ڈاکٹر محمد دانش غنی
ڈاکٹر گلزار احمد وانی اردو دنیا کا ایک معروف نام ہے ۔ وہ ناقد ،محقق ،شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ جس موضوع پر بھی وہ قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کردیتے ہیں۔معروضیت غیر جانب داری اور اظہارِ حقیقت ان کی تحریر کا خاص وصف ہے۔تنقید میں غیر جانبداری اور بے باکی از بس ضروری ہے۔ تنقید نہ مدح وتوصیف کا نام ہے اور نہ صرف عیب گیری اس کا کام ہے بلکہ غیر جانب داری کے ساتھ فنی تخلیق کے محاسن ومعائب کا سیر حاصل جائزہ لینے کا نام تنقیدہے۔اس تناظر میں ڈاکٹر گلزار احمد وانی کی تصنیف ’’ برگ و بار ‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد بلا تامل ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مضامین مناسب اور متوازی ہیں۔
زیر نظر کتاب میں شامل مضامین اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ڈاکٹر گلزار احمد وانی میں تنقید وتجزیے کی صلاحیت موجود ہے۔ تنقیدی وتحقیقی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تحریر کیے گئے یہ مضامین اگر چہ کہ ہییت کے اعتبار سے اختصار و اجمال کی صورت لیے ہوئے محسوس ہوتے ہیں مگر اس اختصار و اجمال میں بھی معنویت کا بحر بیکراں موجزن دکھائی دیتا ہے۔دراصل موضوع کے تحت متن کے بے جا پھیلاؤ کے بہ نسبت معنی کی ترسیل ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس زاویۂ نگاہ سے ان کے مضامین اپنے آپ میں ہر طرح سے مکمل دکھائی دیتے ہیں۔ مقام مسرت ہے کہ ان کی تنقید میں توازن کے ساتھ اعتدال بھی ہے اور اعتدال میں اعتماد کی خوبی نے انھیں تنقیص کی ڈگر پر بھٹکنے نہیں دیا۔
ڈاکٹر گلزار احمد وانی کا خیال ہے کہ شعر کے کئی زاویے ہوتے ہیں اور ہر زاویہ کو اپنے نظریہ سے دیکھنا شعر کی معنویت اور تفہیم کے کینوس میں اضافے کا باعث ہے ۔اپنی اس فکر کی روشنی میں انھوں نے جن شعرا کے شعری امتیازات اور خصائص کو اپنا مطالعاتی محور بنایا ہے ان میں میرتقی میرؔ ، اسرار الحق مجازؔ ، احمد فرازؔ ، شہریارؔ ، شجاع سلطان ، نذیر آزاد وغیرہ شامل ہیں ۔
’’ میرؔ کا تصورِ غم ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے میرؔ کی شاعری کا سیر حاصل جائزہ لیتے ہوئے ان کی شاعری میں مصورِ غم کی بنیاد پرتصورِ غم کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے مجازؔ کی نظم ’’ آوارہ ‘‘ کو سماج کا آئینہ دار بتایا ہے اور تجزیہ کرتے ہوئے ان نتائج پر پہنچتے ہیں کہ نظم میں ظاہری حسن ، صنائع بدائع ، دور ازکار تشبیہات و استعارات اور خارجی مضامین کثرت سے نظر آتے ہیں ۔اس لیے ان کا گمان ہے کہ اس میں شاعر اپنی اس آوارگی کا ذکر کرتا ہے جس کے ہاتھوں وہ نہ صرف مجبور ہے بلکہ اس آوارگی کے سبب اس کا جنون آخری حد کو چھو رہا ہے جہاں ہر زنجیر پا توڑ دی جاتی ہے ۔
زیرِ نظر کتاب میں شجاع سلطان کی شاعری پر ایک طویل مضمون شامل کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے شجاع سلطان کی شعری معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے انھیں ’’ نقشِ رنگِ جمال کا شاعر ‘‘ کہا ہے ۔ اس مضمون میں انھوں نے شجاع سلطان کی انفراد و اختصاص کی بو باس کو محسوس کرتے ہوئے تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اس کے علاوہ احمد فرازؔ ، شہریارؔ اور نذیر آزادؔ کی ایک ایک غزل کا تجزیہ بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ یہ وہ شعرا ہیں جنھوں نے نئے رنگ و آہنگ میں شعر کہے ہیں اور ان کے یہاں نئی ترکیب ، امیجز اور تشبیہات بھی ہیں ۔
ڈاکٹر گلزار احمد وانی کو کرشن چندر کا ناول ’’ میری یادوں کے چنار ‘‘ میں اشتراکی نظریہ کی بو باس محسوس نہیں ہوتی ۔ وہ یہ تسلیم بھی نہیں کرتے کہ ’’ میری یادوں کے چنار ‘‘ ترقی پسند تحریک کے مقصدی رجحان ’’ ادب برائے زندگی ‘‘کے معیار پر کھرا اترتا ہے ۔ وہ مذکورہ ناول کو کرشن چندر کی آپ بیتی قرار دیتے ہیں ۔ شبنم قیوم کے ناول ’’ پچھتاوا ‘‘ کو موضوع اور اندازِ بیاں کے اعتبار سے ایک اہم ناول قرار دیتے ہیں ۔
فرید برپتی کی تنقید نگاری کے متعلق ڈاکٹر گلزار احمد وانی کا خیال ہے کہ ان کی تنقید میں نیا آہنگ ، نادر تنقیدی اسلوب اور معنی کی تہوں میں چھپاہوا نرم اور سبک لہجہ ملتا ہے وہیں کہیں کہیں سخت تنقید اپنی الگ فضا قائم کرتی ہے ۔ ان کے یہاں ایسے الفاظ کا ذخیرہ بھی موجود ہے جو تنقید کے لیے نئی راہیں کھولتا ہے ۔ ان کے نزدیک ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کی تنقیدی کتاب ’’ شعورِ بصیرت ‘‘ جموں اور نواحِ جموں کے شعری و افسانوی مجموعوں پر مشتمل مضامین کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے ۔ مجید مضمر کے تنقیدی شعور کے بارے ان کی رائے ہے کہ وہ جمالیاتی نقاد کی طرح شعر کے معنی اور اس کے مفاہیم کی نئی نئی پرتیں کھول کر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حصولِ انبساط اور طمانیت کااحساس ہوتا ہے ۔
زیرِ نظر کتاب میں ایک مضمون ’’ وادیٔ کشمیر کی چند شاعرات : ایک جائزہ ‘‘ کے عنوان سے بھی شامل ہے جس میں شعری کائنات کی نئی عبارت ، نئی اشارت ، نیا آہنگ اور نئے اسلوب سے روبرو ہونے کا موقع ملتاہے ، نئے علامات اشارات ، تلمیحات ، استعارات کے ساتھ ان چہروںسے ملاقات ہوتی ہے جو ہمارے ناقدین کی نگاہ میں کبھی نہیں آئے ۔ اس طرح وادیٔ کشمیر کی چند شاعرات کا جائزہ لینے سے وہاں کی شاعرات کے تیور اور مزاج کا پتہ چلتا ہے ۔ ان شاعرات نے انفرادی خصائص کی شناخت کی عمدہ کوشش کی ہے ۔ گوکہ ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے ان شاعرات کے تنقیدی محاسبہ کے بجائے تاثراتی زاویہ نظر سے کام لیا ۔ تاہم ان تاثرات سے بھی ان کے تخلیقی تشخص کی جہتیں روشن ہوجاتی ہیں اور ان شاعرات کے اسلوب اور آہنگ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ان شاعرات میںجن پر بہت کم تحریری مواد ہے ، ان سے آشنائی کی ایک اچھی صورت نکل آئی ہے ۔ اس ذیل میں زینب بی بی محجوب ، شہزادی کلثوم ، سلمیٰ فردوس ، ستارہ نرگس اور عابدہ احمد قابلِ ذکر ہیں ۔
’’برگ و بار ‘‘ کے مطالعہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر گلزار احمد وانی کی تنقید رطب ویابس سے پاک ،غیر جانبدار اور معروضی ہے۔انھوں نے کسی بھی فن پارے پر رائے دینے میں عجلت کامظاہرہ نہیں کیا بلکہ غور وفکر کے بعد رائے دی ہے ۔اپنی رائے کومدلل بنانے کے لیے انھوں نے دلائل سے کام لیا ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر گلزار احمد وانی کا اسلوبِ نگارش واضح ،رواں اور صاف ہے۔ وہ جو بھی کہنا چاہتے ہیں وضاحت اور صراحت کے ساتھ کہتے ہیں ۔ان کی تحریر میں نہ کوئی ابہام ہوتا ہے نہ کوئی پیچدگی ہوتی ہے۔ انھوں نے زبان بھی ایسی استعمال کی ہے جو تنقید کے لیے مناسب خیال کی جاتی ہے۔
بہر کیف ’’ برگ و بار ‘‘ کوئی ایسا کم یاب یا نایاب مجموعہ نہیں ہے لیکن مطالعہ کے قابل ضرور ہے جس کی اشاعت ڈاکٹر گلزار احمد وانی کے لیے کسی سرمایہ سے کم نہیں ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔