بیاد قمر جہاں بیگم

0
0

نوجونوں کواپنے والدین اور بزرگوںسے اہم معلومات حاصل کرنا چاہئے
دانشوروں کانئی نسل کو پیغام

عرفان عارف

جموں؍؍۱۹؍ فروری ۲۰۲۴ء کو ایک اہم عالمی ویبینار میںبولتے ہوئے مشہور دانشوروں اور پرو فیسروں نے اردو ادیب عارف نقوی کے ایک تاریخی انٹرویو کی اہمیت پر زور دیا ، جو انہوں نے اپنی والد کی وفات سے قبل لکھنئو میں لیا تھا اور نوجوانوں کو مشورہ دیا، کہ وہ اپنے والدین اور خاندانی بزرگو ںسے اپنے خاندان اور ان کے وقت کے سماجی اور سیاسی حالات کے بارے میں بہت کچھ جانکاریاں حاصل کر یں۔
یہ ویبینار تحریک بقائے اردو کی طرف سے جرمنی میں ۶۳ برس سے مقیم اردو مصنف، صحافی، ڈرامہ نگار اور ہمبولٹ یونیورسٹی کے سابق استاد عارف نقوی کی والدہ محترمہ قمر جہاں بیگم مرحومہ کی برسی کے موقع پر کیا گیا۔ جن کا انتقال ۱۹۹۷ء میں ۸۷ برس کی عمر میں لکھنئو میں کینسر سے ہوا تھا۔ وہ بہت سے تاریخی واقعات کی شاہد تھیں۔
ویبینار میں شرکت کرنے والوں نے اس انٹرویو کو بے مثال اور نہایت مفید بتاتے ہو ئے کہا کہ عارف نقوی نے اپنی ماں سے ان کے انتقال سے قبل انٹرویو لینے کا جو پہلا قدم اٹھایا ہے اس کا دوسرے سبھی بیٹوں کو پالن کرنا چاہئے۔ ویبینار کے شرکاء نے قمر جہاں بیگم کی مختلف صفات کو یاد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔اور بتایا کہ اس انٹرویو کی مدد سے نہ صرف ان کے خاندانی حالات کو بلکہ اس وقت کے تاریخی و سماجی حالات کو دیکھنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ اپنی قسم کا پہلا انٹرویو ہے جو عارف نقوی نے والدہ کے انتقال سے قبل ان سے لیا تھا اور انہوں نے اپنی علالت کے باوجود خاندان اور اس وقت کے لکھنئو کے بارے میں کھل کر اہم معلومات فراہم کی ہیں۔
عارف نقوی نے اپنے اس انٹرویو کو دنیا کی سبھی مائوں کے نام منسوب کیا۔اور کہا کہ میرا مقصد صرف اپنی ماں کی عظمت کا ذکر کرنا ہی نہیں تھا، بلکہ دکھانا تھاکہ مائوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے انٹرویوں کے کچھ اہم حصے پڑھ کر سنائے۔میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری نے عارف نقوی کی والدہ کی صفات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کا عکس عارف نقوی میں نظر آرہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی ایک بار ایسے انٹرویو جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
اسلام آباد، برلن اور ہاورڈ امریکہ کی یونیورسٹیوں کے سابق پروفیسر اور مشہور تاریخ داں پروفیسر اسلم سید نے بھی قمر جہاں بیگم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور ان کی تعریف کی اور اس انٹرویو کی افادیت پر زور دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایسے ہی انٹرویو دوسرے لوگ بھی اپنے والدین سے لیں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سجاد ظہیر صاحب کی اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر برابر عارف صاحب کو ان کی والدہ کے بارے میں لکھتی رہتی تھیں۔ پروفیسر اسلم سیدنے اپنی والدہ کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار وہ خود سخت بیمار ہو گئے تھے ۔ انہوں نے اپنی والدہ کو خواب میں دیکھا۔ جنہوں نے دلاسا دیا ا ور وہ ٹھیک ہوگئے۔
بون سے سینئیر ریڈیو صحافی محترمہ کشور مصطفی نے مرحومہ قمر جہاں بیگم کی صفات اور خوبیوں پر روشنی ڈالی۔لکھنئو سے کھن کھن جی کالج کی پروفیسر ریشما پروین نے بتایا کہ جب بھی عارف انکل لکھنئو آتے تھے شارب بابا کے گھر پر ان کی والدہ کے سلسلے میں خاص طور سے گفتگو ہوتی تھی۔تحریک بقائے اردو کے نائب صدر جاوید انور نے عارف نقوی کی والدہ کی خوبیوں کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنے غریب کرایہ داروں کی بہت مدد کرتی تھیں لیکن انہوں نے خود کبھی کسی کو اس کے بارے میں نہیں بتایا۔ بعد میں جن لوگوں کی وہ مدد کرتی تھیں انہوں نے خود اس کے بارے میں بتایا۔ ویبینا کا پروگرام جو کئی گھنٹے چلا اس میں اپنے تعارفی الفاظ میں تحریک بقائے اردو کے صدر عرفان عارف نے پروگرام کے آخر میں تمام شرکاء محفل اور ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس قسم کے پروگرام آئندہ بھی کئے جائیں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا