عارف شجر
حیدرآباد (تلنگانہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکز سے نریندر مودی کی وداعی کا وقت آ گیا ہے ،یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ 23جون کو اپوزیشن جماعتوں کی بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ہونے والی اہم اور تاریخی میٹنگ کے اشارے بتا رہے ہیں کہ مودی حکومت کے چل چلائو کے دن قریب آ گئے ہیں۔ ملک کے اپوزیشن جماعتوں کوموجودہ مرکزی حکومت کے خلاف ایک ساتھ لانے کے لئے جس طرح سے بہار کے سی ایم نتیش کمار سرگرم ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔انکی یہی محنت اب رنگ لانے لگی ہے۔ نتیش کمار نے یہ پہلے ہی کہہ دیا کہ وہ پی ایم کے امیدوار نہیں ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی خواہش رکھتے ہیں بلکہ ملک میں جس طرح کی تانا شاہی حکومت چل رہی ہے اور جمہوری نظام کو جس طرح سے تار تار کیا جا رہا ہے اسے اکھاڑ پھینکا ہم سب کی ذمہ دار ہو گئی ہے۔ اس تانا شاہی حکومت کے لئے کسی نہ کسی کو تو پہل کرنے کی ضرورت تھی اور بغیر کسی خوف کے مودی حکومت کے خلاف اور ملک میں جمہوری نظام اورآئین کی پاسداری اور تحفظات کو برقرار رکھنے کے لئے پہلا قدم میں نے بڑھا دیا ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو مرکزی حکومت کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے دو دو ہاتھ کرنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں جو خبر نکل کر سامنے آ رہی ہے کہ 18 سے زائد اپوزیشن جماعتوں کی شرکت متوقع ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت پورے شباب پر ہوگا جسکا ڈر اندر ہی اند ر بی جے پی خیمے میں دیکھائی دے رہا ہے۔ نتیش کمار نے اپوزیشن جماعتوں خصوصی طور سے کانگریس سے یہ کہا ہے کہ وہ صرف بی جے پی کو 100 سیٹ حاصل نہ کرنے دیں اپوزیشن کو اقتدار میں آنے کے لئے 100 سیٹ ہی جادوئی آنکڑا ہے۔100 سیٹ پر ہی بی جے پی کو شکست دینا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے ریاست جہاں علاقائی پارٹی کی حکومت ہے وہاں عظیم اتحاد بنایا جائے اور بی جے پی کے خلاف بس ایک امیدوار کو میدان میں اترا جائے اس میں خصوصی طور سے اتر پردیش کی80 سیٹیں ، بہار کی 40 ،بنگال کی 42 ،مہاراشٹر کی48، دہلی کی 7، پنجاب کی13 اور جھارکھنڈ کی14 لوک سبھا سیٹیں شامل ہیں۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ اس طرح کی حکمت عملی تیار کی جائے تو یقیناً بی جے پی کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
دوسری جانب بی جے پی کے سینئر قائدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اتحاد قبل بھی ہو چکے ہیں اس سے بی جے پی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ 300 سو سے زائد سیٹیں لا کر اپوزیشن جماعتوں کو چونکا نے والی ہے۔ بی جے پی کی اس بات میں کتنا دم ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ بہار میں مخلوط حکومت کی پہلی شکل1967 کے اسمبلی انتخابات میں دیکھی گئی تھی جب پوری اپوزیشن نے مل کر کانگریس کی حکومت نہیں بننے دی تھی ۔ انتخابات سے پہلے تمام پارٹیاں الگ الگ الیکشن لڑی تھیں لیکن جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک نئی مساوات بن گئی ۔ کانگریس کو پہلی بار اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔ مخلوظ حکومت کی تشکیل ہوتے ہی اس کا عمل شروع ہو گیا۔ اس کے بعد آپکو حیرت ہوگی کہ مزید تین تجربات ہوئے ۔ 1969، 1977، 1990 میں صرف مخلوط حکومتیں بنیں۔ یہ سلسلہ 1990 کے بعد بھی جاری رہا۔ 2000 سے اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں کسی بڑی جماعت کو اکیلے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ 2015 میں ایک نیا تجربہ ہوا، جب جے ڈی یو اور آر جے ڈی ایک اسٹیج پر آئے تو کانگریس بھی نظر آئی۔ اس بار بھی دونوں اتحاد میدان میں ہوں گے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس الیکشن میں ریاست میں اب تک چھ اتحاد بن چکے ہیں۔
23 جون کو اپوزیشن کی میٹنگ اہم ہے لیکن اس کڑی میں یہ بھی درست ہے کہ اس میٹنگ میں راہل گاندھی ، کانگریس کے قومی صدر ملکا ارجن کھرگے، سی ایم ارویند کیجریوال، این سی پی قائد شرد پاوار، ادھو ٹھاکرے، جموں کشمیر کی سابق سی ایم محبوبہ مفتی، اور قاروق عبداللہ کے علاوہ تمل ناڈو سی ایم اساٹالین، جھارکھنڈ سی ایم ہیمنت سورین، اتر پردیش کے سابق سی ایم اکھلیش یادو آ رہے ہیں لیکن وہیں نوین پٹانائک، جگن موہن ریڈی ، کے چندر شیکھر رائو اورمایا وتی اور ہندوستانی عوام پارٹی کے سر براہ جتن رام مانجھی کو دعوت نہیں دی گئی ہے اس میٹنگ میں انکا آنا ضروری نہیں سمجھا گیا ہے۔ جتن رام مانجھی سے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ بہار کے 5 سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے تھے اس سلسلے میں جتن رام مانجھی سی ایم نتیش کمار سے بھی ملاقات کی تھی ۔ اب جبکہ مانجھی کو اپوزیشن کی میٹنگ میں دعوت نہیں دی گئی ہے تو کہا یہ جا رہا ہے کہ مانجھی اپنی راہ الگ کر سکتے ہیں، دبی زبان میں چرچہ ہے کہ وہ بی جے پی سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ ایس سی اور ایس ٹی وزیر سنتوش کمار سمن نے یہ کہتے ہوئے بہار سرکار سے استعفی دے دیا تھا کہ انکے والد جتن رام مانجھی پر ہندوستانی عوام مورچہ کا جے ڈی یو میں ضم کرنے کا دبائو تھا۔ وہیں سی ایم نتیش کمار نے کہہ کہ ہندوستان عوام پارٹی ویسے بھی بی جے پی کی جانب بڑھ رہی تھی اور یہ بہتر ہے کہ سنتوش کمار نے عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ہندوستان عوام پارٹی کو این ڈی اے میں دیکھنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ وہیں عام آدمی پارٹی نے واضح کیا ہے کہ اگر کانگریس پنجاب اور دہلی سے الیکشن نہیں لڑتی ہے تو صرف مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس کے ساتھ تعاون کرے گی۔ اس سے قبل، مغربی بنگال میں پنچایت انتخابی مہم کے دوران، ممتا بنرجی نے خبردار کیا تھا کہ اگر کانگریس بنگال میں اپنی سخت حریف بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد جاری رکھتی ہے، تو وہ اس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوں گی۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پرمود تیواری نے کہا کہ اپوزیشن کا اتحاد بیانات سے زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات سے قبل بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ امیدوار ضروری ہے۔ ملک میں دو اتحاد ہیں، ایک وہ جو گاندھی جی کو مانتے ہیں اور دوسرے وہ جو گوڈسے کو مانتے ہیں۔ ہمیں جمہوریت اور آئین کو بچانے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ اگر بی جے پی اقتدار میں رہتی ہے تو وہ ہر ریاست کو منی پور کی طرح بنا دیے گی اور ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر بدامنی پورے ملک میںپھیلا دے گی ۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے پر بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کا چہرہ کوئی بھی ہو، نظریہ ایک ہی ہے، یہی اہمیت رکھتی ہے۔
بہر حال کانگریس اور مغربی بنگال کی سی ایم ممتا بنرجی میں ہمیشہ سے ہی دوری رہی ہے لیکن 23جون کی میٹنگ میں راہل گاندھی اور ممتا بنر جی کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے صدر اور سابق ریلوے وزیر لالو پرساد کو ان کے انتظام کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔ لالو نے کانگریس کو سنبھالنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ 23 جون کو اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ سے قبل راہول گاندھی کانگریس کے ریاستی دفتر میں اپنی پارٹی کے لوگوں سے ملاقات کریں گے، جب کہ اس میٹنگ سے پہلے ممتا بنرجی لالو پرساد سے ملاقات کریں گی۔ لالو-ممتا کی ملاقات کے دوران نتیش بھی رہ سکتے ہیں۔ میٹنگ کا ایجنڈا یہ ہے کہ دیگر معاملات میں کانگریس کے ساتھ ترنمول کے تعلقات چاہے کچھ بھی ہوں، مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف یکجہتی میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ اب سب کی نگاہیں 23 جون کو ہونے والی اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ پر جا کر ٹکی ہوئی ہیں اس میٹنگ میں کیا بات نکل کر سامنے آتی ہے اور کیا مودی حکومت کے خلاف متحد ہونے کا ثبوت ہر پارٹی اپنے اپنے طور سے دے گی ،یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
ختم شد