بلیک میلنگ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث صحافیوں کی وجہ

0
0

سے وادی میں صحافت کا مستقبل تاریک، اصلاحی اقدام ناگزیر
یواین آئی

سرینگر؍؍وادی گلپوش کی پاکیزگی کے باعث ریشیوں، منیوں، سنتوں اور اولیائے کاملین نے اس سے اپنا مسکن بنا لیا اور یاد الٰہی میں محورہنے کے ساتھ ساتھ دین حق کی تبلیغ بھی کرتے رہے اور اس وجہ سے اس جنت بے نظیر کو ’’ریشہ وار‘‘ ہونے کا قابل فخر اعزاز حاصل ہوا۔یہاں کے لو گ بھی ان بزرگان دین سنتوں اور ریشوں کی سیرت ، پاکبازی اور حق گوئی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو احکام الٰہی کے مطابق جینے کا راستہ اختیار کیا۔ اور اپنی اخروی زیست سنوارنے میں لگے رہے اور خالق کائنات نے بھی اْنہیں کھبی مایوس نہیں کیا۔جب بھی اْن کے ہاتھ دعائیں مانگنے کے لئے اللہ کے حضور میں اْٹھتے تھے اْن کی قبولیت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ پلک جپکتے ہی وہ قبول ہو جایا کرتی تھیں۔یہ کوئی داستان نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جب بھی وادی پر کسی ناگہانی آفت یا آفات سماوی کا قہر نازل ہوتا تھا تو درود ازکار کا ورد کرتے ہوئے لو گ ، ائمہ مساجد اور علماء کی قیادت میں خانقاہوں اور زیارت گاہوں کا رخ کرتے تھے اور قہر برپا کرنے والی ان آفتوں سے چھٹکارا پانے کے لئے رو رو کے دعائیں مانگتے تھے اور اْن کی وہاں پر ہی دعائیں رنگ لے آیا کرتی تھیں اور اس طرح سے اْن کے مرجائے ہوئے چہرے خوشی سے کھل اْٹھتے تھے۔یہ تو اْن کی سادگی ، پاکبازی اور خوف خدا کی وجہ سے ممکن ہوپاتا تھا ،مگر رفتہ رفتہ اس ریشہ واری میں جدیدیت کے نام پر خیر اخلاقی ہوائیں چلنے لگیں جس کا ثمرہ یہ نکلا کہ یہاں کا تہذیبی ، تمندی اور ثقافتی ورثہ برگِ آوارہ کی طرح بکھرنے لگا اور یہاں مغربی ذہنیت کے لوگ ایسے کارنامے انجام دینے لگے جنہیں دیکھ کر شیطان نے بھی اپنے کان پکڑ کے یہاں سے فرار ہونے میں ہی اپنی آفیت سمجھی۔یہاں جدھر بھی نظر دوڑائی جائیں ڈاکوں، رہزنوں، لٹیروں، بے ایمانی اور ضمیر فروشوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔اب صحافت کا ہی شعبہ باقی رہ گیا تھا جس کی شان و توقیر برقرار تھی مگر اس شعبے کو بھی نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ اس میں گھسنے والے کالے بھیڑیوں کی وجہ سے اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔بلیک میلنگ ، بھتہ خوری اور صنف نازک کی عزت سے کھلواڑ کی خبریں آئے روز سامنے آنے سے اس میں کوئی شبہ نہیں رہا ہے کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدام نہیں اْٹھائے گئے تو بچی کھچی صحافت بھی قصہ پارینہ بن کے رہ جائے گی۔بد نام زمانہ درندہ صفت ندیم ناڈو ، سلمان شاہ ، شوکت راگو اگر چہ ایک دوشیزہ کی شکایت پر دھر لئے گئے ہیں تاہم ایسے درجنوں ندیم ناڈو ابھی بھی گھوم رہے ہیں جن کا سلاخوں کے پیچھے ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔اگر متعلقہ محکمہ اپنے فرائض کو بہ احسن خوبی انجام دے رہا ہوتا تو صحافت کے نام پر بلیک میلنگ ، بھتہ خوری اور عصمت ریز ی کے واقعات نام نہاد صحافیوں کی جانب سے رونما نہ ہوتے اور ایسے بد کردار صحافی کب کے نشانہ عبرت بن گئے ہوتے۔حد تو یہ ہے کہ نا خواندہ اشخاص بھی سماجی روابط کی وئب سائٹوں ، ایجنسیوں اور بعض اخبارات کے مدیر بنے بیٹھے ہیں وہ معمولی رقوم کے عوض پڑھے لکھے نوجوانوں کے ذریعے خبریں اور اخباری مواد اپ لوڈ کروا کے لوگوں خصوصاً سرکاری آفیسران کو دو دو ہاتھوں سے بلیک میلنگ کے ذریعے تنگ طلب کر رہے ہیں۔وادی سے تعلق رکھنے والے حقیقی صحافیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ صحافتی صفوں میں شامل ہوئے لٹیروں کا پتہ لگا کے اْنہیں اس مقدس شعبے سے بے دخل کرنے کا بیڑا اْٹھا لیں کیونکہ صحافت کو بدنام کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہے۔ ورنہ یہ شعبہ مستقبل قریب میں اس طرح غائب ہو جائے گا جیسے کہ گدھے کے سر سے سینگ ؟۔عوامی حلقوں نے جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہااور ڈائریکٹر انفارمیشن سے اپیل کی ہے کہ کشمیر میں صحافت کے پیشے کو بد نام کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کے ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے میں کام کرنے والوں کے لئے تعلیم کی حد مقرر کی جائے تاکہ اس پیشے کو صحافی نما بد معشوں ، رہزنوں اور بھتہ خوروں سے نجات حاصل ہو سکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا