تبصرہ کتاب : متاعِ نقد
، مصنف : صدیقی صائم الدین
تبصرہ نگار : شیخ فاطمہ ترنم بنت شیخ عتیق
ایم ۔ اے سال اوّل ،سر سید کالج روشن گیٹ، اورنگ آباد۔ مہاراشٹر
متاعِ نقد صدیقی صائم الدین کی تازہ ترین تصنیف ہے۔ جو سال 2019میں منظر عام پر آئی ہے۔ اردو ادب میں ایک اہم مام صدیقی صائم الدین کا بھی آتا ہے جو کہ اپنی تحریر کردہ عمدہ تنقیدی تصانیف کے باعث جانے جاتے ہیں۔ مصنف نے اپنی تصانیف کے ذریعے خود کو اردو ادب میں متعارف کروایا ہے۔ اس سے قبل مصنف کی تصنیف ’’ مطالعہ معین جذبی‘‘ سن 2017میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب پر مصنف کو اتر پردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اس میں مصنف نے جذبی کے زندگی کے پہلوؤں کو از سرتا پا بیان کیا ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے جذبی ؔ کی شاعری کے علاوہ ، انکی شاعری کے مفاہیم ، نظم نگاری، غزل گوئی اور ساتھ ہی متفرقات و رباعیات کی بھی شمولیت کی ہیں۔ علاوہ بریں’’ دریچہ ۔ تنقیدی مضامین‘‘ مصنف کی دوسری طبع زاد تصنیف ہے اور اس کتاب کی اشاعت سن 2017میں ہی ہوئی۔ 2019میں ان کی اس چیدہ تصنیف کے لئے انھیں مہاراشٹر ساہتیہ اردو اکادمی کی جانب سے ایوراڈ بھی دیا گیا ۔ ’’ دریچہ ‘‘ میں مصنف نے اردو کے نامور شعراء کے کلام اور ان کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی اس میں مختلف مضامین موجود ہیں۔ مزید بر آں ’’ متاعِ نقد ‘‘ مصنف کی تیسری اہم تصنیف ہے۔ کتاب کو اگر سرے سے دیکھے تو کتاب کے کورپیج میں اوپر کتاب کا نام اور نیچے مصنف کا نام درج ہے اور انتساب مصنف نے دادی جان اور نانی جان کے نام لکھا ہے۔۔ کتاب گل 176صفحات پر مشتمل ہیں۔ فہرست پر نظر ڈالیں تو’’ بچا کے لائیں ہم اے یاد پھر بھی نقد و فا‘‘ پیش لفظ میں مصنف نے اس کتاب کا تعارف بیان کیا ہے اور مضامین کے تعلق سے اپنا اظہار خیال پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’ادب میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ ادب پارہ جس بھی صنف سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کی تنقید اس پر بحث کے تجزیے نئے زاویوں کی جانب قدم بھر ہوتے ہیں۔ نقد وہ راہ ہے جس سے گذر کر ایک فن پارہ اپنے حسن اور نقائص کے ساتھ بہتر ہیئت اختیار کرتا ہوا منظر نامے پر ثبت ہوتا ہے۔‘‘ مشمولات میں کل گیارہ مضامین ہیں جو نظم و نثر دونوں ہی صنف پر لکھے گئے ہیں۔ جہاں نظم میں مختلف شعراء کی شاعری کا تذکرہ جیسے ’’ناسخ ، شیفتہ، سرور جہاں آبادی، جوش ملسیانی ، حفیظ میرٹھی، قمراقبال، علامہ اقبال وغیرہ ۔ ان تمام شعراء کی شاعری کو مصنف نے اپنی کتاب میں شمل کیا اور ان تمام شاعروں کے نظریات ، تفکرات کو باریک بینی سے جانچ کر مختلف پیرایہ سے ان کی شاعری کی صفات کو بیان کیا ہیں۔وہیں نثر میں ناول’’ تلک الایام ‘‘ ( نورالحسنین ) ، افسانہ ’’ پچھلے پہر کی خوشبو ‘‘( نورالحسنین) اور افسانہ ’’ جگّا ‘‘ ( بلونت سنگھ) کا تجزیہ موجود ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں کہ :’’اقبال کا مطالعہ انسانی زندگی اور حیات ابدی کے ادراک کا مطالعہ ہے۔ ان کا کلام انسانی زندگی کی بہتر اور عمدہ فہم شناسی کا نمونہ ہے۔‘‘ جناب نورالحسنین صاحب کا افسانہ ’’ پچھلے پہر کی خوشبو‘‘ کا تجزیہ بخوبی کیا ہے۔ مصنف نے بہت ہی بہتر انداز میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’نورالحسنین کا افسانہ ’’ پچھلے پہر کی خوشبو‘‘ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ملازمت کے سلسلہ میں اپنے آبادی گاؤں میں ایک بڑے شہر میں ایک عرصہ سے مقیم ہے لیکن اب بھی وہ شہر زندگی سے ایڈجسٹ نہیں ہو سکا ۔ وہ اعلی قدروں کا حامل ہے لیکن زندی کے چھوٹے چھوٹے تجربات اُسے سوچنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں کہ جب دنیا کا ہر مذہب نیکی اور اعلیٰ قدوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اسکول اور ہر گھر میں بھی اسی کی تربیت کی جاتی ہے ، تو پھر فریب ، جھو ٹ اور بے ایمانی کی تربیت کون کرتا ہے؟ یہ سماج اور معاشرے میں کیسا پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کا تو کوئی مدرسہ بھی کہیں موجود نہیں ہے ؟‘‘ پھر مصنف بیان کرتا ہے:’’کلائمکس پر افسانہ اس راز سے پردہ اٹھا دیتا ہے کہ برائی کے لئے کسی اسکول کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ہم خود اسے اپنے اپنے گھروں میں پروان چڑھاتے ہیں ۔ ہمارا فعل و عمل خود بچوں کو بگاڑ تا ہے۔‘‘ مصنف کے شعور اور مشاہدہ سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں موجود تمام شعراء کا مطالعہ گہرائی و گیرائی سے کیا ۔ اور ان کا تجزیہ کرتے ہوئے ان تمام عوامل کی روشنی ان کے فن کو جانچا ۔ ناول اور افسانوں کا تجزیہ کر مصنف نے اس بات کا ذکر کہاہے کہ کس طرح ناول نگار اور افسانہ نگار ہمیں زندگی کی حقیقتوں اور اس میں پیش آنے والے مسائل سے ہمیں روشناس کرواتے ہیں۔ الغرض مصنف کی یہ تصنیف بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ اس کتاب کا مطالعہ آپ تمام کو پسند آئے گا۔ کتاب میں بعض جگہ ٹائپنگ کی خامیاں نظر آتی ہیں۔
٭٭