(*بحرین میں مقیم اردو کے مستند اور معروف شاعر محترم اقبال طارق کا مراد ساحل کی شاعری پر مختصر تبصرہ*)

0
0

کوکن کا کوہکن

اقبال طارق
بحرین

جس تیزی سے ہماری تہذیبی روشنی کو مغربی اندھیرے چاٹ رہے ہیں اور جس سرعت کے ساتھ ہماری زبان اردو کو ختم کرنے کی سعی کی جا رہی ہے- ایسے میں اگر سر زمین ہند پر کسی نوجوان کو اردو سے محبت اور شاعری سے عشق ہو جائے تو بلا مبالغہ اسے عہد حاضر کا فرہاد کہا جا سکتا ہے۔اور اسی لئے میں ”مراد ساحل ” کو کوکن کا کوہکن کہہ رہا ہوں۔
’’مراد ساحل‘‘ کی شیریں تو اپنی شیریں زباں اردو اور پہاڑ کوہ سخن ہے جسے وہ قلم سے چیر کر دودھ کی نہر نکالنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔اور شاید ان کا یہ شعر خود انہی پر صادق آتا ہے۔
روز کل کا وعدہ ہے روز کل کی کل کل ہے
کوء کل نہیں ہوتی بے کلوں کی بستی میں
اور یہی بے کلی شاعر کا حقیقی اثاثہ ہوتی ہے۔ جو اسے روز و شب وادء سخن میں اپنی چاہتوں کے گلاب بونے میں مصروف رکھتی ہے۔ جنہیں شاعر خون سے سینچتا ہے اور جن گلابوں کو خون سے سینچا جائے ان کی مہک اگر زمانے کو مہکا نہ سکے تو ہمارا ایمان لڑکھڑا جائے۔ اور میرا ایمان ہے کہ صدق دل سے کی گئی محنت ہمارا رب کبھی ضائع نہیں کرتا۔گو کہ’’ مرادساحل‘‘ خوف کی وادیوں میں مقید ہیں اور اسی لیے وہ کہتے ہیں ۔
اس جہاں کے لوگ بس درد آشنا کہنے کو ہیں
آزمایا سب کو سب اہل- وفا کہنے کو ہیں
’’مرادساحل‘‘ کی شاعری دنیائے اردو میں ایک تازہ مہکار ہے اور اس کے پس منظر میں ’’مرادساحل‘‘ کے سچے اور کھرے جذبے کے ساتھ عصری صداقت کی لہریں اس کے ذہنی ساحل سے ٹکراتی نظر آتی ہیں اور انہی لہروں کی آواز کا ردھم اس کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔
محبتوں کا مجھے ہر گلاب لکھنا تھا
کلی کلی پہ مجھے انقلاب لکھنا تھا
سبھی قلم تھے امیروں کی دسترس میں اور
مجھے غریبوں کو عالی جناب لکھنا تھا
اور یہی کوکن کے ساحلوں کا باطنی وصف ہے جو’’ مراد ساحل ‘‘ کے پس منظر میں عمل انگیز رہتا ہے
سمندروں کو بھی لکھنی تھی آرزو کی کتاب
تو ساحلوں کو مجھے بھی سراب لکھنا تھا
’’مراد ساحل‘‘ اپنی گم شدہ تلاش شناخت پر صدیوں کی پڑی گرد ہٹانے میں مصروف ہیں۔جو مظاہر کی نفی کی بجائے اثبات کا پہلو نمایاں کرتی ہے۔ مراد ساحل انسانی رشتوں کی خزاں سے گزرنے کے باوجود انسانی وابستگیوں، امن، حب الوطنی، اور محبت جیسے عناصر پر گہرا ایمان رکھتے ہیں۔اور اس کو انہوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
تیری یادو کی روشنی کی قسم
اب تری خاک- پا ستارہ ہے
مگر’’ مراد ساحل‘‘ مثالی انسان اور مثالی معاشرے کے انتظار میں ہے۔اسی لئے ان کی شاعری میں یاس کی بجائے انتظار کی کیفیت جا بجا نظر آتی ہے۔
سحر قریب ہے سہما ہوا اندھیرا ہے
افق کو چیر کر سورج نکلنے والا ہے
لیکن شاعری تخلیقی، استقلال اور فکری استقامت کا مسلسل تقاضہ کرتی ہے۔ اگر ’’مراد ساحل‘‘ نے انہیں برقرار رکھا تو مجھے یقین ہے کہ ’’مراد ساحل ‘‘ ساحل – مراد تک اپنی کاغذی کشتی اور قلم کے چپو کے سہارے سخن کے سمندر سے اشعار کے موتیوں کی مزید مالائیں تلاش کر لائیں گے۔
مراد ساحل، ———– گو کہ جوار بھاٹا ایسی کشتیوں کی تلاش میں رہتا ہے——- مگر جہان اردو کو آپ کی پر عزم اور نو جوان توانائیوں کی ضرورت ہے۔ اور بھنور کے ساتھ ساتھ ساحل بھی آپ کے انتظار میں ہیں۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا