بوند بوند پانی کیلئے ترستے لوگ

0
0

سید ظفر بخاری

جل جیون مشن ہر گھر جل حکومت ہند کی طرف سے ریاستوں کے اشتراک سے اگست 2019 سے لاگو کیا گیا ہے، جس کا مقصد مقررہ معیار (پی آئی ایس 10500)میں مناسب مقدار (فی کس 55 لیٹر فی دن) میں 2024 تک ہر دیہی گھرانے کو نل کے پانی کے کنکشن کے ذریعے باقاعدہ اور طویل مدتی بنیادوں پر پینے کا پانی فراہم کرنا ہے۔اگست 2019 میں جل جیون مشن کے اعلان کے وقت، 3.23 کروڑ قریب 17فیصد دیہی گھرانوں میں نل کے پانی کے کنکشن ہونے کی اطلاع تھی۔ جے جے ایم کے تحت تقریباً 7.87 کروڑ دیہی گھرانوں کو پچھلے ساڑھے تین سالوں میں نل کے پانی کے کنکشن فراہم کیے گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق چھ فروری 2023 تک، ملک کے 19.36 کروڑ دیہی گھرانوں میں سے، تقریباً 11.10 کروڑ یعنی قریب 57فیصد گھرانوں کے گھروں میں نل کے پانی کی فراہمی کی اطلاع ہے۔تاہم جل شکتی ابھیان (جے ایس اے- I) کا آغاز 2019 میں 256 اضلاع میں کیا گیا تھا تاکہ پانی کے تحفظ اور پانی کے وسائل کے انتظام کو فروغ دینے کے لیے پانچ ہدفی مداخلتوں، جیسے، پانی کے تحفظ اور بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، تزئین کاری روایتی اور دیگر آبی ذخائر/ٹینکوں کا، بور ویلوں کا دوبارہ استعمال اور ریچارج، واٹرشیڈ کی ترقی اور شدید جنگلات پر تیزی سے عمل درآمد پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔
2021 میں،جل شکتی ابھیان: کیچ دی رین (جے ایس اے:سی ٹی آر) کو تمام اضلاع کے تمام بلاکس (دیہی اور شہری علاقوں) کا احاطہ کرنے کے لیے ایک خاص تھیم کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ملک بھر میں جے ایس اے کے لیے مرکوز مداخلتوں میں پانی کا تحفظ اور بارش کے پانی کا ذخیرہ کرنے، روایتی اور دیگر آبی ذخائر/ ٹینکوں کی تزئین و آرائش، بورویلوں کا دوبارہ استعمال اور ریچارج، واٹرشیڈ کی ترقی اور شدید جنگلات شامل ہیں۔پانی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے کیوں کہ بغیر پانی کے انسان کازندہ رہنما مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ہند نے مختلف قسم کی اسکیموں کا آغاز کیا ہے تاکہ ہر خاص و عام تک پانی پہنچایا جا سکے۔ جموں و کشمیر میں محکمہ جل شکتی اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہا ہے اس کے باوجود بھی کئی لوگ بنیادی ضرورت پانی کیلئے پریشان ہیں۔ آج بھی کچھ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پر حکومت کی یہ اسکیمیں بُری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ جموں وکشمیر میں آبی ذخائر کی کوئی کمی نہیں لیکن یہاں کے کئی علاقہ جات کے عوام بھی پانی یسی بنیادی ضرورت کیلئے پریشان نظر آ رہے ہیں۔انہی علاقوں میں سے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھر کے دور دراز گاؤں پٹھانہ تیر کا محلہ منجاکیر ہے جہاں آج بھی لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس محلے میں لگ بھگ پانچ سال قبل حکومت کی طرف سے لفٹ اسکیم کا منسوب ایک ٹینک بنوایا گیا تھا اور اس میں پائپیں بھی لگائی گئی تھیں مگر ان لوگوں نے آج تک ان میں ایک بھی مرتبہ پانی نہیں دیکھا۔اس ضمن میں مقامی عوام کا کہنا ہے کہ ہم مکانوں کے چھتوں کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں کیوں اس محلے سے پانی لانے کے لئے لگ بھگ چار سے پانچ کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے جو کہ ایک انسان کے لئے غیر معمولی بات ہے۔عوامی حلقوں نے بات کرتے ہوئے کہاکہ محکمہ جل شکتی کی لا پرواہی کی وجہ سے یہ ٹینک ایسی جگہ پر بنوایا گیا تھا جو کہ خطرے سے خالی نہیں تھی اوربرسات کے موسم میں یہ ٹینک پسی کی زدمیں آکرپوری طرح ٹوٹ چکا ہے اوررپورٹ کرنے کے بعدبھی محکمہ جل شکتی کا کوئی بھی ملازم یا افسر یہاں نہیں آیا۔عوامی حلقوں نے کہاکہ سرکاری خزانے سے پیسہ استعمال کر کے اس ٹینک کی تعمیر کی گئی لیکن تباہ ہونے کے بعد محکمہ نے اس کی خبر تک نہیں لی اور نہ ہی اس تعمیر نو کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے مقامی باشندے منظور حسین شاہ نے بتایا کہ ٹینک کے ٹوٹنے کے بعد سے آج تک محکمہ کا کوئی بھی افسر یا ملازم موقع پر نہیں آیا۔انہوں نے مزید کہاکہ اس ٹینک میں جو پائپ لائن لگی ہوئی ہے وہ بھی کسی نے بیچ راستے توڑ ڈالی ہے مگر محکمہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ایک اور مقامی باشندے تصور شاہ نے بتایا کہ یہاں آس پاس پانی کیجوچشمے ہیں،ان سبھی چشموں کا پانی اکٹھا کر کے ٹینک میں سٹور کیا جائے اورسارے محلے کو با آسانی پانی میسر ہو سکے۔اسی مدعے پر جب وہاں کی مقامی شہناز اختر نے بتایا کہ ہمیں اپنے لئے تو دور سے پانی لانا ہی پڑتا ہے بلکہ مویشیوں کے لئے اتنے دور سے پانی لانا ہمارے لئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی جیسی بنیادی ضرورت کو گھر تک پہنچانے میں لگ بھگ ہمارا دن گزرجاتا ہے۔پانی کی اس پریشانی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اکثیر نامی خاتون نے بتایا کہ پانی کی پریشانی کی وجہ سے ہماری بچیاں تعلیم سے بھی دور ہیں کیونکہ اسکول تب جائیں جب پانی لانے سے فرصت ملے۔انہوں نے مزیدکہا کہ بچیوں کا سارا دن پانی لانے میں گزر جاتا ہے کیونکہ پانی کیلئے کافی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔اس معاملے پر جب سرپنچ پٹھانہ تیر شابان علی خان سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے متعلقہ محکمہ کے جے ای ای سے بہت مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی مگر اس سے رابطہ نہ ہو سکااور عوام کو پانی جیسی بنیادی ضرورت کیلئے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب اس سلسلے میں جے ای ای محکمہ جل شکتی امتیاز الحق سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ میں اس سلسلے میں اقدام کروں گا۔اسی معاملے پر جب متعلقہ اے ای ای سے فون پر بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر ٹینک ٹوٹ گیا ہے تو اس میں میں کیا کر سکتا ہوں؟متعلقہ اے ای ای سے جب مقامی عوام کی پانی کی پریشانی کا ازالہ کرنے کیلئے محلے کی لائن پر کوئی ملازم تعینات کرنے کی التماس کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس اتنے فالتو ملازم نہیں ہیں۔قارئین ایک جانب حکومت اپنے ہر شہری کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کیلئے اسکیمیں لا رہی ہے،اقدامات کر رہی ہے تو دوسری جانب متعلقہ محکمہ کی لاپرواہی کی وجہ سے زمینی سطح پر عوام پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہی ہے اور متعلقہ محکمہ سے جواب بھی مانگ رہی ہے کہ آخر انہیں پانی کب میسر ہو گا؟ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا