سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
7006738436
برج کرشن ائیمہ جو کہ ادبی دنیا میں برج پریمی کے نام سے مشہور ہیں اردو ادب کے ایک نامور اور مستند قلمکار ہیں. برج پریمی ۴۲ ستمبر ۵۳۹۱ئ کو درابی یار حبہ کدل سری نگر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکولوں سے حاصل کی اور بعد میں ڈی۔اے۔وی ہائی اسکول مہاراج گنج سے ۸۴۹۱ئمیں میٹرک کا امتحان پاس کی۔ وہ بیک وقت ایک محقق، تنقید نگار، افسانہ نگار، مترجم ، مورخ، انشائیہ نگار، اور ایک ناول نگار ہیں۔انہوں نے اگر چہ اردو ادب کی ہر طرح سے آبیاری کی ہے تاہم کشمیر شناسی اور منٹو شناسی دو ایسے موضوعات ہیں جنہیں برج پریمی سے ہرگز بھی الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے برج پریمی خود لکھتے ہیں
” کشمیر اور منٹو یہ دونوں میرے محبوب ہیں اس لئے ان کے مختلف پہلوؤں پر لکھنا باعث سعادت ہے یہی وجہ ہے کہ میرے ہر مجموعے پر یہ دونوں پیکر بار بار سامنے آتے ہیں ”
برج پریمی نے ” سعادت حسین منٹو، حیات اور ادبی کارنامے ” اور ” منٹو کھتا ” لکھ کر اپنے منٹو شناس ہونے کے دعویٰ پر مہر ثبت کر دی ہے۔برج پریمی نے جب ادبی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت منٹو کے افسانے چھائے ہوئے تھے۔ برج پریمی منٹو کے افسانوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے ” سعادت حسین مٹو، حیات اور کارنامے ” نام کا مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی انہیں مختلف اعزازات سے نوازہ گیا۔اس کتاب میں برج پریمی نے منٹو کی زندگی اور فن کے ہر پہلو کو بہت ہی مفصل انداز میں اجاگر کیا ہے۔اس کے بعد منٹو کی شخصیت اور فن پر انہوں نے ” منٹو کھتا ” نام سے ایک اور کتاب تخلیق کی۔یہ دونوں کتابیں پڑھنے کے بعد یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ منٹو کو سمجھنے کے لئے ان دو کتابوں سے بہتر کتاب ملنا قدرے مشکل ہے۔ منٹو سے اتنی محبت بلکہ عقیدت ہونے کے باوجود برج پریمی نے بڑی غیرجانبداری سے کام لیا ہے۔جہاں منٹو کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہاں منٹو کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ برج پریمی نے منٹو کی زندگی اور ان کے آباواجداد کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ سعادت حسین منٹو کے آباوآجداد صدیوں سے کشمیر میں آباد تھے اس حوالے سے کرشن چندر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ” منٹو ،جواہر لال نہرو اور اقبال کی طرح کشمیری پنڈت ہیں ” اپنی بات کو مزید مستحکم بنانے کے لئے انہوں نے منٹو کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں منٹو لکھتے ہیں کہ ” میں کشمیری ہوں، بہت عرصہ ہوا کہ ہمارے آباواجداد کشمیر سے پنجاب آئے۔اور مسلمان ہوگئے” برج پریمی نے سعادت حسین منٹو کے ساتھ منٹو لفظ پر مکمل دلیل دی ہے اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو کے اس محب کو منٹو سے کس قدر لگاؤ تھا۔ ابو سید قریشی کا حوالہ دیا گیا ہے کہ
” سعادت کہا کرتا تھا کہ منْٹ کشمیری زبان میں ترازو کو کہتے ہیں کشمیر میں ہمارے اب جد کے یہاں دولت ترازو سے تْلتی تھی۔اسی رعایت سے ہم منٹو کہلائے” حالانکہ اب کشمیر میں منٹ ترازو کو نہیں کہتے ہیں بلکہ یہ وزن کا نام ہے۔
اس کتاب میں منٹو کے اسلاف اور خاندان کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے۔ ہاں یہ بات ثابت نہیں ہو پائی ہے کہ منٹو کے اسلاف میں سے کس بزرگ نے اسلام قبول کیا ہے۔ البتہ یہ بات درج ہے کہ منٹو کے اسلاف سوداگر تھے اور وہ پشمینہ کا کاروبار کرتے تھے۔برج پریمی نے اپنی اس کتاب میں منٹو کے خاندان کا شجرہ نسب بھی نقل کیا ہے جو بقول ان کے انہیں منٹو کی اہلیہ نے ارسال کیا ہے۔اس کتاب میں منٹو کی پیدائش، اور ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں مکمّل تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ منٹو کو بچپن میں ڈرامہ سے کافی حد تک دلچسپی تھی اور انہوں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ڈرامٹک کمپنی بھی کھولی تھی جس میں وہ آغا حشر کے کسی ڈرامے کو سٹیج کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جوں ہی والد صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے دھاوا بول دیا اور منٹو کا یہ خواب محض ایک خواب ہی رہ گیا۔ برج پریمی نے منٹو کی زندگی کے چند اہم اور پنہاں گوشوں کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔جیسے منٹو کو پڑھنے سے زیادہ دیگر مشاغل میں دلچسپی تھی۔ ایف اے کا امتحان ان کے لیے نہ صرف دردِ سر بلکہ ایک طرح کا چلینج بن گیا تھا۔ اس دوران ان میں شراب پینے کی لت پیدا ہوگئی اور یہ عادت عمر بھر ان کے ساتھ رہی۔ برج پریمی نے یہاں تک لکھا ہے کہ بٹوٹ کے قیام کے دوران منٹو کو ایک چرواہن سے محبت ہو گئی۔جس کی جھلکیاں منٹو کے افسانوں ایک خط، بیگو، مصری کی ڈلی، موسم کی شرارت اور لالٹین میں صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مصنف نے اپنی بات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ان افسانوں میں سے چند ایک اقتباسات بھی نقل کئے ہیں۔ برج پریمی کے مطابق منٹو اور عصمت چغتائی کے بہت ہی قریبی مراسم رہے ہیں اور یہ بھی درج ہے کہ منٹو کو تلاش معاش میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پرا ہے۔منٹو سے رسالہ ” مصور” کی ادارت بھی کے ہے جس کے عوض منٹو کو چالیس روپئے تنخواہ دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ اخبار ” پارس ” کی بھی ادارت کی۔لیکن اس اخبار کی غیر صحتمند پالسی سے منٹو کی طبیعت اکتا گئی اور انہوں نے نوکری چھوڑ دی۔ برج پریمی نے منٹو کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے بھی شواہد و ثوابت کے ساتھ تفصیل سے لکھا ہے. کچھ مدت تک "کاروان” اور آل انڈیا سے بھی منسلک رہے ہیں۔بقول برج پریمی منٹو کی آواز قدرے اونچی اور صاف تھی۔ منٹو نے فلمی کہانیوں کی نوک پلک سنسوانے اور مکالمے لکھنے میں بھی اپنا کردار نبھایا ہے۔ فلموں پر تبصرے کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ فلموں کے لئے کہانیاں بھی لکھئیں۔جن فلموں کے لیے منٹو نے لکھا ان میں آٹھ دن، گھمنڈ اور مرزا غالب، وغیرہ قابلِ ذکر ہیں اتنا ہی نہیں برج پریمی نے منٹو کی موت کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ برج پریمی نے لکھا ہے منٹو اپنی ہر تحریر کا آغاز 786 سے کرتے تھے۔ایک دن ایک کہانی شروع کی اور 786 لکھنا بھول گئے۔ بعد میں جب دیکھا تو وہ کہانی وہیں پر چھوڑ دی
۔منٹو کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے برج پریمی لکھتے ہیں کہ منٹو کے اکثر افسانوں پر مقدمے چلانے گئے۔مقدمے یا تو انگریز حکومت نے چلائے یا حکومتِ پاکستان نے۔ جن افسانوں پر مقدمے چلائے گئے یا جن پر سرکاری عتاب نازل ہوا ان میں کالی شلوار، بو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، کھول دو جیسے افسانے قابلِ ذکر ہیں۔ان افسانوں کے منظر عام پر آنے پر منٹو فحش اور ذہنی مریض قرار دیا گیا۔ برج پریمی نے اپنی اس کتاب میں اہم انکشاف کیا ہے کہ "منٹو کے افسانے” نام کے مجموعے کو ان کا پہلا افسانوی مجموعہ کہا جاتا ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” انگارے ” نام سے شائع ہوا۔ جس کا دیباچہ منٹو نے خود لکھا ہے اس افسانوی مجموعے میں خونی تھوک، انقلاب، جی آیا صاحب، ماہی گیر، چوری اور دیوانہ شاعر جیسے افسانے شامل ہیں۔ان میں سیچند افسانے کتابی شکل میں شائع ہونے سے پہلے ماہنامہ "ساقی” میں چھپ چکے تھے۔اس افسانوی مجموعے کے افسانے منٹو کے دیگر افسانوں سے قدرے مختلف ہیں چنانچہ دیباچہ میں خود منٹو لکھتے ہیں کہ ” یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے "منٹو نے اس دور میں سیاسی حالات سے متاثر ہو کر افسانے لکھے ہیں۔ان افسانوں میں جلیاں والا باغ، مارشل لا، مزدوروں اور غریبوں پر ہو رہے مظالم، اور جنگِ آزادی کے واقعات کا خوب اثر دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے بعد منٹو کے افسانوں کا دوسرا دور 1937 سے شروع ہوتا ہے اس دور میں ،منٹو کے افسانے ، افسانے اور ڈرامے ،لذتِ جنگ اور چند نامی افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ اسی دور میں ہتک، نیا قانون، ڈرپوک، دس روپے، منتر اور نعرہ جیسے افسانے تخلیق کئے. برج پریمی نے اپنی کتاب میں ان تمام افسانوں کی افادیت اور ان کی فنی باریکیوں پر مدلل بحث کی ہے۔اس کے بعد منٹو کے افسانوں کا تیسرا اور چوتھا دود شروع ہوتا ہے۔ جسے برج پریمی منٹو کے عروج اور زوال کا دور مانتے ہیں۔ اس کے بعد منٹو نے کچھ اچھی بری کہانیاں لکھیں۔ لیکن آخری دور میں شراب نے اس قدر طبیعت بگاڑ دی کہ بہت کچھ ایسا بھی لکھا جو کہانی کے دائرے میں بھی نہیں آتا۔ ہاں مگر اس دور میں ان کی ایک خوبی نکھرنے لگی وہ یہ کہ منٹو کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہنے لگے۔ اس دور کے افسانوی مجموعوں میں ” خالی بوتلیں خالی ڈبے” "بادشاہت کا خاتمہ” جیسے افسانوی مجموعے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور میں منٹو نے افسانوی دنیا کو چند لازوال کردار دئیے۔ اور اسی آخری دور میں منٹو نے دنیا کو المیہ کا مطلب سمجھایا۔ ان کے لیے المیہ کا معنی ملاحظہ فرمائیں
"یہ مت کہو کہ ایک لاکھ مسلماں اور ایک لاکھ ہندو مرے ہیں بلکہ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔مسلمان ایک ہزار ہندوؤں کو مار کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو مذہب ختم ہوگیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے ہندو مذہب آج بھی زندہ ہے اسی طرح سے ہندو ایک ہزار مسلمانوں کو مار کر یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ختم ہوگیا۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے اسلام پر ایک خروچ تک نہیں آئی”
منٹو اگر چہ بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں۔لیکن انہوں نے انشائیے، ڈرامے اور مضامین بھی لکھے ہیں . منٹو کے تقریباً سو مضامین شائع ہو چکے ہیں اس کے علاوہ ان کے چند ادبی مضامین بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور انہوں نے چند فلمی شخصیات پر طویل خاکے بھی قلمبند کئے ہیں۔ جن میں ” گنجے فرشتے” اور ” لاؤڈ اسپیکر ” جیسے خاکوں کے مجموعے قابلِ ذکر ہیں۔ منٹو نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی مضامین لکھے ہیں۔ اس حوالے سے "تلخ ترش شیریں” جیسے مجموعے کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ برج پریمی نے منٹو کی ترجمہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے کیا ہے۔منٹو کے چند ڈراموں کے مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں جن میں جنازے، تین عورتیں، کروٹ، شیطان اور دھواں قابلِ ذکر ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے شائع ہونے پر متعدد مستند قلمکاروں اور نقادوں نے برج پریمی کے نام خطوط لکھ کر اْن کے اس کام کی سرہانہ کی ہے۔ صفیہ منٹو (لاہور) لکھتی ہیں کہ ” مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کو ان کی حیات اور ادبی کارنامے لکھنے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی ہے۔میری طرف سے اور اپنی تینوں بہنوں کی طرف سے لاکھ لاکھ مبارکباد قبول کریں۔اللہ آپ کو زندگی میں بڑی کامیابیاں دیں اور آپ کے دو مقاصد ہیں خدا پورا کرے۔بلراج کومل لکھتے ہیں کہ۔ ” کتاب بھر پور ہے اور شروع سے آخر تک با معنی۔آپ نے سعادت حسین منٹو کی حیات اور ادبی کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔ ان کی بے پناہ خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی کمزوریوں پر بھی نظر رکھی ہے”
علی سردار جعفری لکھتے ہیں کہ ” آپ کی تصنیف، "منٹو حیات اور ادبی کارنامے” میں نے پڑھی پسند آئی۔” اس کے علاوہ حمیدہ معین رضوی (پاکستان)، آل احمد سرور، وارث علوی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر حامدی کشمیری، پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر محمد حسین، اور پروفیسر گیان چند جین نے بھی برج پریمی کے نام خطوط ارسال کر کے ان کے اس کارنامے کی سرہانہ کی ہے ۔ پروفیسر گیان چند لکھتے ہیں کہ ” آپ کی بیش بہا کتاب سعادت حسین منٹو ملی شکریہ،کتاب خوب سے خوب تر ہے مفصل، جامع اور تحقیقی،۔آخری جزور سعادت حسین منٹو ایک نظر میں بیت الغزل ہے کوزے میں دریا بھرنا اس کو کہتے ہیں کتنی زیادہ معلومات تھوڑے صفحات میں سما دی ہیں۔ ان کی تصانیف کی فہرست تیار کرنے میں آپ نے بہت محنت کی ہوگی” پروفیسر تشکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر برج پریمی نے سعادت حسین منٹو پر سیر حاصل تحقیق و تنقیدی مقالہ لکھا ہے ان کا یہ کام بہت قیمتی ہے۔ عرق ریزی، محنے، لگن اور ریاضت سے منٹو کی شخصیت اور ان کی تخلیقات کا ایک عمدہ اور تجزیاتی مطالعہ سامنے آتا ہے ” ان خطوط سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت اور بھی مسلم اور مستحکم ہوجاتی ہے۔۔ منجملہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ برج پریمی نے منٹو پر قابلِ ستائش کام کیا ہے۔انہوں نے منٹو کی زندگی ،اور ادبی کارناموں کا بہت ہی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔۔منٹو پر ان کے کام کی گونج بڑی دیر اور بڑی دور تک سنائی دے گئی۔