۰۰۰
ضیاء المصطفیٰ نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
۰۰۰
اللہ کے نام سے شروع جوبہت مہربان رحمت والا۔
سورہ تکویرمکی ہے اس میں انتیس(29)آیتیں،ایک(1)رکوع،ایک سو چار کلمات اورپانچ سو تیںس حروف ہیں۔اس سورت کانام پہلی آیت’’کورت‘‘ سے لیاگیاہے ہے۔مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔اس کاموضوع ’’آخرت‘‘ اور ’’رسالت‘‘ ہے۔
حدیث شریف میں ہے:حضورسید عالم نے فرمایا کہ جسے پسند ہوکہ روز قیامت کو ایسا دیکھے گویا کہ وہ نظر کے سامنے ہے تو چاہئے کہ ” یہ سورہ روز قیامت کا منظر پیش کرتی ہے۔ارشاد ہے کہ جب آفتاب کا نور زائل ہو جائیگا۔جب تارے جھڑ کر گر جائینگے۔جب پہاڑ غبار کی طرح اڑتے پھرینگے۔جب قریب میں بچہ دینے والی اونٹنیاں چھوٹی ہوئی پھریں گی۔جب وحشی جانور جمع کئے جائینگے۔جب سمندر سلگائے جائینگے۔جب نیک لوگ نیکوں کے ساتھ اور برے لوگ برے کے ساتھ ہونگے۔جب زندہ دفن کی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس خطا پر ماری گئی تھی۔جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے۔جب آسمان اپنی جگہ سے کھینچ لیا جائیگا۔جب جہنم کو بھڑکایا جائیگا۔جب اللہ کے پیاروں کے لئے جنت قریب لائی جائیگی، اس وقت ہر انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا علم ہو جائیگا۔حضور انور کوئی مجنون نہیں جیسا کہ کفار خیال کرتے ہیں۔بیشک انہوں نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں اور آفتاب کے طلوع کی جگہ دیکھا ہے وہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں ہیں اور شیطان تو قرآن سے محروم ہے۔
سورہ انفطار”مکی ہے اس میں انیس (19)آیتیں،ایک(1)رکوع،اسی(80) کلمات اورتین سو ستائیس(27) حروف ہیں۔اس کانام پہلی آیت کے لفظ ’’انفطرت‘‘ سے ماخوذ ہے۔ (’’انفطار‘‘ مصدر ہے جس کا معنی پھٹنا ہے) مضمون سور تکویر کے مشابہہ ہے اور دونوں ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئیں۔اس کا موضوع بھی آخرت اور قیامت ہے۔
ارشاد ہے کہ ’’جب آسمان پھٹ پڑے۔جب تارے جھڑپڑیں۔جب سمندر بہا دیئے جائیں اور جب مردے زندہ ہوں تو ہر شخص جان لے گا جو اس نے اپنے اعمال بھیجے ہیں یا اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔بیشک تمہارے اعمال و اقوال کے نگراں فرشتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں اور جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔بیشک نیک لوگ جنت میں ہونگے اور بدکار لوگ دوزخ میں ہونگے اور قیامت سے کوئی بچ نہ سکے گا۔اس دن کوئی شخص کسی کیلئے کوئی اختیار نہ رکھے گا اور سارا حکم اس دن صرف اللہ کا ہوگا‘‘۔
سور مْطَفِّفِین ‘‘ کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ایک قول کے مطابق مکی ہے اور ایک میں مدنی اور ایک قول یہ ہے کہ زمانہ ہجرت میں مکہ مکرمہ ومدینہ طیبہ کے درمیان نازل ہوئی۔ اس سورت میں چھتیں(36)آیتیں، ایک رکوع(1)ایک سو انہتر(169) کللمات اور سات سو تیںس حروف ہیں۔نام پہلی آیت سے لیاگیا ہے۔اس کا موضوع بھی آخرت ہی ہے۔
تاجدارکائنات جب مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے بالخصوص ایک شخص ابو جْہینہ ایسا تھا کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور ،دینے کا اور۔ ان لوگوں کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہیں پیمانے میں عدل کرنے کا حکم دیا گیا۔
لوگ ایک دوسرے سے پورا تول کر لیتے ہیں لیکن خود کم تولتے ہیں۔ایسے لوگوں کیلیے خرابی ہے اور انہیں قیامت کے دن اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا اور کافر لوگوں کے اعمال نامے سب سے نیچی جگہ سجین میں ہونگے اور جب وہ قیامت کے روز پیش ہونگے تو ایسے سرکش لوگوں کیلیے خرابی ہے اور نیک لوگوں کے اعمال نامے سب سے اونچی جگہ علیین میں ہونگے اور ان کے نوشتے کی تو فرشتے بھی زیارت کرتے ہیں۔وہ لوگ چین میں ہونگے اور ان کے چہروں پر چین کی تازگی ہو گی۔اور انہیں ایسی شراب طہور پلائی جائیگی جو نکھری ہوئی اور مشک سے مہر کی ہوئی ہوگی۔تسنیم سے اس کی آمیزش ہو گی اور یہ وہ چشمہ ہے جس سے مقربین ہی سرشار ہوتے ہیں۔
سورہ انشقت جس کو ” سورۃ اِنشقاق بھی کہتے ہیں مکی ہے، اس میں پچیس(25)آیتیں،ایک(1)رکوع، ایک سو سات کلمات اورچار سوتیںس حروف ہیں۔نام پہلی ہی آیت کے لفظ ’’انشقت‘‘ سے لیاگیا ہے۔یعنی یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے۔یہ بھی مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔اس کا مضمون بھی قیامت اور آخرت ہے۔’’اس سورت میں قیامت کا منظر دکھایا گیا ہے۔جب آسمان اللہ کے حکم سے شق ہوگا اور جب زمین برابر کر دی جائیگی اور اپنے اندر کی تمام چیزیں وہ اگل دیگی، اس وقت انسان اپنے اعمال کے نتائج دیکھے گا۔تو جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائیگا وہ اپنے جنتی گھر والوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا لیکن جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائیگا وہ جہنم کے خوف سے موت کی آرزو کریگا۔
سورہ بروج مکی ہے اس میں بائیس (22)آیتیں،ایک(1)رکوع،ایک سو نوے(190)کلمات اورچار سو پینسٹھ(465)حروف ہیں۔ پہلی آیت کا لفظ ’’البروج‘‘ نام قرار پایا۔مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب ظلم و ستم پوری شدت سے برپا تھا۔
اس میں کفار کو ظلم و ستم کے انجام سے خبردار کیا ہے۔اصحاب الاخدود (خندق والوں) کا واقعہ بیان کیا گیاہے۔قسمیں کھانے کے بعد فرمایا ’’اصحاب اخدود (یعنی کھائی والوں) پر لعنت ہو جو ایمان والوں کو کھائی میں ڈال کر جلاتے تھے اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔بیشک وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو ایذا پہنچائی، پھر توبہ بھی نہیں کی تو ان کے لئے سخت آگ کا عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے تو ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور یہ ان کی کامیابی ہے۔ اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔فرعون اور ثمود کے لشکر پیغمبروں کے مقابلے میں آئے لیکن سب تباہ کر دیئے گئے اور قرآن بڑی عظمت والا ہے جو لوح محفوظ میں ہے‘‘۔
مروی ہے کہ پہلے زمانہ میں ایک بادشاہ تھا جب اس کا جادوگر بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میرے پاس ایک لڑکا بھیج جسے میں جادو سکھا دوں بادشاہ نے ایک لڑکا مقرر کردیا وہ جادو سیکھنے لگا۔ راہ میں ایک راہب رہتا تھا اس کے پاس بیٹھنے لگا اور اس کا کلام اس کے دل نشین ہوتا گیا اب آتے جاتے اس نے راہب کی صحبت میں بیٹھنا مقرر کر لیا ایک روز راستہ میں ایک مْہیب جانور ملا لڑکے نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر یہ دعا کی کہ یا رب اگر راہب تجھے پیارا ہو تو میرے پتھر سے اس جانور کو ہلاک کردے وہ جانور اس کے پتھر سے مرگیا اس کے بعد لڑ کا مستجاب الدعو? ہوا اور اس کی دعا سے کوڑھی اور اندھے اچھے ہونے لگے۔ بادشاہ کا ایک مصاحب نابینا ہو گیا تھا وہ آیا لڑکے نے دعا کی وہ اچھا ہو گیا اور اللہ تعالی پر ایمان لے آیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔ اس نے کہا: تجھے کس نے اچھا کیا ؟ کہا: میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا: میرے سوا اور بھی کوئی رب ہے ! یہ کہہ کر اس نے اس پر سختیاں شروع کیں یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا پتہ بتایا لڑ کے پر سختیاں کیں ، اس نے راہب کا پتہ بتایا، راہب پر سختیاں کیں اور اس سے کہا اپنا دین ترک کردے۔ اس نے انکار کیا تو اس کے سر پر آرا رکھ کر چروادیا، پھر مصاحب کو بھی چروا دیا، پھر لڑکے کو حکم دیا کہ پہاڑ کی چوٹی سے گرادیا جائے۔ سپاہی اس کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے،اس نے دعا کی، پہاڑ میں زلزلہ آیا، سب گر کر ہلاک ہو گیے،لڑکا صحیح سلامت چلا آیا۔ بادشاہ نے کہا: سپاہی کیا ہوئے؟ کہا: سب کو رب تعالی نے ہلاک کردیا۔ پھر بادشاہ نے لڑکے کو سمندر میں غرق کرنے کے لیے بھیجا۔ لڑکے نے دعا کی کشتی ڈوب گئی،تمام شاہی آدمی ڈوب گیے لڑکا صحیح و سلامت بادشاہ کے پاس آ گیا۔ بادشاہ نے کہا: وہ آدمی کیا ہوئے؟ کہا : سب کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا اور تو مجھے قتل کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ کام نہ کرے جو میں بتاؤں ! کہا: وہ کیا؟ لڑکے نے کہا ایک میدان میں سب لوگوں کو جمع کر اور مجھے کھجور کے ڈھنڈ (سوکھے تنے) پرسولی دے پھر میرے ترکش سے ایک تیر نکال کر بسم الل?ِ رَبِّ ال?غْلَامِ ‘‘ کہہ کر مار، ایسا کرے گا تو مجھے قتل کر سکے گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا، تیرلڑ کے کی کنپٹی پر لگا، اس نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور واصل بحق ہو گیا۔ یہ دیکھ کر تمام لوگ ایمان لے آئے اس سے بادشاہ کو اور زیادہ صدمہ ہوا اور اس نے ایک خندق کھدوائی اور اس میں آگ جلوائی اور حکم دیا جو دین سے نہ پھرے اسے اس آگ میں ڈال دو۔ لوگ ڈالے گیے یہاں تک کہ ایک عورت آئی، اس کی گود میں بچہ تھا ، وہ ذرا جھجکی، بچہ نے کہا : اے ماں ! صبر کر، نہ جھجک ، تو سچے دین پر ہے۔ وہ بچہ اور ماں بھی آگ میں ڈال دیئے گیے۔ یہ حدیث صحیح ہے، مسلم نے اس کی تخریج کی ، اس سے اولیاء کی کرامتیں ” ثابت ہوتی ہیں ، آیت میں اس واقعہ کا ذکر ہے۔
سورہ الطارق مکی ہے اس میں سترہ(17)آیتیں،ایک(1)رکوع،اکسٹھ(61) کلمات،دوسو انتالیس(239) حروف ہیں۔پہلی ہی آیت کے لفظ ’’الطارق‘‘ کو نام قرار دیا گیا ہے۔
سورت میں دو مضمون ہیں ’’مرنے کے بعد اللہ کے حضور حاضری اور دوسرا یہ کہ قرآن کو کفار کی چالیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں‘‘۔اس سور کی شان نزول یہ ہے کہ ایک رات حضور انور کیلیے جنابِ ابو طالب کوئی کھانا ہدیہ لائے۔حضور اس کو تناول فرما رہے تھے کہ ایک تارا ٹوٹا اور تمام فضا آگ سے بھر گئی۔جنابِ ابو طالب نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ یہ ستارہ ہے جس سے شیاطین مارے جاتے ہیں اور یہ قدرت الٰہیہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ابو طالب کو تعجب ہوا۔اور یہ سور نازل ہوئی ارشاد ہے کہ ’’آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے ستارے کی قسم جو خوب چمکتا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس کے اعمال کی نگرانی کیلیے اس کے رب کی طرف سے نگراں مقرر نہ ہو۔تو انسان کو چاہئے کہ وہ غور کرے کہ وہ کس چیز سے بنایاگیا ہے (کس طرح اس کی کس پانی سے تخلیق ہوئی ہے) اور اللہ ہی اس کو مرنے کے بعد دوسری زندگی کی طرف واپس لانے پر قادر ہے۔اور یہ اس دن ہوگا جبکہ انسان کی پوشیدہ باتوں کی جانچ ہوگی۔اور اس دن اس کے پاس کوئی زور نہ ہوگا اور کوئی مددگار نہ ہوگا۔
سورہ الاعل مکی ہے اس میں،انیس(19)آیتیں،ایک(1)رکوع بہتر(72)کلمات،دوسواکانوے(291) حروف ہیں۔ پہلی آیت کا لفظ ’’الاعلیٰ‘‘ نام قرار پایا۔جمعہ کی نماز میں اس سورت کو اور اگلی سورت غاشیہ کو پڑھنا مسنون ہے۔حدیث شریف میں ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی حضورسید عالم نے فرمایا: اس کو اپنے سجدہ میں داخل کرو یعنی سجدہ میں سْبحَانَ رَبِّ الاعلی ‘‘ کہو۔ (ابوداؤد)
ارشاد ہے کہ اپنے رب کے نام کی پاکی بیان کرو جو سب سے بلند ہے جس نے ہر چیز کی پیدائش ایسی مناسب فرمائی جو پیدا کرنے والے کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہے اور جس نے ہر چیز کو صحیح اندازے پر چلایا۔اور اللہ آپ کے لئے تبلیغ کا کام آسان کر دیگا۔
اور آپ تو نصیحت فرماتے رہیں اور وہی نصیحت حاصل کریگا جو اللہ سے ڈرتا ہے۔شقی اور بدبخت ہی اس سے دور رہے گا اور جہنم میں جائیگا جہاں اسے نہ موت ہے زندگی ہے (یعنی بہت بری حالت ہوگی) بیشک وہی کامیاب ہے جو ایمان لایا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔اے لوگو تم اس دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔یہ بات اگلے صحیفوں میں بھی بتائی گئی ہے یعنی ابراہیم اور موسیٰ علیھم السلام کے صحیفوں میں‘‘۔
سورہ غاشیہ مکی ہے اس میں چھبیںس(26)آیتیں،ایک(1)رکوع، بانوے(92)کلمات اورتین سواکیاسی(381)حروف ہیں۔نام پہلی آیت کے لفظ ’’الغاشیہ‘‘ سے ماخوذہے۔
ابتدائی دور میں نازل ہوئی موضوع توحید اور آخرت ہے (نماز جمعہ میں پڑھنا مسنون ہے) ’’فرمایا بیشک تمہارے پاس اس مصیبت (یعنی قیامت) کی خبر آئی ہے جو چھا جائیگی۔اس دن کتنے ہی ذلیل ہوں گے اور ان کی مشقت (دنیا کے لیے جو تھی) کام نہ آئے گی۔وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔نہایت جلتے ہوئے چشمہ کا پانی انہیں دیا جائے گا۔آگ کے کانٹے کھانے کو دیئے جائیں گے کہ ان سے غذا کا کوئی نفع نہ ہوگا،لیکن اس دن ایمان والے کتنے چین میں ہوں گے اور ان کی کوشش (آخرت کے لئے) بار آور ہو گی اور وہ اس سے راضی ہوں گے۔بلند جنت میں ہوں گے، چشمہ جاری ہوگا۔بلند تخت ہوں گے۔چنے ہوئے کوزے ہوں گے۔قالین برابر برابر بچھے ہوئے ہوں گے۔چاندنیاں پھیلی ہوں گی۔اللہ کی قدرت تو دنیا میں نظر آتی ہے کہ اونٹ کس طرح بنایا گیا۔اس میں کیا کیا خصوصیات ہیں جن سے انسان کو سبق حاصل ہو سکتا ہے۔آسمان بغیر ستون کے اونچا کیا گیا،پہاڑ قائم کیے گیے زمین بچھائی گئی۔کیا یہ سب چیزیں آسان ہیں اورکیا کسی اور میں یہ قدرت ہے؟ پس اے میرے محبوب آپ تو نصیحت سنانے والے ہیں ’’بس نصیحت سنا دیجئے‘‘ آپ جبر تو نہیں کرینگے۔تو جو شخص ایمان سے پھرتا ہے اور کفر کرتا ہے تو اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔وہ سب ہمارے سامنے پیش ہونگے اور ہمارے ہی سامنے ان کا حساب ہوگا‘‘۔