ڈھاکہ، 5 اگست (یو این آئی) بنگلہ دیش میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران مرنے والوں کی مجموعی تعداد کم از کم 300 ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ تعداد پولیس، اہلکاروں اور ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔
مظاہروں کا آغاز پیر کو دوبارہ ہوگا جبکہ دارالحکومت ڈھاکہ میں فوجیوں اور پولیس کی بھاری تعیناتی اہم سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دفتر جانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
گزشتہ روز بنگلہ دیش میں طلبہ گروپ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے پہلے ہی روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 91 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔
91 اموات بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی احتجاج یا مظاہرے کے دوران ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات ہیں جہاں اس سے قبل سب سے زیادہ حال ہی میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے احتجاج کے موقع پر ہوئی تھیں جب ایک ہی دن میں کم از کم 67 افراد جاں کی بازی ہار گئے تھے۔
وزیر اعظم حسینہ واجد نے نیشنل سیکیورٹی پینل کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔
4 اگست کو بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ملک میں جاری پرتشدد واقعات کے پیش نظر بنگلہ دیش کی زیر نگرانی پاکستانی طلبہ کو اپنے کمروں تک محدود رہنے اور موجودہ صورتحال سے خود کو الگ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ہائی کورٹ کی جانب سے ’فریڈم فائٹرز‘ (جنہوں نے 1971ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا) کے بچوں اور پوتوں کا سرکاری نوکریوں میں کوٹہ بحال کیے جانے کے بعد بنگلہ دیش کے بہت سے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
16 جولائی کو سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران 6 طلبہ کی موت کے بعد بنگلہ دیش بھر میں اسکولوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
20 جولائی کو بنگلہ دیش میں کشیدہ حالات کے باعث وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا تھا، ملک میں کئی روز کے مظاہروں کے بعد فوج طلب کرلی گئی تھی، اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل ہونے سے شہریوں کو معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔