عرشیہ شکیل
گاندھی جی کہا کرتے کہ” میں چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک آزاد ہو اور یہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح خلافت قائم ہو "
خلفائے راشدین کا دور حکومت تاریخ کا سنہرا دور کہلاتا ہے ۔
جس کی مثال پیش کرنے سے زمانہ قاصر ہے ۔امن و شانتی ،عدل وانصاف ،رعایا پروری آپ سب کا شیوہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں اس دور کی سنہری یادیں وابستہ ہیں اور خواہش بھی کہ خلفائے راشدین کے عزیمت کا دور قائم ہو تاکہ لوگ پر سکون زندگی جی سکے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
۔
پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ بلند مرتبہ شخصیت تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی جنتی کو دیکھنا چاہتے ہو تو ابوبکر صدیق کو دیکھ لو۔
آپ کا لقب عتیق اور شیخ الاسلام تھا ۔ آپ کی صداقت، دیانتداری قابل رشک تھی ۔ آ پ کا شمار مکہ کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔ اپ عرب کے پڑھے لکھے شخص تھے۔ جنگی مہارتوں اور گھوڑا سواری بھی جانتے تھے۔ فراست بلاغت میں اپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میں نے جب لوگوں کے سامنے دین پیش کیا تو لوگ تذبذب کا شکار ہو گئے لیکن ابوبکر صدیق کے سامنے جب اسلام پیش کیا تو انہوں نے بلا خوف و جھجک اسلام قبول کیا ۔
آپ کی دعوت سے بہت سے لوگ ایمان لائے جن میں اٹھ جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہے آپ سے 142 حدیث مروی ہے۔ آپ ہمیشہ نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں۔ غریبوں یتیموں بیواؤں کی کفالت کرتے۔ جنگ تبوک کے وقت آپ نے اپنا پورا اثاثہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا خلافت کے بعد آپ نے جو خطبہ پیش کیا وہ سنہری لفظوں میں لکھنے کے قابل ہے۔” لوگو مجھے تمہارا حکمران مقرر کیا گیا حالانکہ اگر تم مجھے حق پر پاؤ تو میرا ساتھ ہو ,تعاون کرو اور مجھے غلط راستے پر پاؤ تو مجھے پھر سیدھا کر دو.”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ
آپ بہت بہادر ، جنگجو ،پڑھے لکھے شخص تھے۔ کشتی ،گھوڑا سواری میں مہارت حاصل تھی ۔مسلمانوں نے اپ کو امیر المومنین کا لقب دیا۔ آپ کے اسلام لانے پر پہلی بار مکہ میں اعلانیہ نماز ادا کی گئی ۔ آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اللہ نے سب سے پہلے اذان کے الفاظ آ پ کو خواب میں سنائے گئے۔ اپ نے کئی جنگوں اور غزوں میں شرکت کی۔22 لاکھ مربع میل پر آپ نےحکومت کی۔ شام ،فلسطین، عراق ،مدائن آزر بیجان، آرمینیا بیت المقدس کے علاقوں آپ کی دسترس میں تھے۔ لیکن آپ بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے ۔پیوند لگے کپڑے پہنتے، سادہ غذا استعمال کرتے، مکہ میں بہت بڑا قحط پڑا۔ آپ نے بیت المال میں جتنا غلہ تھا لوگوں میں بانٹ دیا۔ آپ نے معاشرے کی تعمیر میں بڑا رول ادا کیا اپ نے بہت ہی منظم طریقے سے کام کیا۔لوگوں کو غلہ دینے کے لیے کوپن سسٹم کا اجرا کیا ۔
آپ نے فوجی چھانیاں بنائی، آب پاشی کا انتظام کیا، سڑکیں بنوائی، کنویں کھودے، ریاست کو صوبوں میں تقسیم کیا اور صوبوں کو ضلعوں میں تقسیم کیا۔ گورنر مقرر کیے۔ مجلس شوری قائم کی۔
عدل و انصاف میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا ایک مرتبہ ایک بدوی نےیمن کے گورنر عمر بن عاص کے بیٹے کی شکایت آپ سے کی کہ ریس میں میراگھوڑا اگے نکل گیا۔اس پر مجھے گورنر کے بیٹے نے مارا۔اپ نے گورنر اور ان کے بیٹے کو بلایا ،تصدیق کی،اور گورنر کے بیٹے کو مخاطب کر کےتاریخی جملہ کہا ” ان کی ماؤں نے انہیں ازاد جنا ہے تم نے انہیں کب سے غلام بنا دیا ۔”
بدو سے کہا تم بھی اس شخص کو کوڑے مارو جیسے اس نے تمہیں مارا ہے ۔ اور اس گورنر کو بھی کوڑے لگائے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو تربیت نہیں کی تھی ۔
آپ بہت متقی اور خدا سے ڈرنے والے شخص تھے ۔ آپ ایک مرتبہ گشت پر نکلے اس وقت راستے میں ایک بڑھیا ملی۔ آپ نےاس سے حال چال پوچھا ۔اس نے اپنی تنگدستی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ عمر اپنی رعایا کاخیال نہیں رکھتا ۔اس پر آپ نے کہا اس اتنے دور دراز علاقے میں بڑھیا کے بارے میں عمر کیسے جان سکتا کہ وہ تنگ دستی کا شکار ہے۔بڑھیا نے برجستہ کہا تو پھر وہ خلیفہ کیوں بنا۔بڑھیا کی بات سن کر عمر بہت شرمندہ ہوئے اور کہا تم کیا قیمت پر عمر کو معاف کرو گی اور دعا دو گی۔ بڑھیا نے کہا” 25 دینار” آپ نے 25 دینار دیکر اپنی غلطی کا ازالہ کیااور اس بڑھیا سے معافی مانگی۔
آپ بہت اچھے مشیر تھے اپ کے کئی مشورے اللہ نے قبول کیے جس کا ذکر قران میں آیا ہے۔ آپ نے جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت کو مدنظر رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق کو قران کو ایک جمع کرنے کا مشورہ دیا اپ نے اسلام کی اشاعت کے لئے پوری زندگی وقف کر دی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔۔۔
یہ اسلام کے تیسرے خلیفہ تھے۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں ۔اس لئے آپ کو ذوالنورین کا خطاب ملا ۔
آپ بہت سخی تھے جنگ تبوک میں اپ نے 300 اونٹ اور ایک ہزار اشرفیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔
عرب میں پانی کی بہت قلت تھی اپ نے مسلمانوں کے لیے کنواں خریدا اور اسے ہبہ کر دیا ۔ آپ کے دور خلافت میں بہت سی فتوحات حاصل ہوئی ۔شام، مصر، ایران، وغیرہ ۔
آپ نے سڑکیں بنوائی، مدرسے قائم کیے، تجارت صنعت و حرفت کو فروغ دیا ۔
حضرت علی رضہ اللہ عنہ ۔
اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام پیش کیا تو آپ 12 سال کے تھے آپ نے ایمان لایا اور کہا تھا کہ "میری ٹانگیں بہت پتلی ہے لیکن میں اپ کا ساتھ دوں گا.” آپ کی تربیت خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔شجاعت بہادری میں آپ بے مثال تھے۔ مہشور واقعہ ہے
آپ نے ایک دفعہ رات بھر باغ میں مزدوری کی صبح کے وقت تشریف لائے ۔ ایک تہائی آٹے کا ہریرہ پکوایا جب پک کر تیار ہو گیا تو کسی مسکین نے اواز دی اسے سب اٹھا کر دے دیا اور باقی کا آدھا پکنے رکھا جب پک کر تیار ہو گیا تو یتیم نےاواز دی اپ نے اسے دے دیا جو بچا وہ پھر پکنے رکھا جب پک کر تیار ہواتو پھر ایک قیدی نے آواز دی اکہ بھوکا ہو کچھ دے دو تو اس کو اپ نے دے دیا۔ آپ کا یہ عمل اللہ کو اتنا پسند ایا کہ آپ کی تعریف میں یہ ایت نازل ہوئی” وہ جو اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں( سورہ دہر ایت نمبر 8).” اپ بہت اچھے مقرر تھے اپ کی تقریر اتنی جوشیلی ہوتی کہ مردہ دلوں میں جان آ جاتی۔ آپ کی نصیحتیں بھی بہت پیاری ہوا کرتی ۔چند نصحیتں پیش خدمت ہیں ۔
آپ فرماتے ۔
•”عالم وہ ہے جس نے علم حاصل کر کے اس پہ عمل کیا ۔
•سب سے بڑی امیری عقل ہے۔
• سب سے بڑی غریبی بے وقوفی ہے •کسی شخص کو سوائے گناہ کے اور کسی بات سےنہ ڈرنا چاہیے۔
•جو شخص کوئی چیز نہیں جانتا اسے سیکھنے میں شرم نہ کرے
•یقین سے دل مطمئن ہوتا ہے
• جس نے اپنے اپ کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
• احسان زبان کو بند کر دینا ہے۔
•میٹھی زبان دوسروں کو بھائی بنا دیتی ہے ۔
•عقل سے مفید کوئی دولت نہیں۔
•نیک عمل سے اچھی کوئی تجارت نہیں۔
• اپنی خطا پر شرمندہ ہونا خطاؤں کو مٹا دیتا ہے ۔
•دانائی حاصل کرو چاہے دشمن سے ملے۔
30سال تک چلنے والے دور خلافت نے لوگوں کے دلوں کو جیت لینا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ایک تہائی اکثریت نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ۔اور آج بھی اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔