محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ، ملاپورم،کیرالا
اللہ تبارک و تعالی نے اپنی ہر مخلوق کو کچھ ایسی خصوصیات عطا کی ہیں جن کی مدد سے وہ نہ صرف اپنی غذا حاصل کرتا ہے بلکہ دشمنوں سے اپنا بچاؤ بھی کرتا ہے۔ سانپ کو زہر کی پوٹلی،ہرن کو تیز رفتاری،شیر کو بے پناہ طاقت اور گینڈے کو بے انتہا سخت کھال عطا کر کے ان کو نسلوں کی محفوظ رہنے کا سامان مہیا کیا ہے۔ انسان جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے لیکن وہ قدرت کی بے حد حسین تخلق ہے جس سے ہم اشرف المخلوقات (اللہ تعالی کی پیدا کی گئی تمام چیزوں میں سب سے زیادہ اہم اور بہتر) بھی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ گویا دنیا کی دیگر تخلیقات تو کن فیکن کا مظہر ہیں۔ یعنی اس نے کہا ہو جا اور وہ ہو گئیں لیکن انسان کی تخلیق اللہ تعالی کی قوت تخلیق کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اللہ تعالی خود قرآنِ مقدس میں ارشاد فرماتاہے کہ میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ‘‘قال یا ابلیس ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی’’۔ ترجمہ: کہا اے ابلیس کس چیز نے تجھے روکا ہے کہ تو اسے سجدہ نہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔ (سورۂ ص ،آیت :38,75)۔
دونوں ہاتھوں سے پیدا کرنے کا لطیف مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق اپنے خاص توجہ سے فرمائی ہے ورنہ نعوذ باللہ انسانوں کی طرح اللہ تعالی کے دو ہاتھ تصور کرنا نہ صرف ذات الہی کی توہین ہے بلکہ بڑی گناہ کی بات بھی ہے۔ یہ شرف صرف انسانوں کو ہی حاصل ہے کہ اس کی تخلیق کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اس میں اپنی روح پھونکی ۔یہ عزت و اکرام کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ہوا ہے۔ انسان کی عظمت صرف اس لیے ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں اپنی روح پھونکی ہے ورنہ وہ تو مٹی کا ایک معمولی سا قطرہ ہے اللہ تعالی سورۃالحجرمیں فرماتا ہے : ‘‘ اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا’’۔ (سورۃ الحجر،آیت :28,29)۔
انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل اللہ کے صفات کا عکس ہے۔اس کی قوتِ علم ،اردہ اور اختیار کا ایک معمولی سا مظہر ہے۔ انسان میں جو صفات رحم ، سخاوت،سلوک و احسان وغیرہ پائی جاتی ہیں وہ اسی روح کے باعث ہیں۔ اللہ کے خلیفہ میں خدائی صفات سے کچھ عناصر دئے گئے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے سے عہدہ بر آ ہو سکے۔
رحم و کرم کے معاملے ہی کو لے لیجئے! انسان اپنی اولاد کی پرورش اور اس کی نگہداشت اس توجہ اور رحم کے ساتھ کرتا ہے۔ ماں کو محبت، رحمت اور شفقت کا مجسمہ کہا گیا ہے لیکن یہ جذبہ جو انسان کو ملا ہے خدا کے رحم وکرم کے جذبے کے مقابلے میں بے حد معمولی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ‘‘جعل اللہ الرحمۃ مائۃ جزء فامسک عندہ تسعۃ وتسعین وانزل فی الارض جزء اوّاحدا فمن ذلک الجزء یتراحم الخلائق حتی ترفع دابۃ حافرہا عن ولدہا خشیہ ان تصیبہ’’ ۔ترجمہ: ‘‘اللہ تعالی نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ۔ یہ اسی ایک حصے کی برکت ہے جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہیں یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے پر سے اپنا کھر اٹھاتا ہے تاکہ وہ اسے ضرر نہ پہنچے۔ تو یہ بھی دراصل اسی رحمت کا اثر ہے’’ ۔(بخاری شریف ،جلد سوم ،صفحہ: 407)۔
اس میں شک نہیں کی رحمت کا صرف100 /1 واں حصہ مخلوقات کو دیا گیا ہے ہے لیکن اس تقسیم میں بھی حضرت انسان کو سب سے زیادہ حصہ ملا ہے۔ ایک اور حدیث میں اللہ تعالی کی رحمت کو اس کے غصے پر غالب بتایا گیا ہے۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لما قضی اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش انّ رحمتی غلبت غضبی’’۔ ترجمہ: ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالی سب خلقت کو پیدا کرچکا تو اس نے اپنی کتاب لوح محفوظ میں جو اسی کے پاس عرش پر ہے اس میں لکھا میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے’’۔(بخاری شریف ،جلد دوم ، صفحہ:241)۔
ان تمام خوبیوں کا مالک ہونے کے بعد کیا وجہ ہے کہ انسان انتہائی ذلیل کام بھی کر لیتا ہے اس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔اس کی تہہ میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان کی اپنی سرشت کی وجہ سے ہے ۔اس کی پیدائش کے وقت چند ایسی کمزوریاں بھی اس میں ڈال دی گئی تھیں جنہوں نے اسے بلندی سے اٹھا کر پستی میں پٹخ دیا۔یہ کونسی کمزوریاں ہیں ،ان کابیان اللہ تعالی خود قرآن پاک میں کرتا ہے :﴿خلق الانسان من عجل ﴾ترجمہ: انسان کو جلدی کا پتلا بنایا گیا ہے۔
ا س کا مفہوم یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے اسے جلدی جلدی میں پیدا کیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے مزاج میں جلد بازی کو اس قدر دخل ہے گویا یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے جلدی کا پتلا بنا کر پیدا کیا گیا ہے یعنی ہر کام میں جلدی کرنا اس کی فطرت ہے لیکن چونکہ یہ ایک طرح کی کمزوری ہے اسی لئے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اور اس بات کو اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل کی گیارہویں آیت میں اس طرح بیان کیا ہے : ‘‘وکان الانسان عجولا’’۔ ترجمہ : ‘‘ او رانسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے’’۔ بس انسا ن جلد بازی کی وجہ سے مایوس اور غیر کامیاب ہوتا ہے ۔اگر انسا ن اپنے نفس کو اپنے قابو میں کرلے تو وہ ہر جگہ کامیاب ہو سکتاہے بشرطہ کہ اطمینان سے کام لے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں سکون سے کام کرنے والا بنائے اور ہر معاملے میں غور و خوض کر نے کے بعد اگلا قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہِ سید المرسلین ۔