس سال کئی فلاحی اسکیموں کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں معذور ایک ایسا طبقہ ہے جو دوسرے طبقات سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبہ بناتے وقت اکثر اس زمرے کو بھلا دیا جاتا ہے۔ جبکہ انہیں سب سے زیادہ مدد اور منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ صرف دیہی علاقوں بلکہ ملک کے شہری علاقوں خصوصاًسلم بستیوں (کچی آبادیوں) میں رہنے والے معذور افراد کو بھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں بگھیرا محلہ نام کی ایک کچی بستی بھی شامل ہے جہاں رہنے والے کئی معذور افراد کی زندگی مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ جو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے اپنے مفاد میں چلائی جانے والی اسکیموں سے محروم ہیں۔

بہار کی راجدھانی پٹنہ کے گردنی باغ علاقے میں واقع یہ کچی آبادی پٹنہ ایئرپورٹ سے صرف 2 کلومیٹر دور اور بہار حج بھون کے بالکل پیچھے واقع ہے۔ یہ بستی اپنی تاریخی شاہ گڈی مسجد (جسے مقامی طور پر سگڑ ی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے) کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو ایک خطرناک نالے پر بنا ہوا ایک کمزور اور ٹوٹتا ہوا لکڑی کا پل عبور کرنا پڑے گا۔ یہاں رہنے والے 62 سالہ نتھوتی داس کہتے ہیں،”یہ کچی بستی گزشتہ 40 سالوں سے آباد ہے۔ 1997 میں حکومت نے اس کچی آبادی کو سلم ایریا قرار دیا تھا۔ یہاں تقریباً 250 سے 300 گھر ہیں جہاں تقریباً 700 لوگ رہتے ہیں۔ان میں کچھ معذور لوگ بھی ہیں۔“ ان کے مطابق اس کالونی میں درج فہرست ذات برادری کے تقریباً 70 فیصد لوگ رہتے ہیں۔ جن کا بنیادی کام مزدوری اور آٹو رکشہ چلانا ہے۔ جبکہ کسی قسم کی مالی امداد نہ ملنے کی وجہ سے یہاں مقیم معذور افراد کوئی کام کرنے سے قاصر ہیں۔نتھوتی داس کا کہنا ہے کہ پہلے وہ ٹرک ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔ تقریباً بیس سال قبل ایک حادثے کی وجہ سے وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گئے۔ جس کی وجہ سے وہ کوئی روزگار کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ بیوی قریبی کالونی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے، اس طرح کسی نہ کسی طرح خاندان کی کفالت ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی دو نوں بیٹیوں کااسکول بھی چھوٹ چکاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج تک انہیں کسی اسکیم کا فائدہ نہیں مل سکا ہے۔ تاہم اس کے لیے وہ متعدد بار مقامی عوامی نمائندوں سے مل چکے ہیں۔ لیکن آج تک انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔ نتھوتی داس کے مطابق مکمل طور پر چلنے پھرنے سے معذور ہونے کی وجہ سے انہیں وہیل چیئر کی ضرورت تھی۔ جس کے لیے انوں نے حکومت کی طرف سے دی جانے والی امداد کی درخواست بھی دی تھی۔ لیکن جب اسے کسی اسکیم سے مدد نہیں ملی تو انہیں اسے اپنے پیسوں سے خریدنا پڑا۔

بستی کی ایک 13 سالہ لڑکی سنیتا بھی پیدائش سے ہی ایک آنکھ سے معذور ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس کے والدین کئی بار اس کے علاج کے لیے سرکاری اسپتال گئے۔ لیکن وہاں اس کا کوئی تسلی بخش علاج نہیں ہوا۔ جس کے بعد وہ اسے پرائیویٹ ہسپتال لے گئے لیکن غربت کی وجہ سے وہاں کا خرچہ برداشت نہ کر سکے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کے والد یومیہ اجرت پر مزدور ہیں۔ کئی بار انہیں کام بھی نہیں ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے خاندان کا گزر بسر کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسے میں ان کے لیے کسی پرائیویٹ اسپتال میں علاج کروانا ممکن نہیں ہے۔ سنیتا کہتی ہے کہ جسمانی محدودیت کی وجہ سے وہ کبھی بھی عام بچوں کے لیے بنائے گئے اسکول نہیں جا سکتی تھی، جبکہ اس کے گھر کے قریب کہیں بھی بصارت سے محروم بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا، جہاں وہ پڑھ سکے۔ وہ کہتی ہے کہ اس کے والدین نے مقامی وارڈ کونسلر سے اس کے لیے معذور پنشن سکیم کے تحت امداد کی فراہمی شروع کرنے کی درخواست بھی دی تھی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اسے آج تک شروع نہیں کیا جا سکا۔ ایک اور معذور شخص 55 سالہ رام ولاس داس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پنشن اسکیم شروع کرنے کے لیے ریاستی حکومت کے محکمہ سماجی بہبود کو کئی بار درخواست دی تھی۔ لیکن ہر بار ان کی درخواست کسی نہ کسی کاغذ کی کمی کی وجہ سے منسوخ کردی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ معذور افراد کے زمرے میں بصارت سے محروم، سماعت سے محروم، گویائی سے محروم، آرتھوپیڈیکی معذوری اور ذہنی طور پر معذور افراد شامل کئے جاتے ہیں۔ جنہیں حکومت کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں مرکز کے ساتھ ساتھ ہر ریاستی حکومت بھی اپنی طرف سے اسکیمیں چلا کر ان کی مدد کرتی ہے۔ معذوری پنشن اسکیم مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جاتی ہے جس کا مقصد معذور شہریوں کی مالی مدد کرنا ہے۔ اس اسکیم کے تحت مرکزی حکومت معذور شہریوں کو ہر ماہ 600 سے 1000 روپے کی مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ یہ رقم ڈی بی ٹی کے عمل کے ذریعے مستفیدین کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست منتقل کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی، 40 فیصد سے زیادہ جسمانی طور پر معذور لڑکوں اور لڑکیوں کی بہتر ازدواجی زندگی میں مدد کرنے کے مقصد سے، بہار دیویانگ میرج پروموشن اسکیم کے تحت بہار حکومت کی طرف سے 1 لاکھ روپے کی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن اکثر معذور افراد کسی نہ کسی وجہ سے ان اسکیموں کا مناسب فائدہ حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ کئی بار مناسب معلومات کی کمی ہوتی ہے اور کبھی سماجی سطح پر ان اسکیموں کے فوائد تک رسائی میں مدد کی کمی ہوتی ہے۔

اس حوالے سے مقامی سماجی کارکن رکمنی دیوی کا کہنا ہے کہ ‘2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں معذور افراد کی تعداد 2.68 کروڑ ہے جو کہ ملک کی کل آبادی کا 2.21 فیصد ہے۔ اگر ہم ریاستی اعداد و شمار کی بات کریں تو اس مردم شماری کے وقت بہار میں معذور افراد کی تعداد 23,31,009 ریکارڈ کی گئی تھی، جو ان 12 سالوں میں اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہوگی۔ رکمنی دیوی کے مطابق، بہار معذور افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھارت کی تیسری بڑی ریاست ہے۔ جہاں کل آبادی کا تقریباً نو فیصد حصہ کسی نہ کسی طرح جسمانی طور پر معذور افراد مقیم ہے۔ ان میں سے 45 فیصد معذور بچے عام بچوں کے سکولوں میں مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خواندہ نہیں ہو پاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آج بھی ملک میں معذور افراد کو کسی نہ کسی شکل میں نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ ان طبقات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا