۰۰۰
از:محمد ابوالبرکات مصباحی،پورنوی
۰۰۰
مدارس یہ مدرسہ کی جمع ہے، مدرسہ یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں قرآن،حدیث، اصول حدیث،فقہ، اصول فقہ،بلاغت،منطق اور فلسفہ کے ساتھ ساتھ ہندی، انگریزی اور حساب کی بھی تعلیم ہوتی ہے۔ مدسہ میں عام طور پردینی تعلیم پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے۔یہاں پر بتایا جاتا ہے مسلمانوں کے لیے کیاجائز ہے اور کیاناجائز۔ کیا حرام ہے اور کیا حلال ہے۔ ماں باپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔یہاں یہ بھی درس دیاجاتاہے کہ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت دین کا لازمی حصہ ہے۔غرض یہ کہ یہاں پر انسان کو حقیقی انسان یاانسان کامل بنایا جاتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کی روشن تاریخ’’صفہ‘‘ کی اس چبوترے سے جڑی ہوئی ہے جس کے بانی خود معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تھے ’’اصحاب صفہ‘‘ ہی وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے اسلام اور تعلیمات اسلام کی خوب ترویج و اشاعت ہوئی ہے۔ مدارس اسلامی میں قال اللہ عزوجل اور قال رسول ?کے پنگھٹ سے تشنگان علوم کو مختلف علوم و فنون کے ساتھ ساتھ صالح فکر و خیال، پاکیزہ اخلاق و عمل، شرعی اقدار، دینی احکام و روایات، اسلامی عقائد و تعلیمات،امن پسندی،انسانی احترام اور بھائی چارگی کا وہ تمغہ دیا جاتا ہے جو دنیا و آخرت دونوں جہان میں کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی تقریبا 200 سالہ جبری حکومت اور ظلم و بربریت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے ہزاروں جیالوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی اور مادر وطن کو ان کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔آزادی کے بعد دیس کے بٹوارے کا معاملہ درپیش ہوا ہندوستان اور پاکستان کے الگ ہونے کے بعد ہی سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ جو سوتیلا پن کا رویہ برتا جا رہا ہے یہ کسی پر بھی مخفی نہیں ہے،اس کی حقیقت ہر ایک پر روزروشن کی طرح عیاں ہے۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں پر جمہوری نظام چلتا ہے۔ہندوستان ہی واحد ایسا ملک ہے جہاں قدم قدم پر مختلف قبائل، طبقات،رنگ و نسل، علاقہ و زبان اور رسم و رواج کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ کافی چیزوں میں جدا جدا ہونے کے باوجود ہر ایک فرد کا مل جل کر رہنا ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ’’جمہوریت ہندوستانیوں کی پسند نہیں بلکہ مقدر ہے‘‘جو مختلف المزاجی،گوناگوں تہذیبوں،رنگا رنگ ثقافتوں اور متضاد عقائد و نظریات کی نمائندگی کر رہی ہے۔
ہندوستان مسلمانوں کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے۔یہاں پر مسلمانوں کی کل آبادی تقریبا 14 فیصد ہے ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریبا 75 سال سے زائد کا عرصہ گزگیا ہے۔لیکن اس کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی کی فضا میں کھل کر سانس لینے کا موقع میسر نہیں آرہا ہے۔ موجودہ وقت میں ملک کے گوشے گوشے میں مسلمان جس ظلم و زیادتی، خوف و دہشت،قتل و غارت گری،فساد اور جبر و تشدد کا شکار ہیں وہ ناگفتہ بہ اور ناقابل تحریر ہے۔
2014ء کے بعد جب سے بی جے پی حکومت آئی ہے پورے ملک میں مسلمانوں ہی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے حالاں کہ ہندوستان کے آئین میں دفعہ 25 سے 28 تک تمام شہریوں کو مذہبی آزادی تفویض کی گئی ہے۔دفعہ 25 کے تحت تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے۔دستور کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔جو اپنے باشندوں کو مذہب و ملت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھی بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
لیکن حال کے کچھ سالوں میں مسلم اقلیت کے خلاف استحصال کے معاملات کافی بڑھ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے جان و مال، عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت اور مذہب و شریعت سب کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ہندوستان میں ’’آر ایس ایس‘‘اور ان کی ہمنوا تنظیمیں مسلمانوں کے درپے ہو گئے ہیں اور وہ ایسے من مانی کرتے ہوئے دندناتے پھر رہے ہیں گویا حکومت کی طرف سے انھیں قتل و غارت گری اور فساد ات کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔
موجودہ دور میں ہندوستانی مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کہیں پر مسلمان کو مارا جا رہا ہے، کہیں پرکاٹا جا رہا ہے،کہیں پر داڑھی رکھنے پر روک لگائی جا رہی ہے،کہیں پر بے قصور کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،کہیں پر گؤ کشی کے نام پر ناحق خون بہایا جا رہا ہے، کہیں پر چھوٹی چھوٹی پھول سی بچیوں کی آبرو ریزی کی جا رہی ہے، کہیں پر اذان دینے پر پابندی لگائی جا رہی ہے،تو کہیں پر مساجد و مدارس کی تعمیر پر روک لگائی جا رہی ہے۔
16دسمبر کی صبح صبح جب میں نے اخبار کھولا،کھولتے ہی میری نظر اس عنوان پر پڑی کہ’’آسام میں 1281 دینی مدارس کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا‘‘ دیکھتے ہی میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی، میں انگشت بدنداں رہ گیا،کچھ دیر کے لیے سکتے میں چلا گیا تھا۔پھر کچھ دیر بعد ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے عالم تخیل میں اپنے آپ سے ایک سوال کرنے لگا کہ ?اخر ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟۔جہاں پر یہ کہاجاتاہو کہ’’ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی۔سب ہیں آپس میں بھائی بھائی‘‘یہ تو صرف زبانی جمع خرچ ہے۔آسام میں مدارس کو تبدیل کر کے اسکول بنانے کی ضرورت کیا تھی یہ کسی سازش ہی کے تحت ہوا ہے،مسلمانوں کو اب بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمانوں کواسکول ہی بنانا ہوتا تو روز اول ہی سے اسکول بناتا مدرسہ نہ بناتا۔ مدارس کی بنا کا واحد مقصد دین کی باتیں پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ تاکہ ایک صالح انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی اچھی طریقے سے گزارسکے۔اور راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لاسکے۔ عوام میں پھیلی ہوئی برائیوں کا جڑ سے خاتمہ کرسکے۔
قجن دہشت گرد تنظیموں کو لگتا ہے کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم ہوتی ہے اور یہاں کے فارغ التحصیل افراددہشت گرد ہوتے ہیں انھیں مدارس اور وہاں سے فارغ ہونے والوں کے بارے میں بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔جب تک اسلام دشمن طاقتیں بغض و عداوت کے گرد آلود عینک ہٹا کر نہیں دیکھیں گے۔روز بروز ان کی عداوتوں میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
1857ء کی تحریک کے مختلف مراحل کے دوران ہندوستان کے لیے لڑنے والے اور اپنی جانوں کا نذانہ پیش کرنے والے مدارس ہی کے علما تھے۔ جن کی تعداد تقریبا نصف ملین سے بھی زیادہ تھی۔بتایا جاتا ہے کہ دہلی میں کوئی ایسا درخت نہیں تھاجس میں علما کولٹکایانہ گیاہو۔ مسٹر آزاد کے’’الہلال‘‘ کے مطابق انگریزوں کے ساتھ مقابلہ کر کے ان کے دانت کھٹا کر دینے والے مدارس ہی کے پیداوار تھے۔ان میں سے چند یہ ہیں: (1)مولانا اجمل خان۔(2) مولانا سیدہ عطاء اللہ خان بخاری۔(3) اشفاق اللہ خان۔(4) مفتی عنایت احمد کاکوروی۔(5) علامہ فضل حق خیر آبادی وغیرہم۔ ان ہی لوگوں کی محنتوں، کاوشوں اور مشقتوں سے ویران گلستان کو دوبارہ شادابیاں حاصل ہوئیں۔اے مدارس پر ظلم و ستم ڈھانے والو! یاد رکھو اگر ان علمائے کرام کی روز و شب کی سعی پیہم نہ ہوتی تو ہم اور تم کیا پورا ہندوستان غلامی ہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے۔ اسلام اور مسلمانوں سے بغض و عناد کو ختم کرو اور دستور کے مطابق خود بھی اور ہر ایک کو امن و سکون سے زندگی گزارنے دو۔اللہ تعالیٰ ہمارے وطن و عزیز میں امن و سکون عطا فرمائے، ہمارے مساجد، مدارس اور دینی شعائر کی حفاظت فرمائے،