بنیادی ڈھانچے کی پہچان ہوتی ہے پی ایچ سی

0
0

جے شری سوامی اور گنگا سدھ
بیکانیر، راجستھان

ہندوستان کی ایک بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز سے لے کر ریاستی حکومت تک گاؤں کی ترقی پر بنیادی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ملک کے تمام دیہی علاقوں کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے وقتاً فوقتاً کئی اسکیمیں اور منصوبے چلائے جاتے ہیں تاکہ دیہی علاقوں کی ترقی ہو اور نقل مکانی کو روکا جا سکے۔ خاص طور پر صحت کے بنیادی ڈھانچے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کیونکہ صحت مند معاشرے کے ذریعے ہی ایک خوشحال قوم کی تعمیر ممکن ہے۔ تاہم، حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود، ملک کی کئی ایسی ریاستوں کے دیہی علاقے ہیں جہاں آج بھی صحت کا بنیادی ڈھانچہ زیادہ مضبوط نہیں ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے بنیادی مرکز صحت میں بھی کوئی خاص سہولت میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے دیہی علاقع کے لوگوں خصوصاً حاملہ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان میں سے ایک راجستھان کے بیکانیر ضلع میں واقع لنکرانسر بلاک کے دھنی بھوپالرام گاؤں کا پی ایچ سی بھی ہے۔ جہاں لوگ بنیادی سہولیات بھی نہ ہونے کی وجہ سے کا فی پریشان ہیں۔ اس گاؤں میں صحت مرکز تقریباً 5 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن تعمیر کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی یہ یہاںتالہ پڑا ہوا ہے۔ یہاں کسی ڈاکٹرکی تعناتی نہیں ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے گائوں والوں کی مشکلات بدستور جاری ہے۔

یہ گاؤں راجستھان کے انتہائی پسماندہ گاؤں میں سے ایک ہے۔ ایسے میں بنیادی مرکز صحت میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگو ں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جب گاؤں کے لوگ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں دوائی لینے کے لیے بھی دور تک جانا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں گاؤں کے رہائشی 40 سالہ مدن لال شرما کا کہنا ہے کہ ’’پی ایچ سی کی تعمیر کے بعد بھی یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں آیا۔ اے این ایم ہفتے میں صرف ایک بار آتی ہیں اور لوگوں کو کچھ دوائیں دے کر چلی جاتی ہیں۔ اس دوران اگر کسی شخص کو علاج کی ضرورت ہو تو اسے فوری طور پر ڈاکٹر کی سہولت نہیں ملتی اور اسے گاؤں سے 9 کلومیٹر دور لنکرنسر کے بلاک اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ بروقت علاج کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے کئی بار مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔معاشی طور پر پسماندہ اس گاؤں کے لوگوں کے لیے لنکرنسر جانا بھی بہت مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ حاملہ اور بزرگ مریضوں کے لیے ایمرجنسی کی صورت میں پرائیویٹ گاڑی بک کروانا بہت مشکل ہے۔‘‘ گاؤں والوں کے مطابق اگر کسی قسم کی ضرورت پڑنے پر ایمبولینس بھی بلانی پڑتی ہے تو اس کے آنے میں کافی تاخیر ہوتی ہے، کیونکہ گاؤں میں نہ صرف صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، بلکہ یہاں کی سڑکیں بھی خستہ حال ہیں۔ جس کی وجہ سے پرائیویٹ گاڑیاں بھی یہاں آنے کے لیے کافی پیسے وصول کرتی ہیں۔ دیہات میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں کی ایک خاتون چمپا دیوی شکایت کرتی ہیں کہ ’’یہاں لڑکیوں اور خواتین کے لیے کوئی خاص سہولت نہیں ہے، کیونکہ ڈاکٹر اور نرسیں اسپتال نہیں آتیں ہیں۔ ایسے میں دوسرے گاؤں جانے میں زیادہ وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ جس کا خمیازہ خواتین کی صحت پر پڑتا ہے۔

گاؤں میں بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے دیویانگوں (معذوروں)کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پاس کوئی سہولت نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے 700 روپے پنشن دی جاتی ہے۔ لیکن روزگار کی کمی کی وجہ سے انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنیادی مرکز صحت میں بھی ان کے لیے کوئی خاص سہولت میسر نہیں ہے۔ ایسے میں اسے اپنے علاج کے لیے دوسرے گاؤں جانا پڑتا ہے جس کے لیے اسے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خستہ حال سڑکیں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ مہاویر، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے گاؤں کے سماجی مسائل سے جڑے ہوئے ہیںاور سماجی کارکن کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’’گزشتہ کئی سالوں سے گاؤں کا بنیادی صحت مرکز صرف ایک عمارت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہاں نہ تو اے این ایم یا ڈاکٹر وقت پر آتے ہیں اور نہ ہی گاؤں والوں کے لیے دوائیں پوری طرح دستیاب ہیں۔ ایسی حالت میں اس کا وجود نہیں ہونے کے برابر نہیں ہے۔ گو کہ یہ سنٹر کاغذوں پر کام کر رہا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ گاؤں والوں کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔‘‘ دوسری طرف گاؤں کی لڑکیوں کی شکایت ہے کہ ’’جب تک سابق اے این ایم دیدی گاؤں میں تھیں، وہ اپنا کام بہت ایمانداری سے کرتی تھیں۔ وہ نہ صرف نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو گھر گھر جا کر آئرن کی گولیاں، پیٹ کے کیڑوں کی دوا اور دیگر ضروری ادویات فراہم کرتی تھیں بلکہ انہیں غذائی قلت، ماہواری اور دیگر صحت سے متعلق معلومات سے بیدار بھی کرتی رہتی تھیں۔نوعمر لڑکیاں بھی پرائمری ہیلتھ سنٹر سے سینیٹری پیڈ انتہائی مناسب قیمت پر حاصل کرتی تھیں۔ لیکن اب صورتحال ایسی ہے کہ معمولی سی بیماری کے لیے بھی گاؤں والوں کو لنکرنسر بلاک جانا پڑتا ہے۔ جہاں جانے اور آنے والی گاڑیوں کا کیرایابہت زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘

گاؤں میں سڑک کی حالت بھی بہت خراب ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ڈیلیوری یا حادثے جیسی ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس بلانی پڑتی ہے جو کہ خستہ حال سڑک کی وجہ سے بہت دیر سے پہنچتی ہے۔ جبکہ پرائیویٹ گاڑیاں من مانے کرایہ وصول کرتی ہیں۔ ایسے میں گاؤں میں بنیادی صحت مرکز کی ضرورت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک مرکز صحت جو نہ صرف چوبیس گھنٹے کھلا رہے بلکہ وہاں ادویات اور دیگر بنیادی سہولیات بھی دستیاب ہوتی رہے، تاکہ معاشی طور پر کمزور دیہاتیوں کو صحیح وقت پر علاج کی سہولت مل سکے۔ستمبر 2020 میں صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر مملکت اشونی چوبے کے پارلیمنٹ میں دیئے گئے ایک بیان کے مطابق، ملک میں کل 30,045 پرائمری ہلتھ سنٹر کام کر رہے ہیں، جن میں سے 2,082 راجستھان کے دیہی علاقوں میں قائم ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف پی ایچ سی قائم کرنے سے حکومت کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے؟ درحقیقت کسی بھی گاؤں کے بنیادی ڈھانچے میں نہ صرف صحت مرکز کو پہلی ترجیح ہونی چاہیے بلکہ اس کے کامیاب آپریشن کے لیے پالیسیاں بنانا بھی ضروری ہے۔ (چرخہ فیچر)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا