بشیر بھدرواہی کی تصانیف پر تبصرہ،کے ایل سہل ہال میں پروقار تقریب کا انعقاد

0
0

تقریب میں شعرائ،وادْباء کی بھاری تعداد شریک ، بشیر بھدرواہی کی ادبی خدمات کو سراہاگیا
لازوال ڈیسک
جموں//کلچرل اکیڈمی سہگل ہال جموں میں ریاست جموں و کشمیر کے مایہ ناز اْردو ،کشمیری شاعر، ادیب و ایوارڈ یافتہ بشیر بھدرواہی معروف تصانیف پر تبصرہ کرنے سے متعلق ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔تقریب میں ادیب،شاعر،دانشور کی ایک بھاری تعداد نے شرکت کی اور اپنی شرکت سے بشیر بھدرواہی کے تئیں اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔تقریب میں سیکریٹری کلچرل اکیڈمی بھارت سنگھ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شہنواز نے انجام دیئے۔جہاں محفل میں ظاہر بانہالی نے بشیر بھدرواہی پر کشمیری زبان میں لکھا ہوا اپنامکالمہ پڑھا جوکہ بشیر بھدرواہی کی پوری حیات و خدمات کا احاطہ کیا ہوا تھا۔کس سن میں پیدا ہوئے،کن کن مشکلات سے گزر کر محکمہ تعلیم میں ایجوکیشن آفیسر تک پہنچے اور کن کن علاقوں میں جا کر اپنے فرائض انجام دیئے۔اپنی شاعری کی وجہ سے پوری ریاست جموں و کشمیر میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔
اِس کے ساتھ ہی ڈاکٹر شہناز قادری نے بشیر بھدرواہی پراْردو زبان میں لکھا ہوا مکالمہ پیش کر کے شرکاء کو محظوظ کیا۔ڈاکٹر شہناز قادری نے لگ بھگ اْسی پیرائے میں اپنا مکالمہ پڑھا جسے ڈاکٹر ظاہر بانہالی نے کشمیر زبان میں اپنا مکالمہ پیش کیا۔اِن دونوں کے مکالمہ پیش کرنے سے بشیر بھدرواہی کی بہت سی باتیں،بہت سے لوگوں کیلئے نئی تھیں۔ بشیر بھدرواہی نے تعلیم کیسے حاصل کی ،کون کون سے مشکلات سے گزرنا پڑا،کب پیدا ہوئے،کب تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر والد کے انتقال ہونے کے بعد غم روزگار کیلئے میدان میں اْترے۔لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے تعلیم بھی جاری رکھی ،محکمہ تعلیم میں بطورِ استاد تعینات ہوئے ،ہوتے ہوتے ضلع سطح کے آفسر سبکدوش ہوئے۔89برس کی عمر میںہوتے ہوئے ماشا اللہ آج بھی محفلوں کی رونق ہوتے ہیں،جہاں جہاں جاتے ہیں،وہاں وہاں اپنی قابلیت،شرافت،سادگی کی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔
وہیںمحفل میں شعرائ،اْدباء نے مختصراً بشیر بھدرواہی کے تئیں اپنی وابستگی کب اور کس دور میں ہوئی سامعین کے سامنے پیش کیں۔جن میں برج ناتھ بیتاب،اسداللہ وانی ،ولی محمد اسیر،شاد رمضان و دیگران قابل ذکر ہیں۔محفل میں پروفیسر شہاب عنایت ملک نے جہاں بشیر بھدرواہی کو اپنا دوست کہا لیکن وہیں ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ بشیر بھدرواہی میرے والد کے درجے کے برابرہیں۔شہاب ملک کا کہنا تھا کہ بشیر بھدرواہی کیلئے سب سے بڑے اعزاز اورخوشی بختی کا مقام یہی ہے کہ اْن کے جیتے جی اْنہیں لوگ اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں ،اْن کے تئیں اپنی والہانہ محبت کا کھلا اظہار کرتے ہیں وگرنہ اِس جہاں میں بہت سے ایسے مقتدر لوگ ہو گزرے ہیں جنہیں اِس جہاں سے جانے کے بعد یاد تو کیا جاتا ہے لیکن جیتے جی اْن کی قدر نہیں کی جاتی۔شہاب عنایت ملک نے اپنے مخصوص اندازِ بیان سے محفل کو لوٹ لیا،کچھ ایسی باتیں بھی کہہ ڈالیں جو بہت سے لوگوں کیلئے نئی تھیں۔
تاہم محفل میں سبھی شرکائنے بشیر بھدرواہی کو مبارکباد پیش کی کہ جہاں اْن کے فرزند اْن کی خدمت کر رہے ہیں وہیں اْنکی بیٹیاں بھی اْن کی خدمت گزار میں پیچھے نہیں ہیں،سب سے بڑی بات یہ کہ بشیر بھدرواہی پڑدادا ہونے کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں۔قابل ِ ذکر ہے کہ بشیر بھدرواہی ادبی دنیا کا ایک منفرد اور جانا پہچانا نام ہے، بشیر بھدرواہی نے ادبی دْنیا کے اْفق پر اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے، بشیر بھدرواہی نے اپنی ادبی خدمات میں ایسے کار ہا نمایاں انجام دیئے ہیں جن کے عوض انہیں کئی اہم اعزازت سے نوازہ گیا ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا