"تذکرہ کیسے کروں میں تیری دانائی  کا” 

0
0
سیف الرحمن محمد اسلم
متعلم ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ مدینتہ السلام
علم و حکمت اللہ رب العالمین کی ایک بیش بہا نعمت ہے جو  اپنے انہیں بندوں کو عطا کرتا ہے جو متقی و پرہیزگار ہو اور  علم کے ساتھ ساتھ عمل کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بنایا ہو تب انہیں علم و دانائی حاصل ہوتی ہے پھر کوئی شخص ترقی کے منازل طے کرتا ہے انہیں میں سے ایک عظیم شخصیت اور علمی و حکمت سے پر ایک نابغہ روزگار اور فعال ادیب جو  سن 2003 میں  جھاڑکھنڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے پڑ خطر راستے طے کرتا ہوا بہار کے ضلع مشرقی چمپارن کے ایک بستی چندنبارہ قدم رنجہ ہوئے وہاں  ایک دینی قلعہ ہے جسے لوگ اور خاص کر اہل علم حضرات جامعہ امام ابن تیمیہ کے نام جانتے ہیں ‌۔
جس میں داخلہ لیتے ہیں  اور پھر اپنی پوری محنت و لگن کے ساتھ اپنے علمی سفر کی شروعات کرتے ہیں اور نہ جانے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔
 میں رقم کرتا چلوں کہ اللہ کی صفت میں ایک صفت علم ہے اللہ کی ذات ازلی ہے تو اس کی صفت بھی ازلی ، اس کا کچھ حصہ اللہ نے مخلوق کو عطاء کیا ۔
اور اسی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ،
 علم انسان کو ، عمدہ صفات، حسن اخلاق ، عمدہ سیرت اور اچھے کردار سے متصف کرتا ہے اور الحمدللہ استاد محترم عامر سہیلی لقمان تیمی  مذکورہ تمام تر صفات سے متصف ہیں
شیخ محترم اپنے ذہن و دماغ  میں یہ طے کر اپنی زندگی کی کشتی کو سمندر میں اس فکر کے ساتھ ڈالے کہ کسی کام کو کرو تو پوری محنت اور لگن سے کرو اور چنانچہ شیخ نے ایسا ہی کیا….
  شاعر کہتا ہے
*تذکرہ کیسے کروں میں تیری دانائی کا*
*میرے حد میں نہیں رتبہ تیری بالائ کا*
۔ *شیخ سے میری وابستگی*
سال  2019  میں جب میں  مدرستہ العلوم الاسلامیہ مورول، باجپٹی سیتا مڑھی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ امام ابن تیمیہ چندنبارہ میں قدم رکھا اور انٹرانس امتحان دیا الحمدللہ کامیابی ملی اور اولی ثانویہ میں داخلہ ہوا ، اس کے بعد نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا اور پہلی مرتبہ شیخ محترم سے پڑنے اور علمی سیرابی سے ہم کنار ہونے کا شرف حاصل ہوا… ،
یک بعد دیگرے اساتذہ کرام اپنی گھنٹیوں میں آتے گئے اور انہیں گھنٹیوں میں سے ایک گھنٹی شیخ محترم سہیل لقمان تیمی حفظہ اللہ ورعاہ کی تھی ،
شیخ نے جس انداز میں طلباء کو نصیحت کی اور طلباء دین کی خصوصیتوں  کا تذکرہ کیا واللہ اسی دن سے میرے قلب و جگر میں شیخ کے  تئیں   جو محبت و الفت پیدا ہوئی وہ آج تک اور نہ جانے کب تک بلکہ یوں کہوں  کہ میرے جسم سے روح کو نکلنے  تک وہی محبت و الفت جو پہلے ہی دن سے  میرے ذہن و دماغ میں راسخ ہوا تھا وہ باقی رہے گی، اور بس اسی پر اکتفا نہیں بلکہ شیخ سے پھر ثانیہ ثانویہ اولی عالمیہ میں میں بھی پڑھنے کا موقع ملا۔
یہ مدت بہت ہی مختصر رہی لیکن میں اپنے الفاظ و جمل سے ان کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتا ، شیخ محترم کا جس خوش مزاجی سے طلبہ سے بات کرتے یا انہیں مستقبل کے بارے میں بتاتے قابل دید منظر ہوتا تھا، اسی طرح شیخ جب سیاست پر کچھ تبصرہ کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ ملک ہندوستان کی پوری سیاست ایک ہی گفتگو میں بیان ہو گئ اور مکمل بھی ہوجاتی،
اسی طریقہ سے مسلم معاشرے پر ہونے والے تباہیوں کا ذکر کرتے تو وہ جو وقت ہوتا اسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ سارے طلبہ پر سکتہ طاری ہو جایا کرتی تھی۔
اور بھی بہت ساری باتیں جڑی ہوئی ہیں شیخ محترم سے ۔۔۔۔۔
لیکن ایک وقت آتا ہے کہ شیخ محترم جامعہ امام ابن تیمیہ کو نم  آنکھوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے ۔۔
شیخ کا اس طرح جامعہ کو اچانک الوداع کہنا یہ ایک حادثہ کی طرح تھا اس حادثہ کو نہ میرا دل قبول  کر رہا ہے اور نہ دماغ کے یہ کیا ہو گیا اور یہ کیسے ہوگیا؟
وہ شعر ۔۔۔
جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں
 اس نے صدیوں کی جدائی دے دی..
شیخ نے اتنی لمبی مدت جامعہ  میں گزاری  داخلہ سن 2003 میں لیا اور فراغت 2010 میں 8 سالہ تعلیمی زندگی اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا  بلکہ سن 2012 میں تدریسی سفر کا آغاز کیا اور بہت سے طلباء کو اپنے علمی صلاحیتوں سے ان کے علمی ضوق کو پروان چڑھاتے رہے ۔۔
کل بروز جمعہ بتاریخ 16/06/2023 کو اپنی زندگی کے سنہرے ایام کو نم آنکھوں الوداع کہتے چلے گئے ۔۔
اگر ہم شیخ محترم کے تعلیمی اور تدریسی سال کو  ایک ترازو میں رکھیں گے تو پورے 20 سال کا وقفہ ہوتا ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ اپنی زندگی کے تین تہایوں میں سے ایک تہائی جامعہ کے لئے وقف کردیا جو کہ بہت بڑی قربانی ہے،
شیخ محترم نے اتنی لمبی مدت وقف کر دی اور پھر اچانک اس طرح جامعہ کو الوداع کہنا ہم طلباء علم اور خاص کر طلباء جامعہ کے لئے بڑا خسارہ ہے ۔
اخیر میں ہم بارگاہ رب العالمین سے دعاء گو ہوں کہ، اللہ ہمارے علمی خسارے کی بھر پائ کے لئے کوئی دوسرا سبیل پیدا کر، اور ساتھ ہی جامعہ امام ابن تیمیہ کو دین دگنی ترقی عطاء کرے ، اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ کو حاسدین کے حسد اور انکی بری نظروں سے محفوظ رکھ۔۔۔۔۔۔
          آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔
اجنبی اجنبی ہے سارا وجود
مجھ کو اپنا رہی ہے تیری یاد
           زندگی کتنی تیز رو ہے مگر
         ساتھ ساتھ آرہی ہے تیری یاد
سیف الرحمن محمد اسلم
متعلم ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ مدینتہ السلام
        +917323987701

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا