سیّدہ مبین بخاری
پونچھ، جموں
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ،ماں کائنات کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔سارے رشتے پیدائش کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔ لیکن ماں ہی کا وہ واحد اور اکلوتا رشتہ ہے جو پیدا ہونے سے قبل ہی قائم ہو جاتا ہے۔ نو ماہ کے سفر میں پہلے ہی ماہ میں اسے احساس ہونے لگتا ہے، کہ میرے شکم میں پل رہا انسانی نما جسم کا لوتھڑہ میرا پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ بس تب سے ہی وہ اپنی تمام خوشیاں اور آسائشیں قربان کرنا شروع کر دیتی ہے۔ تمام طرح کی پر ہیز کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے۔کھانے پینے کی تمام پرہیز، چلنے پھرنے میں پر ہیز، کسی طرح کا سفر کرنے، کوئی بھی سیر و تفریح کرنے سے مکمل اجتناب کا دور شروع ہو جاتا ہے اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اپنے شکم میں پلنے والی اولاد ہے۔ پہلے ماہ سے ہی ایک حاملہ ماں یہ دھیان رکھنا شروع کر دیتی ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے یا کیا نہیں کرنا ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی ڈاکٹر کی طرف سے جاری کئے گئے مشورات کا بھی بھرپور خیال رکھتی ہے۔ وہ صرف وہی کھاتی ہے جس سے اس کے آنے والے بچے کو کوئی نقصان نہ ہو۔ حق تو یہ ہے نو ماہ کے اس پورے سفر میں وہ اگر بیماربھی ہوگی، کوئی درد بھی اگر ظاہر ہوگا، حتی کہ کوئی چوٹ بھی اگر آجائے تو سخت دوائیاں کھانے سے بھی اجتناب کرے گی کیونکہ طبی جانکاروں کے مطابق دوران حمل ماں اگر کوئی دوا کھاتی بھی ہے اس کا اثر اس کی کوکھ میں پل رہے بچے پر بھی پڑتا ہے۔ اسلئے وہ ہر طرح کا درد و تکلیف برداشت کر لے گی مگر دوا کھانے سے پرہیز ہی کرے گی۔وہ وہی چیز کھائے گی جس سے بچے کو نقصان نہ ہو الغرض وہ اپنی تمام فرمائشیں ذائقے،خوشیاں، دوران حمل ہی اپنے آنے والے بچے کیلئے قربان کرتی چلی جائے گی۔ نو یں ماہ کے اس دن کا مسلسل انتظار کرے گی، ہر صبح کو نمودار ہونے والے سورج اور شام کوغروب ہونے والے سورج کے اوقات میں بس اس کا ایک ہی انتظار ہوگا، اس کی آنے والے اولاد۔
جوں یوں تاریخ قریب آتی جائے گی ماں کی ممتا پروان چڑھتی رہے گی، اس کے درد اور تکالیف بڑھتے رہیں گے، وہ پیٹ کے بل نہ سو ئے گی، وہ گرے گی تو کمر کے بل، وہ سوئے گی تو ایک ہی کروٹ کے بل، وہ چلے گی تو بڑی ہی سمجھداری اور دھیان سے کہیں میرے بچے کو پیدائش سے قبل ہی کوئی چوٹ نہ آجائے، کو ئی تکلیف اسے نہ ہوجائے الغرض تمام درد، تمام تکالیف، تمام پریشانیاں جھیلنی والی محبت سے بھری اماں کو یہ معلوم ہی نہ ہے کہ اس کے پیٹ میں پلنے والی یہ اولاد اس کیلئے کیا کیا گھل کھلائے گی، اسپتال کے ننگے بیڈ پر جنم دی جانے والی یہ اولاد جو پیدا ہونے کے بعد بھی اس کی ہی بدولت بڑی ہی نگہداشت اور شفقت کے سائے میں پل کر بڑی ہوئی ہو۔ کیا اس ماں کا سہارہ بن پائے گی؟اس کی پریشانی، اس کے بڑھاپے، اس کے دکھ درر یا اس کی مشکل میں کام آئے گی؟ اس بات کی بس اسے امید ہی ہوتی ہے۔لیکن جب وہ ہی اولاد پال پوس کر وہ ماں بڑی کرتی ہے، پھر اس کے ساتھ ساتھ کیا کیا ہوتا ہے، اسے کتنے دکھ جھیلنے پڑتے ہیں، اس کا پتہ اسی وقت چلتا ہے جب اس انسنانی نما لوتھڑے جس نے اس کو بڑے ہی دھیان کے ساتھ اپنے شکم سے اس کے ساتھ ایک رشتہ نبھا کر جننے کا بعد پال کر بڑا کیا ہوتا ہے،وہ کیسا نکلتا ہے۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کئی بچے اتنے فرمابرادر ہوتے ہیں جن کے کارنامے دیکھ کر والدین کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔ مگر کئی اولادیں ایسی نکلتی ہیں جو اپنی جوانی کی دھلیز پر پہنچے کے بعد اپنے والدین کو ہی سب سے پہلے ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتی ہیں، وہ چاہئے گھر بدر کرنا ہو یا کسی اولڈ ہوم میں جا کر چھوڑ آنا ہو یا جان سے مارکر پورا قصہ کہانی ہی ختم کرنا ہو۔ اس طرح کے کئی شرمناک اور افسوسناک واقعات ہمیں آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ اسی کی ایک مثال گزشتہ سال کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے رہنے والے ایک نوجوان نے اپنی ماہ کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔
یہ واقعہ جنوبی کشمیر کے کیہری بل اننت ناگ علاقے میں رہنے والے ایک بیٹے کا ہے جس کا نام عاقب ہے، عاقب نے اپنی ہی سگی ماں کا قتل کر ڈالا اور پھر اپنے دوست کے ساتھ مل کر لوگوں و پولیس کو گمراہ کرنے کیلئے ایک بناوٹی کہانی بنا کر قتل کا الزام اپنے رشتہ داروں پر عائد کردیا۔وہیں پولیس کے مطابق قتل کے دن عاقب کا دوست عابد اس کے گھر گیا، جہاں عاقب انتظار کر رہا تھا۔ اس دوران ان دونوں نے مقتول سے پیسے چھیننے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ماں بیٹے کے بیچ بحث و زبانی جھگڑا ہوگیا۔ اس کے بعد عاقب نے اپنی ماں کو مارا اور زبردستی گھونسے مارے اور وہ رسوئی خانے میں گر گئی۔ حالات کو سنگین ہوتا دیکھ عاقب دوست کی مدد سے ایک بڑا پتھر لے کر آیا اور پھر اسے خاتون کے سر پر مارا جس سے سر میں شدید چوٹ آئی اور بالآخر اس کی سگی ماں ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔وہیں اسی طرح کا ایک اور واقعہ ملکی آبادی کے لحاظ سے سب بڑی ریاست یوپی کی دارالسلطنت لکھنو کا ہے۔ جہاں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے۔جب دسویں جماعت میں پڑھنے والے 16 سالہ لڑکے نے اپنی ماں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ یہی نہیں، وہ اپنی 10 سالہ چھوٹی بہن کے ساتھ 2 دن تک اپنی ماں کی لاش کے ساتھ گھر میں رہا۔ منگل کی شام جب لاش سے بدبو آنے لگی تو بچے نے قتل کی جھوٹی کہانی گھڑ کر فوجی والد کو اطلاع دی۔ جبکہ ماں نے بچے کو پب جی گیم کھلنے سے روکا تھا جس پر ماں سے ناراض چلتے بچے نے ماں کو ہی قتل کر ڈالا۔ تو ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماں جو اپنے بچوں کیلئے سب کچھ برداشت کر تی ہے۔ اسپتال میں قدم رکھنے سے لیکر اس کی جوانی کے دھلیز پر قدم رکھنے تک اس کیلئے ایک سائے کی طرح ساتھ رہتی ہے تو نتیجتاً کیا ملتا ہے۔ جس کی اندازہ قارئین کو راقم کی ان سطور سے چل گیا ہوگا۔
ایک ماں جب حاملہ ہوتی ہے اسے کتنی تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں، اس سلسلہ میں جب راقم نے شبانہ کوثر (بدلہ ہوا نام) سے جاننے کی کوشش کی جن کی شادی گزشتہ سال ہی ہوئی ہے۔ شبانہ ابھی حاملہ ہیں جن کے خاوند بھی اپنے روزگار کہ سلسلہ میں گھر سے باہر ہیں تو اس کی باتیں سن کر احساس ہوتا ہے کہ شبانہ کو جہاں اپنے آنے والے بچے کی خوشی ہے وہ مالک کے اس کرم سے شکر گزار ہے مگر دوسری طرف کافی سہمی سی رہتی ہے۔ مطلب ڈری ہوئی سی لگتی ہیں۔ ان کے مطابق ان کی لیڈی ڈاکٹر نے محض دو ہفتے بعد ڈیلوری کی تاریخ دینے کیلئے بھی اسپتال بلایا ہے۔ تاہم شبانہ کا یہ خوف اور سہما سا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جہاں انکو اپنی آنے والی اولاد کی بے پناہ خوشی ہے وہیں اتنا ڈر بھی ہے کہ ناجانے ماں بننے کا عمل کتنا دردناک ہوگا ۔ خیر میں دعا گو ہوں مالک ان کی اس آس کو کامیابی کے ساتھ پار لگائے اور انہیں فرما بردار اولاد عطا فرمائیں۔ لیکن شبانہ کی اس اضطرابی اور فکر سے محسوس ہوتا ہے کہ ماں بننے اور نو ماہ کا سفر مکمل کرنا کتنا مشکل ترین ہوتا۔ جبکہ راقمہ خود بھی ایک ماں ہے اور ماں ہونے کے ناطے اس بات کا مکمل احساس ہے کہ اس دوارن ایک ماں کو کتنی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔(چرخہ فیچرس)