تحریر:۔ خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور
آج سے ٹھیک ایک ماہ پہلے 4/ جون 2020 کو سہ پہر 3/ بجے تحریک علمائے ہند اور ادارہ قرآن کے مشترکہ بینر تلے "مسلم دنیا میں طوفانی رفتار سے بڑھ رہا الحاد: اسباب اور علاج” کے عنوان پر زوم ایپ کے ذریعے آن لائن ویبنار کیا گیا۔
غیرت مندانہ اسلامی مزاج رکھنے والے اس عنوان ہی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ موضوع کتنا حساس رہا ہوگا۔ فقیر ذاتی طور پر اسے اپنی عملی زندگی کا سب سے زیادہ زیادہ حساس اور اہم ترین موضوع گردانتا ہے۔ موضوع پر گفتگو کرنے والے ریسرچر ایڈووکیٹ فیض قادری، اتر پردیش کے کان پور کے رہنے والے نو جوان تھے، جنھیں غیر پیشہ ورانہ طور پر اس موضوع سے لگاؤ ہے اور انھوں نے دوران گفتگو اپنے اس غیرت مندانہ لگاؤ اور موضوع کا حق بھی ادا کیا۔ اس مضمون میں درج مواد کا بیشتر حصہ فیض قادری کی اسی گفتگو سے مستفاد و ماخوذ ہے۔ یہ مواد مضمون کی شکل میں اس لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ مذہبی طبقے کو کرنٹ ایشوز پر کام کرنے کی ایک بہت معقول اور ضروری جہت ملے اور کار دعوت جو پچھلی ایک مدت سے ہماری بے اعتنائی کا شکار ہے، حیات نو پائے۔
الحاد کا مطلب:- الحاد کو ہندی میں (नास्तिकता) اور انگریزی میں (Atheism) کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر یہ لفظ لامذہبیت، یا دہریت، یا اصول اسلام سے دوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عرفا اگرچہ الحاد کو لامذہبیت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے اگر کسی سابق الاسلام محروم القسمت کو ملحد کہا جاتا ہے تو اسلامی اور اصولی نقطہ نظر سے یہ ارتداد کے مترادف ہے کیوں کہ اسلام اور کفر کے درمیان کوئی واسطہ، یا تیسرا درجہ نہیں ہوتا بلکہ اسلام کو نہ ماننا ہی کفر اور بسا اوقات یہی ارتداد ہوا کرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر سیاسی دنیا میں مذہبی خانہ پری کے ساتھ الحاد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں عموم ہوا کرتا ہے اور یہ لفظ ان تمام لوگوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جو اسلام سے برگشتہ ہوئے ہوں، یا دنیا کے کسی بھی مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہوئے ہوں۔
الحاد کے اسباب:- دوسرے مذہبوں کی پابندیوں سے آزاد ہونے والے کیوں کر مذہب بیزار ہو رہے ہیں؟ نہ ہمیں اس سے کوئی سروکار ہے اور نہ زیادہ ہونا چاہیے، البتہ اسلام سے برگشتگی کے عوامل کیا کچھ ہیں؟ اس پر غور کرنا، اس کی روک تھام کی کوشش کرنا اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوشی کی فکر کرنا نہ صرف ہمارا دعوتی اور قرآنی فریضہ ہے بلکہ اخلاقی فرض بھی ہے۔
فیض قادری کی ریسرچ کے مطابق اس کے کچھ اسباب و عوامل درج ذیل قسم کے ہیں:
(الف) غلامی کا وجود:- ملحدین کا موٹا اعتراض ہے کہ اسلام نے اپنی دینی تکمیل اور غیر معمولی اشاعت کے باوجود دنیا میں پہلے سے پائی جا رہی غلامی پر بند نہیں باندھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اس غیر انسانی روش سے راضی ہے۔ یہ اعتراض کچھ نیا نہیں البتہ من جملہ اعتراضوں میں سے ایک ہے۔
چوں کہ اس مضمون میں ہمارا مقصد ملحدوں کے اعتراضات کے جواب دینا نہیں بلکہ مسئلے کی حساسیت سامنے رکھنا ہے، اس لیے جوابات سے بحث کیے بنا آگے بڑھیں گے، امید ہے جنھیں جواب نہیں معلوم وہ غیرت مند اپنے لیے بھی جواب تلاش کریں گے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے بھی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔
(ب) قرآن غیر منطقی/ غیر سائنسی ہے:- ملحدین کا ماننا ہے کہ قرآن مجید غیر منطقی اور غیر سائنسی کتاب ہے یعنی اس میں معقولیت نہیں جبکہ ہمارا عہد ہر چیز کو منطقی نظر سے دیکھتا ہے اور ہر سوال کا سائنٹفک جواب طلب کرتا ہے اور ہمیں زندگی جینے کے لیے مذہب سے کہیں زیادہ سائنس کی ضرورت ہے۔ اس لیے جہاں مذہب اور سائنس میں تضاد نظر آتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے اول مرحلے میں مذہب پیچھے رہ جا تا ہے اور سائنس امام ہو جاتی ہے۔
(ج) شکوک کا ازالہ نہ ہونا:- ماضی قریب میں الحاد کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ ملحدین کے بجا بے جا شکوک و شبہات کا ازالہ نہ کیا جانا رہا ہے کیوں کہ اس عہد میں میڈیا، فلم انڈسٹری، سیاست، حقوق انسانی اور آزادی رائے جیسے سنہرے بہانوں سے مذہب و مذہبیات کے تئیں تشکیک کا ماحول بنایا گیا لیکن مذہبی دنیا کی طرف سے ان تشکیکات کا جتنے اطمینان بخش انداز سے ازالہ ہونا چاہیے تھا، نہ ہو سکا اور بایں وجہ گزرتے وقت کے ساتھ مذہب بیزار نظریات ذہنوں میں اپنی جگہ پختہ کرتے رہے۔
ایک شخص نے حدیث رسول کا ایک اقتباس سنا: عورتیں مردوں کے مقابل جہنم میں زیادہ تعداد میں جائیں گی۔ اس نے اپنے ذہن سے اسے صنف نازک کے خلاف گردانا اوراسلام کو غیر انسانی مذہب سمجھتے ہوئے، اسلام سے پھر گیا۔
ایک شخص نے اپنے ارتداد کی وجہ یہ بیان کی:
*میری خالہ کو طلاق ہوئی اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر سکی، مجھے اسلام کا یہ طلاق سسٹم پسند نہ آیا، اس لیے میں نے اسلام ترک کر دیا۔
ایک خاتون نے محض اس لیے اسلام سے منہ پھیر لیا کہ اسے حجاب میں معقولیت نظر نہیں آئی اور اسے کسی نے جدید سائنس کی روشنی میں اس کی معقولیت سمجھائی بھی نہیں۔ *
تبلیغ اسلام میں جتنا زور اسلامی تعلیمات و روایات کی ترسیل پر دیا جاتا ہے، اگر اتنا ہی زور اسلامی تعلیمات کا فلسفہ عام کرنے پر دیا جائے تو شاید آج بھی خاصی تعداد اپنا ایمان بچا سکتی ہے۔
(د) سوالوں کا جواب نہ ملنا:- الحاد کے راستے میں ایک بہت معاون طریقہ یہ رہا کہ مذہبی طبقے کی طرف سے اس کے سوالوں کے کبھی تو سرے سے جواب ہی نہیں دیے گئے اور کبھی اس نوعیت کے نہیں دیے گئے، جس نوعیت کے سوال تھے۔ بالخصوص مذہبی تعلیمات پر وارد اعتراضات کے منطقی اور سائنٹفک جوابات نہ ملنا، الحاد کا سب سے بڑا سبب رہا۔
ایک مولانا سے کسی نے پوچھا: جہاں سورج نہیں ڈوبتا، وہاں روزہ کیسے کھولتے ہیں؟ مولانا نے اخلاقی اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے جواباً کہا: تم شیطان کی اولاد ہو۔ اس بندے نے اسی دن اسلام چھوڑ دیا۔
(ھ) اسلام میں تحمل اور انسانیت نہیں:- ملحدین کا کہنا ہے کہ اسلام میں تحمل، رواداری اور معاشرتی مزاج نہیں۔ مختلف مذہبوں کے ماننے والوں کے ساتھ کس طرح گزر بسر کرنا ہے؟ اسلام اس سلسلے میں قدامت پسند واقع ہوا ہے اور اس کے نظریات قابل عمل نہیں بلکہ تشدد پر مبنی ہیں جیسے ایک شخص نے کسی سے بنا تشریح و تفصیل کے سنا: غیر مسلموں سے محبت آمیز تعلقات نہیں رکھنے چاہیے۔ اسے یہ مسئلہ فرسودہ معلوم ہوا اور اس نے اسلام چھوڑ دیا۔
ایک شخص کے ذہن میں ایک اعتراض نے جگہ بنائی:
جب میرے غیر مسلم دوست جہنم میں جائیں گے تو میں اکیلا جنت میں جا کر کیا کروں گا، میں بھی مسلم کیوں رہوں؟ اور اس اعتراض کا معقول جواب نہ پا کر اس نے اسلام سے برگشتگی اختیار کر لی۔
ملحدین کی طرف سے خاندانی اور قدامت پسند مسلمانوں پر ایک بہت بڑا الزام یہ بھی ہے کہ مسلمان قریب کرنے اور سمجھانے کی بجائے تشدد پر یقین رکھتے ہیں ۔ چناں چہ ایک بہت بڑی تعداد محض اس لیے اسلام سے محروم ہو چکی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے سوال کیا تو مسلمانوں نے انھیں اطمینان بخش انداز میں جواب دینے کی بجائے مارا، یا ان پر سختیاں کیں، یا ان کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک روا رکھا۔
(و) وہابی اسلام کے تشدد سے بد گمانی:- الحاد کی بہت بڑی وجہ وہابی نظریات رہے ہیں، جن میں بلا کا تشدد پایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بنام اسلام الحاد کی چپیٹ میں آنے والوں میں لگ بھگ وہ لوگ شامل رہے ہیں، جو وہابی آئیڈیالوجی کے فولوور تھے۔ چناں چہ عرب جسے اسلام کی جنم بھومی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، ایک سروے کے مطابق وہاں کا ہر چھٹا انسان الحاد کی زد میں ہے اور ملحدین کا سب سے زیادہ لٹریچر وہیں کھپتا ہے۔
اسلام پسندوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ماضی قریب میں اسلام پر لکھے گئے لٹریچر کی طرح اسلام کے خلاف لکھے گئے لٹریچر کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور ہر جدید پلیٹ فارم پر اسلام مخالف مواد بہ آسانی اور بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔
(ز) سیاسی و میڈیائی امیج:- الحاد کی من جملہ وجوہ میں ایک اہم وجہ اسلام کی وہ فرسودہ تصویر بھی ہے جو سیاست اور میڈیا نے دنیا کے سامنے پیش کی اور جس کا کما حقہ دفاع کرنے سے مسلمان قاصر رہے۔
ایک شخص کے ذہن میں مضبوطی سے بات بٹھا دی گئی کہ جتنے دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں، ان کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی مسلم چہرہ ہے، وہ اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آج ایکس مسلم ہے۔
قرآن اورجہاد کی غلط اور من مانی تشریحات نے بھی ایک بڑے طبقے کے ایمان کو متزلزل کیا۔ چناں چہ نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والوں میں بھی ایک بڑی تعداد یہ تصور رکھتی ہے: قرآن سے کچھ آیتیں نکال دینی چاہیے۔
(ح) اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح:- بارہا لوگ اس لیے بھی الحاد کی ڈگر پر چلے جاتے ہیں کہ ان تک جس انداز میں اسلامی تعلیمات پہنچائی جاتی ہیں، وہ انداز ترسیل یا پیغام دعوت بہت بھونڈا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے تئیں یہ بھونڈا انداز نہ صرف ان غیر مسلموں کا ہوتا ہے جو اسلام کی تشریح ہی اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں اسلام کی ساکھ متاثر کرنی ہے بلکہ یہ غیر معقول انداز ان اسلامی مبلغین کا بھی ہوتا ہے جو کم علمی کے باوجود اسلامی تعلیمات پر لکچر دیتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے غیر سنجیدہ اسلوب بیان، غیر معقول طرز تعبیر ، متشددانہ نظریات اور غیر نفسیاتی طریق تبلیغ کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ و ترسیل تو کیا کر پاتے ہیں، بارہا انھیں احساس بھی نہیں ہوتا اور ان کی ذاتی کوتاہیوں کی وجہ سے ایک طبقہ اسلام بیزار ہوتا جاتا ہے۔
ایسے اسلامک اسکالرز کے غیر معقول اور غیر نفسیاتی بیانات کی وجہ سے مرتد ہونے کی چند مثالیں دیکھیے:
ایک شخص نے شریعت اسلامیہ کا یہ مسئلہ سنا کہ گھر میں کتا پالنا نا جائز ہے جبکہ اس شخص کو کتا بہت پیارا تھا، وہ مذہب بیزار ہو گیا۔
ایک شخص نے حدیث پاک کا ایک حصہ سنا: مدینہ منورہ میں عرینہ نامی قبیلہ کے کچھ لوگ آئے، انھیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دوا کے طور پر ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا، جس سے انہیں شفا ملی۔ سننے والے کو یہ حدیث گراں گزری اور غیر اخلاقی محسوس ہوئی، اس نے اسلام چھوڑ دیا۔
خیال رہے یہاں قصور ان اسلامی روایات کا نہیں، ان پہنچانے والوں کا ہے، جنھوں نے نخواندہ طبقے تک شریعت کا ایک حصہ تو پہنچایا لیکن وہ کار ترسیل و تبلیغ میں عصر جدید کا پاس نہ رکھ سکے، ان کی معقول توجیہ نہ کر سکے اور اَن کہی نفسیات کا لحاظ نہ کر سکے۔
(ط) اسلام میں بھی دیگر مذاہب والی کم زوریاں ہیں:۔ پختہ کار ملحدین اسلام پر مسلسل حملہ آور رہتے ہیں اور ان کا ماننا یہ ہے کہ مسلمان اسلام کو جتنا پاکیزہ بنا کر پیش کرتے ہیں، در حقیقت اسلام اتنا شفاف نہیں بلکہ اس کے اندر بھی وہ تمام کم زوریاں ہیں، جو دیگر مذاہب میں بیان کی جاتی ہیں جیسے مسلمان بڑے شد و مد کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام مساوات کا پیغام بر ہے اور یہاں ذات پات کا کوئی تصور نہیں جبکہ یہ جھوٹ ہے اور یہاں بھی اولاد رسول یعنی سیادت کے نام پر پروہت واد/ کاسٹ سسٹم/ ذات پات کے تمام تصورات موجود ہیں۔ یہی حال ان دیگر دعووں کا ہے، جنھیں لے کر مسلمانوں میں بہت زیادہ زعم پایا جاتا ہے۔
الحاد کی روک تھام:-
یہ وہ چند نمایاں اسباب و عوامل اور موٹے موٹے مسائل ہیں جن کا نتیجہ مسلم دنیا الحاد کی شکل میں بھگت رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اور اسی قسم کے ملحدین کے دیگر بیشتر اعتراضات سطحی، جھوٹ پر مبنی، غلط فہمی کا نتیجہ، مذہبی تعصب کی دین اور حقیقی اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اب یہی چھوٹے چھوٹے عوارض ایمان لے ڈوبنے کے لیے بہت کافی ثابت ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ اس وقت الحاد پوری دنیا میں اسلام کے سامنے سب سے بڑے چیلنج کی شکل میں ہے اور آج تک کسی بھی فرقے، نظریہ یا مذہب نے اسلام کو اس قدر گزند نہیں پہنچایا ہوگا، جتنا گزشتہ تھوڑے عرصے میں الحاد پہنچا چکا ہے۔
الحاد کی اس بڑھوتری کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ملحدین ترک مذہب کے علاوہ کسی نئے مذہب کے داعی نہیں ہوتے، اس لیے انھیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ بندہ پہلے جس مذہب سے وابستہ ہے، محض اس سے بد گمان کرنا ہی ان کے لیے کافی ہوتا ہے اور یہ کام آج کے دور میں بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اس پوری فتنہ انگیزی کے عہد میں اسلامیان ہند کے لیے من جانب اللہ ایک زریں موقع یہ ہے کہ بھارت کے ملحد ہنوز سوشل میڈیائی گروپس کے علاوہ کہیں منظم نہیں اور یہاں کی حکومتیں اپنے مذہبی تعصب کی وجہ سے ابھی انھیں دیدہ و دانستہ نظر انداز بھی کر رہی ہیں، اس لیے ان کی واپسی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ دیگر ممالک میں یہ طبقہ منظم بھی ہے اور حکومتوں کا منظور نظر بھی۔
لیکن بھارت میں بھی غیر منظم ہونے کا وہ مطلب ہرگز نہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں تصور کیا جاتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پوری خاموشی کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے اور الگ الگ پلیٹ فارمز پر ایکس مسلمز کے نام سے بہت متحرک گروپس چلا رہا ہے۔ یہ غیر منظم رفتار بھی اتنی تیز ہے کہ دیدہ بینا نہ رکھنے والے عام اور رسمی مسلمانوں کے لیے اس کی طوفانی رفتار کا صحیح اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
اس رفتار اور طرز عمل کا ہلکا سا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور مذہبی تنظیم "دعوت اسلامی” سے وابستہ ایک شخص جو کبھی راجستھان کے شہر سیکر میں اس تنظیم کا رضا کارانہ مبلغ ہوا کرتا تھا، ابھی الحاد کے راستے پر ہے۔
امید ہے حساس مزاج اور اسلام کے تئیں درد مند دل رکھنے والوں نے موضوع کی نزاکت محسوس کر لی ہوگی اور دنیا جہان کی ضروری / غیر ضروری مصروفیات و مباحث کے بیچ اس چیلنجنگ موضوع پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یہ بھی امید وابستہ کی جا سکتی ہے کہ مذہبی تقریریں اور تحریریں پیش کرنے والے جہاں اپنے لیے اجرو ثواب کے متمنی رہتے ہیں، وہیں ذہن کے ایک گوشے میں یہ بھی خیال رکھیں گے : کہیں ہمارے غیر علمی، غیر معقول، تشدد آمیز، فرسودہ، غیر نفسیاتی، غلط طرز تعبیر، یا برے کردار و عمل کی وجہ سے دنیا ہمارے مذہب سے برگشتہ تو نہیں ہو رہی ہے؟؟؟
خدا نخواستہ، صد بار نخواستہ اگر کہیں ایسا ہوا، یا خاموشی سے ہو رہا ہے تو اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے تیار رہیے جس نے خاتم الانبیا ﷺ کے واسطے سے پوری دنیا کو اکمل مذہب دیا، لیکن اس کی تبلیغ کے دعوے دار ہی کسی کے لیے اس سے برگشتگی کا سبب بن گئے۔