بہار اُردو اکادمی کے سیکریٹری سے پہلی ملاقاتے؟‘‘

0
0

’’بڑے عہدوں پہ براجمان لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سامنے والا انسان بھی اپنے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا حساس دل رکھتا ہے؟‘‘

جمیل اخترشفیق
9973234929

 

مشہور ادیب وکالم نگار محترم پروفیسر صفدر امام قادری کا حکم ہوا کہ مجھے 24مئی کی شب بدھ گیا کے اس آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کرنی ہے جو بہار اردو اکادمی کے ماتحت منعقد ہونے جار ہا ہے۔قدآور شعرائے کرام کی فہرست دیکھ کر طبعی خوشی ہوئی کیونکہ مستندشعراء کا انتخاب کیا گیا تھا، دل میں امنگوں کا ایک سیلاب موجیں مار رہا تھا۔ محترم صفدر امام قادری صاحب کے حکم کے مطابق مجھے اردو اکادمی کے سکریٹری کے ساتھ مشاعرے کے لیے نکلنا تھا ۔متعینہ وقت کی پابندی کرتے ہوئے بدن کو  جھلسا دینے والی گرمی میں دوپہر کے بارہ بجے اکادمی پہنچ گیا۔ سکریٹری محترم کے دروازے پہ پہنچ کر چپراسی سے بتایا کہ مجھے مشتاق احمد نوری صاحب سے ملنا ہے، اس نے اصول کی پابندی کرتے ہوئے کاغذ کی ایک پرچی میرے ہاتھ تھمائی میں نے اس پہ اپنا نام درج کردیا وہ اندر پرچی لے کر گیا اجازت میں ملی تو اندر داخل ہوا ۔دیکھا ایک بڑے سے اے سی روم میں چمکتا ہوا خوبصورت چہرہ، چمکتی ہوئی داڑھی،آنکھوں پہ عینک، پیشانی پہ سجدوں کے نشان لیے نوری صاحب وقاروتمکنت کی کرسی پہ تشریف فرماہیں ۔پہلی نظر میں شخصیت متأثرکن معلوم ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد گردن نیچی کیے، بڑے خشک لہجے میں انہوں نے پوچھا:’’ کہیے کیا کام ہے؟‘‘ ان کے اس سوال پہ مجھے سخت حیرت ہوئی۔ میں نے سوچا کئی ہفتوں سے مشاعرے کی تیاری ہو رہی ہے، پٹنہ اکادمی کے صدر گیٹ پہ اشتہار لگا ہوا ہے، پروگرام بہار اردو اکادمی کے زیرِ اشراف ہورہا ہے اور سکریٹری صاحب کو شعراء کے نام تک یاد نہیں! شاید انہوں نے اشتہار دیکھنے کی زحمت نہیں کی ہوگی، یا بھول گئے ہوں گے۔پھر خیال آیاکہ اتنے بڑے عہدے پہ بیٹھنے والے شخص کا ذہن اتنا کمزور تو نہیں ہونا چاہیے کہ گنتی کے چند منتخب شعراء کے نام تک یاد نہ ہوں!  مشہور ادیب وکالم نگار محترم پروفیسر صفدر امام قادری کا حکم ہوا کہ مجھے 24مئی کی شب بدھ گیا کے اس آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کرنی ہے جو بہار اردو اکادمی کے ماتحت منعقد ہونے جار ہا ہے۔قدآور شعرائے کرام کی فہرست دیکھ کر طبعی خوشی ہوئی کیونکہ مستندشعراء کا انتخاب کیا گیا تھا، دل میں امنگوں کا ایک سیلاب موجیں مار رہا تھا۔ محترم صفدر امام قادری صاحب کے حکم کے مطابق مجھے اردو اکادمی کے سکریٹری کے ساتھ مشاعرے کے لیے نکلنا تھا ۔متعینہ وقت کی پابندی کرتے ہوئے بدن کو  جھلسا دینے والی گرمی میں دوپہر کے بارہ بجے اکادمی پہنچ گیا۔ سکریٹری محترم کے دروازے پہ پہنچ کر چپراسی سے بتایا کہ مجھے مشتاق احمد نوری صاحب سے ملنا ہے، اس نے اصول کی پابندی کرتے ہوئے کاغذ کی ایک پرچی میرے ہاتھ تھمائی میں نے اس پہ اپنا نام درج کردیا وہ اندر پرچی لے کر گیا اجازت میں ملی تو اندر داخل ہوا ۔دیکھا ایک بڑے سے اے سی روم میں چمکتا ہوا خوبصورت چہرہ، چمکتی ہوئی داڑھی،آنکھوں پہ عینک، پیشانی پہ سجدوں کے نشان لیے نوری صاحب وقاروتمکنت کی کرسی پہ تشریف فرماہیں ۔پہلی نظر میں شخصیت متأثرکن معلوم ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد گردن نیچی کیے، بڑے خشک لہجے میں انہوں نے پوچھا:’’ کہیے کیا کام ہے؟‘‘ ان کے اس سوال پہ مجھے سخت حیرت ہوئی۔ میں نے سوچا کئی ہفتوں سے مشاعرے کی تیاری ہو رہی ہے، پٹنہ اکادمی کے صدر گیٹ پہ اشتہار لگا ہوا ہے، پروگرام بہار اردو اکادمی کے زیرِ اشراف ہورہا ہے اور سکریٹری صاحب کو شعراء کے نام تک یاد نہیں! شاید انہوں نے اشتہار دیکھنے کی زحمت نہیں کی ہوگی، یا بھول گئے ہوں گے۔پھر خیال آیاکہ اتنے بڑے عہدے پہ بیٹھنے والے شخص کا ذہن اتنا کمزور تو نہیں ہونا چاہیے کہ گنتی کے چند منتخب شعراء کے نام تک یاد نہ ہوں!  دفعتاً اِن سوالوں کے حصار سے باہر نکل کر میں نے اپنا مدّعا بیان کیا کہ بدھ گیا کے مشاعرے میں میری بھی شرکت ہونی ہے ۔پروفیسر صفدر امام قادری صاحب نے کہا تھا کہ بارہ بجے نکلنا ہے ،وہ کہیں باہر پروگرام میں ہیں اْدھر ہی سے آئیں گے اسی لیے وہ مجھ سے بولے کہ میں پٹنہ سے آپ کے ساتھ جاؤں اسی بناپر حاضر ہواہوں۔ اس پر نوری صاحب کا جواب کچھ یوں تھا :’’ہاں چلنا تو ہے، لیکن شیڈول کچھ بدل گیا ہے۔ ایک بجے آفس سے نکلوں گا،گھر جاؤں گا،نماز ادا کروں گا، پٹنہ سے نکلتے نکلتے ڈھائی بج جائیں گے ،جب تک آپ چاہیں تو اِدھر اْدھر ٹائم پاس کریں۔‘‘ میں نے کہا:جی! جیسا آپ کہیں۔‘‘ اجازت لے کر باہر آگیا اس بیچ چائے تو دور ایک گلاس پانی تک پلوانے کی انہوں نے زحمت نہیں کی مجھ سے یوں محو کلام رہے جیسے اکادمی کا کوئی عملہ ان کے ماتحت میں کام کرنے والا ملازم فوری طور پر چند منٹوں کے لیے آیا ہو اور وہ ان سے مخاطب ہوں، تھوڑی طبیعت رنجیدہ ہوئی ،سوچنے لگا کیا ادب واخلاقیات کے نام پر بننے والی تنظیم کے اعلا عہدے پہ فائز انسان کا یہی فرض ہونا چاہیے؟ شعراء وادباء کی حوصلہ افزائی اور تکریم جہاں ہونی چاہیے وہاں تو سامنے والے کو یہ بھی نہیں پتہ اگر عام انسان بھی کسی غریب کے دروازے پہ بھی جاتا ہے تو وہ اس کے سامنے کچھ نہ سہی پانی ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ کیا اِس قوم کا معیار اتنا گرگیا ہے کہ دھوپ کی شدت میں چل کر آنے والے انسان کے سامنے پانی کا ایک گلاس بھی پیش نہ کیا جائے؟سچ تو یہ ہے کہ اے سی میں رہنے اور اے سی میں گھومنے والے انسان کو یہ کہاں خیال رہتا ہے کہ دھوپ کی مار جھیلنے والے اسی کے جیسے گوشت پوست رکھنے والے ذی روح لوگ ہوتے ہیں۔ انسان چاہے جتنے بڑے عہدے پہ پہنچ جائے ان تمام چیزوں سے الگ ہٹ کر انسانیت نوازی،ملنساری اور حسنِ اخلاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔دردِ  دل کے واسطے پیدا کیا  انسان  کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں بوجھل قدموں کے ساتھ میں نوری صاحب کی آفس سے باہر نکل گیا۔ باہر کا منظر شدید دھوپ کے سبب ایسا تھا جیسے پورا پٹنہ شہر شعلوں کے بیچ دہک رہا ہو۔ چاہ کر بھی طبیعت آمادہ نہیں ہوئی کہ باہر کچھ وقت بتاؤں، اسی لیے ان کی آفس کے باہر ہی ایک کرسی پہ بیٹھ کر وقت کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ گھڑی نے ایک بجائی، اذان بھی ہوئی اور نماز بھی۔اضطراب بڑھا لیکن کر بھی کیا سکتا تھا خاموشی سے صبروضبط کے ساتھ نوری صاحب کا منتظر رہا۔ لگ بھگ ڈیڑھ بجے کے قریب وہ اپنی جنت نما آفس سے باہر نکلے، چند نوخیز قوم کی بیٹیاں سیڑھیوں سے اوپر چڑھتی ہوئی دکھائی دیں، جو شاید کوچنگ وغیرہ سے جڑی ہوئی ہوں گی نوری صاحب کو سلام کی تو وہ ٹھہر گئے، کچھ بات کی اور چلتے بنے۔ لیکن چند گز فاصلے پہ بیٹھا ہوا وہ قلندر صفت آدمی انہیں نظر نہیں آیا جس نے ایک گھنٹہ قبل کہا تھا کہ بدھ گیا آپ ہی کے ساتھ چلنا ہے، انہوں نے مجھے ٹوکنا تو دور، دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ میں نے سوچا شاید یونہی کسی کام سے گئے ہوں گے چند منٹوں میں لوٹ آئیں گے ،لیکن کچھ وقت بیت گیا تو میں نے وہاں کے ایک عملہ سے پوچھا کہ نوری صاحب کہاں گئے ہیں ؟تو انہوں نے بتایا کہ انہیں پروگرام میں جانا ہے، گھر نکل گئے، اب کل آئیں گے۔بہت   بلند   فضا    میں   تری    پتنگ    سہی مگر یہ سوچ کبھی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟ نوری صاحب کا یہ خلافِ توقع انداز دیکھ کر دل کو ایک دھچکا سا لگا۔عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچی۔جی کیا کہ چیخ کر ان سے پوچھوں: کیا آپ جیسے وضع قطع کا شریف نظر آنے والا انسان اتنا اخلاق کا گرا ہوا ہوتا ہے؟ کیا آ پ کو رسولِ کائنات کا مہمانوں کے ساتھ ملنا جلنا نہیں معلوم؟ کم ازکم میرا نہ سہی اس آدمی کے حوالے کا بھرم رکھ لیتے جنہیں دنیائے ادب صفدر امام قادری کے نام سے جانتی ہے؟مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی شرافت کو زینہ بناکر فلاحی یا ادبی اداروں کے بڑے عہدوں پہ بیٹھنے والے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان سے ملنے والا ہر انسان اپنے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے؟ اور شاعر تو ویسے بھی فطری طور پر حساس ہوتا ہے، وہ بڑی سے بڑی چیزوں کو ٹھوکر مار سکتا ہے لیکن اپنی تذلیل برداشت نہیں کرسکتا، سنا ہے نوری صاحب کا لٹریچر سے کا گہرا تعلق ہے، انہیں تو کم ازکم اس درجہ بے حس نہیں ہونا چاہیے، کرسیاں، عہدے، بلندیاں یہ سب آتے جاتے رہتے ہیں،آج وہ ہیں تو کل کوئی دوسرا آئے گا، لیکن ایک چیز ہے جو باقی رہ جاتی ہے وہ ہے انسان کا اخلاق وکردار۔ ایک انسان اپنی غیر اخلاقی حرکتوں صرف بندہ ہی نہیں اللہ کی نظروں میں بھی مبغوض ہوجاتا ہے،جب بندے کا دل دُکھتا ہے تو رب تعالی کا عرش حرکت میں آجاتا ہے۔ ملنے جلنے والا انسان چاہے جیسا دکھائی دے اسے کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک زندہ دل اہلِ قلم نئی نسلوں پہ شفقتوں کا دریا بہاتا ہے۔خلوص وایثار کے پھول نچھاور کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنے پست کردار کا نمونہ پیش کرکے ان کے اندر منفی تأثرات کو پنپنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ چند مہینے قبل یونہی بات سے بات نکل آئی تو میں نے بہار کے ایک صاحبِ نظر سے پوچھا کہ ’’مشتاق احمد نوری صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ کیسے انسان ہیں؟ ‘‘تو انہوں نے ایک بڑا ذو معنیٰ جملہ کہا تھا کہ’’وہ ایک خود ساختہ سکریٹری ہیں ‘‘جبکہ میری فطرت میں یہ شامل ہی نہیں کہ ہر سنی سنائی باتوں پہ آنکھیں موند کر یقین کرلوں،اِ دھراُدھر سرپھروں کی طرح اس کا ذکر کرتا پھروں، جب تک براہِ راست کسی سے ملاقات نہ ہوجائے۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے میں مثبت ہی رائے دیتا ہوں، لیکن ملاقات کے بعد نوری صاحب کے طرزِ عمل سے یوں لگا کہ اُس صاحبِ نظر نے ہلکا جملہ کہا تھا اس سے بھی کوئی سخت جملہ کہا جاتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ جہاں تک پروگرام کی بات ہے تو بڑی قلیل مدت میں بڑے بڑے پروگرام کا ناچیز حصہ رہا ہے۔ ایسے لوگوں سے بھی ملاقات کا شرف حاصل رہا جن کے دروازے پہ نوری صاحب جیسے درجنوں لوگ روز حاضری دیتے ہیں، لیکن اس درجہ تنگ نظری کا مظاہرہ میں نے کسی کو پیش کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ مقدر سے زیادہ وقت سے پہلے انسان کو کچھ نہیں ملتا ۔ایسی بلندیاں جہاں پہنچ کر انسان کی عزتِ نفس محفوظ نہ ہو میں اسے پیر کی ٹھوکروں پہ رکھتا ہوں۔ ہر انسان کو ایک عینک سے دیکھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کرسیوں، عہدوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کون کیا ہے وہ تو بس اخلاق ومحبت کے بھوکے ہوتے ہیں، انہیں بس پیار چاہیے، کیونکہ اس کے علاوہ دنیا کے اندر کوئی ایسی مشین موجود نہیں جس سے انسانوں کے قلوب کو مسخر کیا جاسکے۔ہے محبت میں وہ طاقت کے بنے سنگ بھی موم حسنِ اخلاق  سے  کافر  کو  مسلماں کردے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا