تبدیلی اور انقلاب بازاروں میں شور کرنے سے نہیں آتے

0
0

 

قیصر محمود عراقی

ہائے ہائے تبدیلی کو کس نے نظر لگادی ، آخر کیا قصور تھا ہمارا، تبدیلی کیوں نظر نہیں آرہی ، کب تبدیلی آئیگی، کب مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ دو پرانے دوست آپس میں گپ شپ لگارہے تھے ، میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا اور ان کی باتیں سننے لگا، دونوں آپس میں مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا رو رہے تھے اور اپنے دور کی باتیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کررہے تھے کہ ہمارے دور میں یہ ہوتا تھا وہ ہوتا تھا ۔ مگر اب گھر کو چلانا کتنا مشکل ہوگیا ہے، گھر کی سبزی سے لیکر بجلی بل اور بچوں کی اسکول کی فیس تک ادا کرنا مشکل ہے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہمارے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیئے ہیں، ان حالات میں آخر ہم اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھریں، ڈاکہ ڈالیں یا خودکشیاں کریں ؟ کون سے جرم کی سزا مل رہی ہے، حالات یہ ہوگئے ہیں کہ جن کے گھر کا خرچہ دس ہزار تھا وہ اب بیس ہزار سے بڑھ گیا ہے، ہر روز نئی نئی پالیسیوں کی وجہ سے غریب کا چولہا بھی ٹھنڈا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ملک کے اندر اتنے وسائل موجود ہونے کے باوجود ہم بے روزگاری اور مہنگائی کا شکار کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ بے روزگاری میں اس وقت ہمارے ملک کو گھیرا ہوا ہے اس سے ہم بچنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر بچ نہیں سکتے ہیں اس لئے کہ دن بدن مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، گھر کو چلانے کیلئے تمام اشیاء ضروریات اس قدر مہنگی ہوگئی ہیںکہ ان کو خریدنا اور گھر کا چولہا جلانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
قارئین محترم!لفظ تبدیلی ہمیشہ مجھے گہری سوچ میں ڈال دیتا ہے کیونکہ اس لفظ کا استعمال ہی وہاں کیا جاتا ہے جہاں کچھ مسائل پیدا ہورہے ہیں ، جہاں کچھ صحیح نہ ہورہا ہو۔ ہم مختلف سطح پر تبدیلی پر بات تو کرتے ہیں لیکن اگر تبدیلی ذاتی سطح پر آئیگی تو ہی باقی سطحوں پر تبدیلی لانے کا خواب پورا ہوسکے گا۔ جب تک ہم خود کو نہیں بدلینگے معاشرے یا ملک کو بدلنا کیسے ممکن ہوگا، یعنی فرد کی تبدیلی ہی افرادملک اور معاشرے کی تبدیلی کی ضامن ہے، لیکن آج کل ہم لوگ بغیر کسی منصوبہ بندی کی زندگی کے راستوں پر چل رہے ہیں، نہ ہی ہماری کوئی منزل ہے اور نہ ہی راستوں کی درستی کی معلومات ، بس چلتے ہی جارہے ہیں انجان راہوں پر ، کبھی دوستوں یاروں کے ساتھ دیر تک فضول گپ شپ ، تو کبھی موبائل اور انٹرنیٹ کا بے جا استعمال ہمارا پیشہ بن چکا ہے اور ان سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ہم خود اپنی ذات سے اور اپنی ذات سے جڑی ذمہ داریوں سے نہ آشنا ہوکر اپنے اصل مقصد حیات کو بھول بیٹھے ہیں۔ لیکن جہاں تک میں جانتا ہوںہمارے ملک کے اندر اس قدر قدرتی وسائل موجود ہیںکہ اگر ہم نیک نیتی سے ان پر کام کریں اور بے روزگاروں کو ان پر لگائیں تو ہمارے ملک کے لوگوں کی بے روزگاری اور مہنگائی سے جان چھوٹ سکتی ہے، مگر ایسا ہمارے ملک کے لیڈران کیوں کریں ؟ اگر ان لوگوں نے غریب کو خوشحال دیکھ لیا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا جو غریب کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، ان کو ضرورت صرف ان کے ووٹ کی ہے، اگر یہ لوگ اپنی سوچ بدل لیں تو ہمارے ملک کا کچھ بھلا ہوسکتا ہے۔
تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اب کہاں ہیں جو کہتے تھے ہم ہندوستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرینگے ، ہم غریبوں کو وسائل دینگے لیکن جیسے ہی کرسی ملی سب کی ہوا نکل گئی ۔ ان کرسی والوں کو سمجھنا چاہئے کہ باتیں کرنے سے تبدیلی نہیں آتی اس پر عمل کرینگے تو تبدیلی آئیگی۔ اس لئے خدا کے واسطے ملک کے غریب عوام کے بارے میں سوچیں جو آپ پر بہت سے امیدیں وابستہ کرکے بیٹھے ہیں۔ ملک کی تبدیلی یوٹرنزسے نہیں بلکہ ملک کے حالات ٹھیک کرنے سے آئیگی اور اگر حالات اس طرح ہی رہے تو بے روزگاری ، مہنگائی اور غربت میں اضافے کو روکنا بس سے باہر ہوجائیگا، لوگ تنگ دستی ، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں ڈوب جائینگے اور اس طرح ہمارے ملک کے حالات مزید خراب ہوجائینگے۔ اگر حکومت نے بے روزگاری ، مہنگائی اور غربت کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی اچھی حکمت عملی تیارنہ تھی تو حالات کوکنٹرول کرنا مشکل ہوجائیگااور تبدیلی کا نعرہ ملک کی خوشحالی اور ترقی کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوئی۔ ویسے بھی دیکھاجائے تو تبدیلی سرکار میں تو ہندوستان میں سب کچھ تبدیل کردیا ، جس کی توقع تک نہ تھیں۔
لہذا اب عوام کو ہر وقت کسی بھی حال میں تیاررہنا ہے اور بے دار ہونا ہے، صرف سڑکوں پہ آنا اور کسی کی بات سن کر لبیک کی آواز بلند کرنا بے داری نہیں ، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانی کرواور اپنی گریبان چیر پھاڑ کر دیکھو کہ کوتاہی کہاں ہیں ، گھروں میں دیکھیں کیا ہورہا ہے ، یہ تبدیلی اور انقلاب بازاروں میں شور کرنے سے نہیں آتے بلکہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر چھانٹی کرنے کی ضرورت ہے اور دل کھول کر دل کی بھراس نکال کر دیکھیں کہ اس میں میرا کتنا حصہ ہے، یہی سے تبدیلی شروع ہوجاتی ہے۔ اس لئے خدا کے واسطے عوام اپنی صفوں میں اتحاد واتفاق کی فضا کو باقی رکھیں، سازشوں کو سمجھیں اور غفلت سے بیدار ہوجائیں، نئی نسلوں کی ذہن کو فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کی لعنت سے منتشر نہ کریں، اپنے آپ کو بے چارہ اور مظلوم سمجھنا بند کردیں، خود کو مظلومیت اور بے چارگی سے باہر نکالیں، جب تک آپ خود کو مظلوم اور بے چارہ سمجھیں گے تبدیلی اور ترقی کی راہ سے بہت دور رہینگے۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا