بے روزگاری نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہے

0
0

ونم نائک
بیکانیر، راجستھان

’’ہم بہت غریب ہیں اورکوئی مستقل روزگار بھی نہیں ہے۔ کبھی مجھے یومیہ اجرت ملتی ہے اور کبھی مجھے ہفتوں تک نہیں ملتی ہے۔ میری بیوی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے، جس سے ملنے والے پیسے سے ہم زندہ رہنے کے قابل ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے ہمیں اپنی بیٹی کی تعلیم روکنی پڑے گی کیونکہ ہمارے پاس فیس ادا کرنے کے لیے پیسے تک نہیں ہیں، جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہم دوائی تک نہیں خرید پاتے ہیں، حکومت کی جانب سے بھی روزگارکا کوئی ذریعہ نہیں ملتا ہے۔ مجھے منریگا سے بھی کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجھے روزگار کے لیے دوسرے شہر جانا پڑے گا۔‘‘ یہ کہنا ہے 35 سالہ روپرام کا، جو راجستھان کے بیکانیر میں لنکرنسر بلاک کے کالو گاؤں میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ تقریباً 10334لوگوں کی آبادی والا یہ گاؤں ضلع ہیڈ کوارٹر سے 92 کلومیٹر اور بلاک ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں درج فہرست ذاتوں کی تعداد تقریباً 14.5 فیصد ہے۔ اس گاؤں میں خواندگی کی شرح تقریباً 54.7 فیصد ہے، جس میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 22.2 فیصد ہے۔اس کے باوجود گاؤں میں بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت پر منحصر ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی مالی حالت کافی قابل رحم ہے۔ کم قابل کاشت زمین کی وجہ سے نوجوانوں کے پاس مستقل روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کا جینا مشکل ہو رہا ہے۔ اس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ خراب معاشی حالت کی وجہ سے، بہت سے گاؤں والے اپنے بچوں کی اسکول کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بچے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
اس حوالے سے گاؤں کی 18 سالہ لڑکی ممتا کا کہنا ہے کہ ’’12ویں کے بعد مجھے اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑے گی کیونکہ میرے والدین میری تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں ان کے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ حالانکہ مجھے پڑھائی بہت اچھی لگتی ہے، لیکن میں پڑھ نہیں سکتی کیونکہ میرے کالج جانے اور کتابوں کا خرچہ بہت زیادہ ہے، گھر میں کھانے کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے، تو ایسے میںمیرے والدین میری پڑھائی کے اخراجات کہاں سے برداشت کرینگے؟گاؤں کی ایک 26 سالہ خاتون چندا کہتی ہیں، ’’میرے شوہر کھیتوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں، جس سے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے جس سے ہم اپنی روزی کما سکتے اورکھانے پینے کا ٹھیک سے انتظام کر سکتے ہیں۔ شوہر کو کئی دنوں سے کام بھی نہیں ملتا۔ میرے تین بچے ہیں جو گھر کی خراب مالی حالت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ گاؤں کی ایک اور خاتون پریرنا کا کہنا ہے کہ میری بیٹی دسویں جماعت میں پڑھتی ہے۔گھر میں روزگار کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے اچھے اسکول میں داخل نہیں کروا سکے ہیں۔گھر کی مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر پریشان رہنے لگی ہے۔ اس کا منفی اثر اس کی پڑھائی پر پڑنا شروع ہو گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ پچھلے سال دسویں جماعت میں فیل ہو گئی تھی۔حالانکہ اسے پڑھائی کا بہت شوق ہے اور میں اسے پڑھانا بھی چاہتی ہوں۔لیکن بے روزگاری کا ایسا اثر ہے کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ گھر کے اخراجات ایسے میں ہم اپنے بچوں کو کیسے پڑھائیں گے؟‘‘گاؤں کے 40 سالہ بھیمرام کہتے ہیں، ’’میں اونٹ گاڑی کا کام کرتا ہوں، جس میں لوگوں کا سامان ان کے گھروں تک پہنچانا شامل ہے۔ اس سے مجھے زیادہ بچت نہیں ہوتی ہے۔ اس میں محنت زیادہ ہے اور کمائی کم ہے۔لیکن بے روزگار بیٹھنے سے یہ کام بہتر ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ن کا خاندان اسی کالو گاؤں کا رہنے والا ہے۔ اب تک وہ کسی نہ کسی طرح گاؤں میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے اتنی آمدنی نہیں ہو رہی ہے جس سے وہ اپنے خاندان کا پیٹ بھر سکیں۔ایسے میں وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کا بندوبست نہیں کر سکتے ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ اچھی کمائی کے لئے اپنی آبائی زمین چھوڑ کر روزگار کے لیے دوسرے شہروں کی طرف ہجرت کرنا پڑے گی۔ اپنے بزرگوں کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بھیمارام کہتے ہیں کہ پہلے گاؤں کی آبادی بہت کم تھی، اسی لیے ہر ایک کے لیے روزگار کے مواقع موجود تھے۔ لیکن اب گاؤں کی آبادی دستیاب وسائل سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کی ضروریات تو بڑھی ہیں لیکن روزگار کے ذرائع محدود ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں کو بہت کم نوکریاں میسر ہیں۔گاؤں کے ایک اور شخص روپرام کہتے ہیں،’’میری تین بیٹیاں ہیں جنہیں میں اچھی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں۔
لیکن بے روزگاری کی وجہ سے میں ان کی تعلیم کا خرچہ بھی نہیں اٹھا پا رہا ہوں۔ گھر کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے، میری سب سے بڑی بیٹی نے تو اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی ہے وہ اپنی دونوں بہنوں کو ہر طرح سے تعلیم دلوانا چاہتی ہے۔ ایک باپ ہونے کے ناطے مجھے یہ سب دیکھ کر دکھ ہوتا ہے لیکن روزگار نہ ہونے کی وجہ سے میں بھی بے بس ہوں۔ حکومت دیہی سطح پر چھوٹے پیمانے پر تعلیم فراہم کرتی ہے، اگر روزگار کے ذرائع دستیاب ہو جائیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، ہمیں کام کی تلاش میں دردر بھٹکنا نہیں پڑے گا، منریگا کے تحت بھی ہمیں مناسب کام نہیں ملتا ہے۔گھر کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے گاؤں کے لڑکوں نے پڑھائی چھوڑ کر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ کچھ نوجوان خاندان کے بزرگوں کے ساتھ جے پور، ادے پور، دہلی، سورت یا دیگر جگہوں کی تلاش میں ہجرت کر رہے ہیں۔ اگر یہ صورت حال جاری رہی تو گاؤں میں تعلیم کی سطح بہت خراب ہو جائے گی۔‘‘
اس سلسلے میںسماجی کارکن اور چرخہ تنظیم کے مشیر آیوشہ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’کالو گاؤں میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان نقل مکانی کر رہے ہیں جو کہ ایک سنگین مسئلہ بن گیاہے۔ اس سے نہ صرف معاشی عدم توازن پیدا ہوتا ہے بلکہ اس سے شہروں پر غیر ضروری بوجھ میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔گذشتہ سال کی متواتر لیبر فورس سروے کی رپورٹ کے مطابق راجستھان سب سے زیادہ بے روزگاری کے معاملے میں ملک میں دوسرے نمبر پر ہے، تاہم مرکز سے لے کر ریاستی حکومتوں تک سبھی حکومتیں روزگار کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہیں۔ اپنی سطح پر سکیمیں چلائی جا رہی ہیں اس کے باوجود اگر گائوں کے لوگ روزگار کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں تو حکومت کو اپنی بنائی گئی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا