ریاض فردوسی۔
9968012976
اموی خلافت مسلمانوں کے اجتماعی مشورے ( امرھم شوریٰ بینھم) سے قائم نہیں ہوئ تھی۔یہ ایک خاندانی خلافت تھی جس میں بنو امیہ کے افراد ہی خلیفہ ہوتے تھے۔ خلفاء راشدین کے بعد جو خلیفہ ہویے وہ لغوی معنی میں خلیفہ تھے یعنی قائم مقام خلیفہ کے انتقال کے بعد جو حکمران ہویے وہ خلیفہ کہلاتے۔ دوسرے لفظوں میں خلیفہ جانشین ہوتے تھے۔ خلفائے راشدین اور بعد کے خلفاء میں ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ خلفائے راشدین ایک ہی خاندان کے نہیں تھے؛ وہ جمہوری طریقہ سے منتخب ہونے تھے۔ لیکن اموی خلفاء مسلمانوں کی رایے سے منتخب نہیں ہوتے تھے۔ خلیفہ اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یا بھایی کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیتا اور پھر گھر کے لوگ، شرفاء، فوج کے سردار اور صوبوں کے عمال ان سے بیعت کرتے۔ صوبوں کے گورنر اپنے اپنے صوبہ میں مجمع عام کو خلیفہ کے بیٹے کی ولی عہدی کا اعلان کرتے اور لوگوں سے بیعت لینے لینے کو کہا جاتا۔ بنو امیہ میں جاری ولی عہدی کی رسم آگے بھی جاری رہی۔ بیعت لینے سے مراد یہ تھا کہ عوام نامزد کیے ہوئے شخصیت کو ولی عہد قبول کیا اور بعد میں اس کےخلیفہ ہونے پر اس کی خلافت کو بھی قبول کیا۔ یہ بیعت جبری ہوتی تھی۔ جو لوگ بیعت قبول کرنے سے انکار کرتے انہیں سزائیں دی جاتی تھیں۔
نامزدگی کوئی قابل مذمت چیز نہیں ہے لیکن نامزدگی ایسی شخصیت کی ہونی چاہیے جسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہوں، جو عوام میں مقبول ہوں،جسے لوگ پسند کرتے ہوں۔حضرت ابو بکر صدیق رض کو خلافت کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور انکے نامزدگی پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق تھا ۔ وہ ایک ایسےعظیم شخصیت تھے جن کے خلیفہ ہونے پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوا۔اس کے برعکس جب مدینہ کے گورنر مروان بن حکم نے لوگوں کو یزید بن معاویہ کی ولی عہدی کے بارے میں بتایا تو حاضرین میں سے عبدالرحمن بن ابی بکر رض، عبداللہ بن عمررض ، عبداللہ بن زبیر رض اور حسین بن علی رض نے سخت مخالفت کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے کہ یزید کا سیرت اور کردار ایسا نہیں تھا کہ سبھی لوگ اسکے خلافت کو قبول کرتے۔ اسی طرح جب امیر معاویہ رض حج کے موقع سے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور لوگوں سے یزید کے بیعت کے معاملہ میں گفتگو کی تو عبداللہ بن عمر رض نے کہا کہ تمہارے بعد جس شخص کی خلافت پر لوگ متفق ہو جائے گے میں اسی کو خلیفہ تسلیم کر لوں گا۔ عبداللہ بن زبیر رض نے کہا خلافت کے معاملہ کو مسلمانوں کے انتخاب پر چھوڑ دیں یا سنت صدیقی پر عمل کریں کہ ایسے شخص کو اپنے قایم مقام فرما جایں جو نہ آپ کی قوم کا ہو اور نہ خاندان کا یا سنت فاروقی پر عمل کریں کہ چھ شخصوں کو نامزد کریں اور وہ جس کو چاہیں خلیفہ منتخب کریں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل کا خلیفہ خاندانی نہ ہو بلکہ عوامی ہو؛ وہ کسی ایک شخص کا نامزد کیا ہوا نہ ہو بلکہ وہ مسلمانوں کے مشورہ سے منتخب ہوا ہوں۔ تمام لوگ یا اکثریت اس کی خلافت پر متفق ہوں۔قران مجید کا بھی یہی حکم ہے کہ اولولاَمر مسلمانوں کے درمیان میں سے ہوںَ؛ کسی گروہ، طبقہ ، نسل یا خاندان میں سے نہ ہوں۔لوگ بلا خوف و خطر خلیفہ کا انتخاب کریں، انہیں گردن اڑانے کی دھمکی نہ دی جائے۔ اس مقام تک خلافت اور جمہوریت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اصول میں خلافت کا انتخاب مسلمانوں کے مشورہ سے ہو بالکل ٹھیک ہے۔ آج کے دور میں ای وی ایم مشین کے ذریعہ بارہ گھنٹے میں کسی پارلیمانی حلقہ کے ووٹروں کی رایے جمع کر لینا ممکن ہے لیکن اس دور میں ایسا کوئی طریقہ یا میکنزم دریافت نہیں ہوا تھا جس کے ذریعہ لوگوں کی رایے اکٹھا کی جا سکے۔ ایک چھوٹے سے علاقہ میں لوگوں کی رایے معلوم کی جا سکتی تھی لیکن جب اسلام دور دراز کے علاقوں تک پھیل گیا، نے نے سرحدوں کو عبور کر لیا گیا، لوگ دین اسلام قبول کرنے لگے اور مسلمانوں کی آبادی بڑھتی چلی گئی تو یہ ممکن نہ رہا کہ جمہوری طریقہ سے خلیفہ کا انتخاب کے لیے لوگوں کی رایے معلوم کی جا سکے۔ اس لیے عملاً یہ ممکن نہ رہا کہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے رایے سے کی جایے ۔ اس لیے اس وقت یہی ایک راستہ بچا تھا ک خلافت ایک ہی خاندان کے لوگوں کے درمیان منتقل ہوتی رہے۔ اسے ایک تمثیل سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سود حرام ہے لیکن آج تک مسلمانوں نے عالگیر پیمانے پر ایسا کوئی معاشی نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا جس سے لوگ بینک کی سود کھانے سے سے بچ سکے۔ اس لیے آج بھی مسلمان بینکنگ نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی بادشاہی نظام ہی قائم تھی۔ایسا کوئی ملک نہیں تھا جہاں کی حکومت جمہوری طرز کی ہو۔ جب معاویہ بن یزید خلیفہ ہوا تو انہوں نے اپنے دور حکومت کی ایک ایسی بات بتایی جس سے واضح ہے کہ اس وقت مشاورتی خلافت کا قیام ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا تم لوگوں نے مجھے زبردستی خلیفہ بنایا۔ میں نے سوچا کہ کوئی شخص عمر فاروق رضی کی مانند مل جائے تو اس کو خلافت سپرد کر دوں لیکن نہیں ملا۔ پھر میں نے چاہا کہ جس طرح عمر فاروق رض نے چند شخصوں کو نامزد کر دیا تھا کہ ان کے بعد وہ خلیفہ کو منتخب کریں۔ اسی طرح میں بھی چند شخصوں کو نامزد کر دوں لیکن میری نگاہ میں ایسے اشخاص بھی نہیں آیے۔ اب تم لوگ جس کو چاہو خلیفہ مقرر کر لو۔
اموی خلافت کی ایک نقص یہ تھی کہ اجتماعی فیصلہ یا وصیت کے مطابق خلافت منتقل نہیں ہوتی تھی۔ مقام جابیہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مروان بن حکم کے بعد خالد بن یزید خلیفہ بنایا جائے اور ان کے بعد عمرو بن سعید عاص کو خلافت سپرد کی جانے۔ لیکن مروان بن حکم نے یہ فیصلہ بدل ڈالا اور یہ اعلان کروایا گیا کہ مروان کے بعد عبدالملک بن مروان اور اس کے بعد عبد العزیز بن مروان خلیفہ بنایا جائے۔ خلیفہ عبدالملک بھی یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح اپنے بھائی عبدالعزیز کو ولی عہدی سے معزول کرکے اپنے بیٹوں کو ولی عہد بنانے۔ اتفاقاً عبدالعزیز کی موت سے عبدالملک کی خواہش پوری ہویی۔ جب ولید بن عبدالملک خلیفہ ہوا تو اس کی بھی یہ خواہش ہویی کہ اس کے بعد اس کا بھائی سلیمان خلیفہ نہ ہو لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح یزید بن عبد الملک کی وصیت کے موافق ہشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن یزید ولی عہد تھا لیکن ہشام کی خواہش تھی کہ ولید کو معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنایے مگر امرایے سلطنت چونکہ اس پر رضامند نہ تھے وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ سکا۔
بنو امیہ کی خلافت امیر معاویہ بن سفیان رض سے شروع ہوتی ہے اور مروان بن محمد پر ختم ہوتی ہے۔ اس کی مدت سال 661 سے لیکر 750 تک تقریباً ایک سو دس سال تک رہی۔ اس عرصہ میں کل چودہ خلفاء ہویے۔ ان خلفاء میں امیر معاویہ رض کے علاوہ عبدالملک بن مروان، ولید، سلیمان وغیرہ قابل، لایق، بہادر اور مضبوط خلفاء تھے۔لیکن یزید بن معاویہ نالائق، جابر اور ظالم تھا؛ ۔ معاویہ بن یزید کمزور تھا۔ یزید بن عبدالملک شراب اور موسیقی کا شوقین تھا ۔ ولید بن یزید بن عبد الملک بھی مے نوشی اور زنا کرتا تھا۔ یزید بن ولید بن عبدالملک کو یزید الناقص کہا جاتا تھا کیونکہ اس نے فوج کی تنخواہوں کو کم کر دیا تھا۔ تمام اموی خلفاء میں حضرت عمر بن عبد العزیز ایک ممتاز اور غیر معمولی خلیفہ ثابت ہویے۔ ان کے عہد خلافت میں مختصر وقت کے لیے خلافت راشدہ کا دور واپس آ چکا تھا۔ وہ خلیفہ راشد تو نہیں تھے لیکن خلیفہ راشد کے ہی مانند تھے۔انہوں نے تخت خلافت پر متمکن ہوتے ہی حکم جاری کیا کہ حضرت علی رض کی شان میں کوئی بھی بری بات نہیں کہی جایے۔ بنو امیہ میں عام رواج تھا کہ وہ حضرت علی رض کو برا کہتے اور جمعہ کے خطبہ میں بھی ان پر لعن طعن کیا جاتا تھا۔انہوں نے ذمیوں سے جو مسلمان ہو جاتے جزیہ لینے کے سلسلہ کو بھی بند کروا دیا۔ لیکن یزید بن عبد الملک نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانے کی تمام اصلاحات کو منسوخ کرا دیا۔
بنو امیہ کے خلافت میں عربوں کو بہت سارے زمینی فتوحات حاصل ہویے۔ اسلام کی سرحدیں مشرق میں سندھ تک اور مغرب میں اندلس تک پھیل چکے تھے۔ افریقہ براعظم کے شمالی مغربی ساحل پر واقع افریقی ممالک بنو امیہ کے زیر حکومت شامل ہو چکے تھے۔سب سے زیادہ فتوحات خلیفہ ولید کے عہد میں ہویی۔ حضرت عمر فاروق رض کے بعد اس قدر عظیم و اہم فتوحات ملکی اور کسی خلیفہ کے زمانے میں اب تک مسلمانوں کو حاصل نہ ہویی تھیں۔خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے عہد میں بنو امیہ کی سرحد Caucasus Mountain تک پہونچ گئی تھیں؛ آرمینیا اور آزربائیجان کے خطے بھی فتح ہو چکے تھے۔بنو امیہ کے عہد میں ایک سے بڑھ کر ایک نامور قابل بہادر فوج کے سپہ سالار بھی پیدا ہونے۔ ان میں حجاج بن یوسف اور اس کا بھتیجا اور داماد فاتح سندھ محمد بن قاسم، فاتح اندلس طارق بن زباد، موسیٰ بن نصیر، قتیبہ بن مسلم اور مسلمہ بن عبدالملک قابل زکر ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم اور موسیٰ بن نصیر جیسے سپہ سالاروں کا قتلِ کروا ڈالا۔
بنو امیہ کے دور میں سکہ اسلامیہ کی ابتدا ہویی۔اب تک شام، عرب، مصر وغیرہ ممالک میں رومیوں کے سکے رایج تھے۔ عراق میں عموماً ایرانیوں کے سکے رایج تھے۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنا سکہ بنایا اور جاری کیا۔ انہوں نے دارالضرب قایم کروانے اور دینار و درہم سکوں پر قل ھو اللہ احد مضروب کرایا۔
خلیفہ ولید تعمیرات کا شوقین تھا۔ اس نے جامع دمشق کی توسیع و تعمیر کی اور مدینہ کے عامل حضرت عمر بن عبد العزیز کے زیر اہتمام مسجد نبوی کو از سر نو تعمیر کرایا اور ازواج مطہرات کے حجروں کو بھی مسجد میں شامل کرایا۔۔ علاوہ ازیں انہوں نے رفاہ عام کے بہت سے کام کیے، سڑکیں بنوائی، مدارس قائم کیے، کنویں کھدوایے، شفاخانے کھلوايے، راستوں میں مسافروں کے امن و امان اور حفاظت کا انتظام بھی کروایا۔فلسطین میں واقع المسجد الأقصى کا تعمیر عبدالملک بن مروان اور ولید بن عبدالملک نے کروایا۔
خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں عباسیوں اور شیعان علی نے بنو امیہ کی حکومت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ زید بن علی نے کوفہ میں خلیفہ ہشام کے خلاف خروج کیا؛ کوفیوں نے زید بن علی کو دھوکہ دیا۔ مٹھی بھر آدمیوں سے زید بن علی نے عراق کے حاکم یوسف بن عمر ثقفی کی کیی ہزار فوج کا مقابلہ کیا اور شکست کھایی۔خلیفہ ولید بن یزید کے دور حکومت میں یحییٰ بن زید نے خراسان میں خروج کیا۔ خراسان کے حاکم نصر بن سیار کے فوج کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے یحییٰ بن زید شہید ہو گیے۔
اموی خلفاء اپنے باغیوں، دشمنوں اور حریفوں کو نہایت ہی سخت سزائیں دیتے تھے۔ باغیوں کا میدان جنگ میں قتلِ ہونے کے بعد ان کا سر کاٹ ڈالنا اور خلیفہ کی پاس بھجوا دینا اور پھر لاش کو لٹکا دینا عام بات تھی۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ مثلہ یعنی قطع اعضا سے اجتناب کیا جائے۔ دوسری طرف قرآن مجید سورۃ المائدة آیت نمبر ۳۳ میں فساد فی الارض یا مسلح بغاوت کی چار سزائیں حرف اَو کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں تاکہ امام و امیر مجرم کو ان میں سے کوئی ایک سزا دیں یعنی اس کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو زمین سے نکال دیا جائے “۔ لیکن اموی خلفاء حضور ﷺ کے فرمان اور اللہ تعالی کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجرموں ایک ساتھ دو سزائیں بھی دیتے تھے۔ عبداللہ بن زبیر رض نے اپنی ماں اسماء رض سے کہا کہ مجھ کو اس بات کا ڈر ہے کہ وہ لوگ قتلِ کرنے کے بعد مجھ کو مثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائے گے، اور ایسا ہی ہوا۔ جنگ میں شہید ہونے کے بعد زبیر رض کا سر کاٹ کر عبد الملک کے پاس بھیجا گیا اور لاش کو لٹکا دی گئی۔ پھر حجاج بن یوسف نے لاش کو سولی سے اتر وایا اور یہود کے قبرستان میں پھینکوا دیا۔خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے موسیٰ بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز (جو اندلس کا گورنر تھا ) کو بغاوت کے جرم میں قتلِ کروا دیا۔ اس کا جسم جنوبی اسپین کے اشبیلیہ میں دفن کرکے سر کو دمشق کی جانب بھیج دیا گیا۔ اس طرح سر کہیں اور دھڑ کہیں دفن کیا گیا۔یوسف بن عمر ثقفی نے زید بن علی کا سر کٹوا کر ہشام بن عبدالملک کے پاس دمشق میں بھجوا دیا۔ہشام نے زید بن علی کے کٹے ہویے سر کو دمشق کے دروازہ پر لٹکا دیا اور یوسف ثقفی نے زید کے ہمراہیوں کی لاشوں کو کوفہ میں سولی پر لٹکا دیا جو برسوں وہاں لٹکتی رہی۔ نصر بن سیار نے یحییٰ بن زید کا سر کٹوا کر خلیفہ ولید بن یزید کے پاس بھیج دیا گیا اور لاش سلیب پر لٹکا دی گئی جو سات سال تک برابر لٹکی رہی اور ابو مسلم خراسانی نے اس کو اتار کر دفن کرایا۔ مروان بن محمد کے زمانے میں جب اہل فلسطین نے بغاوت کی تو ان کے سردار ثابت بن نعیم گرفتار ہوا۔ مروان نے ثابت بن نعیم اور اس کے تین لڑکوں کے ہاتھ پاوں کٹوا کر صلیب پر چڑھا دیا۔ان کے انہیں بداعمالیوں کا نتیجہ تھا کہ جب عباسیوں نے اقتدار سنبھالا تب انہوں نے بنو امیہ سے زیادہ سخت سزائیں انہیں دیں یہاں تک کہ ان کے لاشوں کو قبروں سے نکال کر سولی چڑھایا۔