۰۰۰
ریاض فردوسی۔
9968012976
۰۰۰
صحیح بخاری شریف میں حضرت برائ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو۔چناچہ جب حکم آیا تو آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی۔آپ کے ساتھ جو لوگ نماز میں شریک تھے ان میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں۔جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے۔ہجرت سے پہلے مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہوگیا۔دونوں جمع نہیں ہوسکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔
حضرت ابو سعید بن معلی فرماتے ہیں "میں نے اور میرے ساتھی نے اول کعبہ کی طرف نماز پڑھی اور وہ ظہر کی نماز تھی ” بعض مفسرین وغیرہ کا بیان ہے کہ ” نبی کریم ? پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی، اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے، دو رکعت ادا کرچکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے۔
حضرت نویلہ بنت مسلم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم ظہر کی نماز میں تھے،جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے۔مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں۔اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی۔ بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہوگیا۔ چناچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔
جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا جس پر یہ آیتیں۔شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو اس پر یہود اور بعض مشرکین و منافقین آنحضرت اور صحابہ کرام پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ ان کے دین کا بھی کوئی ٹھکانا نہیں ان کا قبلہ بھی روز روز بدلتا رہتا ہے۔ قرآن کریم نے ان کا یہ اعتراض آیت مذکورہ میں نقل فرمایا یعنی آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی کے ہیں مشرق اور مغرب وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔سب سے پہلے اللہ تعالی نے ان معترضین کو بیوقوف کہہ کر خطاب کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالی کسی خاص سمت میں مقید ہے۔ اللہ تعالی کی ذات پاک مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی قیدوں اور سمتوں سے بالاتر ہے وہ کسی خاص سمت میں نہیں۔ کعبہ اور بیت المقدس کی کوئی خصوصیت بجز اس کے نہیں کہ حکم ربانی نے ان کو کوئی امتیاز دے کر قبلہ بنادیا وہ اگر چاہیں تو ان دونوں کے علاوہ کسی تیسری چوتھی چیز کو بھی قبلہ بنا سکتے ہیں۔ ان مقامات کی کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان میں فضیلت پیدا ہونے کا سبب ہی یہ ہے کہ ان کو حق تعالیٰ نے قبلہ بنانے کے لئے اختیار فرما لیا اور شاید آنحضرت کے لئے قبلہ میں تغیر وتبدل فرمانے کی یہ بھی حکمت ہو کہ عملی طور سے لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ قبلہ کوئی بت نہیں جس کی پرستش کی جائے بلکہ اصل چیز حکم خداوندی ہے۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں۔ اور یہ کہ حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔جدھر منہ کرو اسی طرف اس کا منہ ہے۔اس میں مومنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے۔ ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا ادھر ہی رخ پھیر لیں گے۔
تحویل قبلہ کی وجہ خود اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایی (پارہ۔2 آیت۔143) یعنی جس قبلہ پر آپ پہلے رہ چکے ہیں اس کو قبلہ بنانا تو محض اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ کون رسول اللہ کا اتباع کرتا ہے اور کون پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو تمہیں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تو اس لیے نہیں کہ یہی تمہارا مستقل قبلہ ہے بلکہ یہ اجازت ایک عارضی اور وقتی اجازت تھی اور مقصود اس اجازت سے یہ تھا کہ اس قبلہ کی تبدیلی تمہارے لیے امتحان کی ایک کسوٹی بنے اور اس کے ذریعہ سے یہ ظاہر کردیا جائے کہ تمہارے اندر کتنے آدمی ایسے ہیں جو فی الواقع رسول کے پیرو ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو رسول سے زیادہ اپنی پچھلی روایات کے پرستار ہیں اور وہ پھر مڑ کر اپنے قدیم دین کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے عرصہ تک بیت المقدس کے قبلہ پر قائم رکھنے اور پھر اس سے ہٹا کر خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دینے کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ اس طرح اس نے مسلمانوں کو ایک امتحان میں ڈال کر ان کے کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کیا جایے تاکہ مدینہ آنے کے بعد جو خاص قسم کے عناصر اہل کتاب میں سے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں وہ اس امتحان سے گزر کر یا تو اسلام کی طرف یک سو ہوجائیں یا چھٹ کر ان سے الگ ہوجائیں یعنی یہ قبلہ کی تبدیلی ہے تو ایک سخت امتحان اس لیے کہ اس طرح کے معاملات میں جن کا تعلق دین سے ہو آدمی فطری طور پر جذباتی اور روایت پرست بن جایا کرتا ہے، ان میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی اس کو سخت گراں گزرتی ہے، لیکن دین میں اصلی چیز خدا اور رسول کی کامل اطاعت اور اخلاص ہے۔ انبیاء اور ادیان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی کی آمد پر امتوں کو اس قسم کے امتحانوں سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے، اسی سنت کے تقاضے سے ہر نبی کے زمانے میں دین کے رسوم و ظواہر میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں تاکہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوسکے۔ جو لوگ اپنے قومی اور گروہی تعصبات کی پھندوں میں گرفتار ہوچکتے ہیں ان کا کھوٹ ان امتحانوں سے ظاہر ہوجاتا ہے، وہ خدا اور رسول کی ہدایت اختیار کرنے کے بجائے اپنی روایات پر اڑ جاتے ہیں لیکن جن کے اندر اخلاص کی روح موجود ہوتی ہے وہ اپنے اس اخلاص کے فیض سے اللہ کی ہدایت قبول کرنے کی توفیق پاتے ہیں۔ چناچہ قبلہ کی اس تبدیلی کا رد عمل بھی اسی طرح کا ہوا جو لوگ اپنے پچھلے تعصبات میں لپٹے ہوئے محض کسی وقتی مصلحت کے تحت اسلام کی صفوں میں آ گھسے تھے اس تبدیلی کے بعد وہ پھر پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے برعکس جو لوگ محض اللہ کی بندگی اور اس کے رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ اسلام میں آئے تھے ان کے لیے اس تبدیلی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کے نہایت وسیع دروازے کھول دیے۔
یہود و نصاری بیت المقدس کے اندر تو بیت المقدس کو قبلہ بناتے تھے لیکن اس سے باہر نکل کر ان کا قبلہ مشرق یا مغرب بن جاتا۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی گمراہی سے بچانے کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ تم جہاں کہیں بھی ہو، مسجد حرام کے اندر یا باہر، نمازوں کے اوقات میں تمہارا رخ اس معین قبلہ ہی کی طرف ہونا چاہیے (پارہ۔2 ایت نمبر 144) دوسری بات یہ کہ مسجد حرام کا اس امت کے لیے قبلہ ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا اہل کتاب پر بالک واضح تھا جیسا کہ ارشاد ہے
یہود کو یہ بات معلوم تھی کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم اور انکے بیٹے حضرت اسماعیل کی تعمیر ہے اور یہی بیت اللہ تمام ذریت ابراہیم کا اصلی قبلہ رہا ہے۔ دوسری یہ کہ آخری نبی ذریت اسماعیل میں پیدا ہوں گے اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایک امت مسلمہ برپا کرے گا۔ تیسری یہ کہ اس ذریت اسماعیل کا مرکز اور قبلہ شروع سے یہی بیت اللہ رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے اشارات و قرائن تورات میں موجود تھے اور آنحضرت کے ظہور اور آپ کے واقعات زندگی سے ہر قدم پر ان اشارات و قرائن کے تصدیق ہو رہی تھی لیکن یہود اس حسد و عناد کے سبب جانتے بوجھتے ان ساری باتوں کو چھپاتے تھے۔ ان کے اسی کتمان حق پر بانداز تہدید یہ فرمایا ہے کہ ‘‘ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے ’’ یعنی یہ اپنے اس کتمان حق کی قرار واقع سزا پا کے رہیں گے۔
اس کے بعد اللہ تعالی آنحضرت کو تسلی دے رہے ہیں کہ قبلہ کے معاملہ میں اہل کتاب کا یہ رویہ کسی شک و شبہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ، محض ضد وعناد اور حسد کی بنا پر ہے۔ اس وجہ سے اگر تم ان کو دنیا جہان کے تمام معجزے بھی دکھا دو جب بھی یہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں۔ ان کو مطمئن کرنے والی کوئی چیز ہوسکتی ہے تو دلائل و معجزات نہیں بلکہ یہ کہ تم خود ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے بن جاؤ لیکن حق کے اچھی طرح واضح ہوچکنے کے بعد تمہارے لیے اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرسکو۔ پھر یہ بات بھی واضح فرما دی کہ یہ ضدم ضد کا رویہ کچھ تمہارے ہی ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ یہود و نصاریٰ خود ایک دوسرے کے قبلہ کی بھی پیروی نہیں کرسکتے۔ اب یہ مشرق و مغرب کے جس جھگڑے میں پڑگئے ہیں یہ جھگڑا ختم ہونے والا نہیں اور جب ایک ہی قبلہ کی پیروی کے مدعی آپس میں متحد نہیں ہوسکتے تو تمہارے قبلہ کی پیروی بھلا یہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ علم وحی کے آجانے کے بعد اگر تم ان کی خواہشوں کی پیروی کرو گے تو تم بھی ظالموں میں سے بن جاؤ گے۔ یہ ایک نوع کی تہدید ہے جس کا ظاہراً خطاب تو آنحضرت سے ہے لیکن اس کا رخ دراصل یہود و نصاری کی طرف ہے۔علماء اہل کتاب رسول اللہ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانے یہ ایک مثال تھی جو مکمل یقین کے وقت عرب دیا کرتے تھے۔ قرطبی کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت عمر فاروق نے حضرت عبداللہ بن سلام سے جو یہودیوں کے زبردست علامہ تھے پوچھا کیا تو حضرت محمد کو ایسا ہی جانتا ہے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لئے کہ آسمانوں کا امین فرشتہ زمین کے امین شخص پر نازل ہوا اور اس نے آپ کی صحیح تعریف بتادی یعنی حضرت جبرائیل حضرت عیسیٰ کے پاس آئے اور پھر پروردگار عالم نے ان کی صفتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ میں موجود ہیں پھر ہمیں آپ کے نبی برحق ہونے میں کیا شک رہا؟ بلکہ ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں شک ہے لیکن آپ کی نبوت میں شک نہیں،سورہ البقرہ آیات 142 تا 162 کا خلاصہ یہ ہے کہ منصبِ امامت سے یہود کی معزولی کے اسباب و وجوہ کی تفصیل اس مجموعہ آیات پر ختم ہو رہی ہے۔ اب گویا ان کو معزول کر کے ایک نئی امت کے قیام کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ یہ امت امت وسط ہے یعنی اس صراط مستقیم پر قائم ہے جو دین حق کی اصل خدائی شاہراہ ہے۔ اس کی ملت، ملت ابراہیم اور اس کا قبلہ، قبلہ ابراہیمی بیت اللہ الحرام ہے۔ اس کا فریضہ منصبی یہ ہے کہ جس طرح پیغمبر نے اس کے سامنے اللہ کے اصلی دین کی گواہی دی ہے اسی طرح یہ خلق خدا کے سامنے اللہ کے دین کی شہادت دینے والی ہوگی۔ ایک مستقل امت کی حیثیت سے مسلمانوں سے یہ عہد لیا گیا کہ تحویل قبلہ کے بعد اب تم یہود و نصاری سے الگ ایک مستقل امت کی حیثیت سے ممتاز ہوگئے۔ جس طرح تمہارا رسول ایک الگ رسول ہے جو ان تمام صفات کا مظہر ہے جن کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی، اسی طرح تمہارا قبلہ ابراہیمی قبلہ ہے، اب تم ان یہود سے ذرا بھی نہ ڈرو۔ صرف اللہ ہی سے ڈرو تاکہ تمہیں اللہ کے دین کامل کی نعمت نصیب ہو اور تمہارے لیے شریعت الٰہی کی راہیں کھلیں۔ تم مجھے یاد رکھوگے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میری شکر گزاری کرتے رہنا، ناشکری نہ کرنا۔ اس کے بعد ان متوقع خطرات کے طرف اشارہ فرمایا ہے جو ایک مستقل امت کی حیثیت سے نمایاں ہونے کے بعد مخالفین و معاندین کی طرف سے پیش آسکتے ہیں اور ان خطرات کے مقابلہ کے لیے مسلمانوں کو جن تیاریوں اور جن ایمان و اخلاقی اسلحہ سے مسلح ہونے کی ضرورت ہے، ان کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔