لیکچر کا اہتمام اب ہر تین ماہ کے بعد ہوا کرے گا
لازوال ڈیسک
راجوریباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں پروفیسر جاوید مسرت وائس چانسلر کی صدارت میں پہلا باباغلام شاہ بادشاہ میموریل لیکچر کاآغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔تلاوت کے فرائض ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے انجام دئے۔اس موقعے پہ پروفیسر اقبال پرویز رجسٹرار بی جی ایس بی یو کے علاوہ مہمان خصوصی پروفیسر ایاز رسول نازکی سابق رجسٹرار باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری،پنجابی اور اردو کے معروف ادیب خالد حسین،نسیم احمد ڈین ایم بی اے ،جی ایم ملک ڈین ایجوکیشن اینڈ اسکول آف لینگویجز؛شجاع الدین ڈائریکٹر شعبہ حیاتیات ونباتات،اصغر غازی پرنسپل انجینیرنگ کالج، تمام شعبہ جات کے صدور،فیکلٹی ممبران طلبہ وطالبات کے علاوہ خورشید بسمل،جناب فاروق مضطراور لعل دین موجود تھے۔پروفیسر ایاز رسول نازکی کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے”صوفی ازم، اہمیت اور عالمی سطح پہ اس کے روشن امکانات“موضوع پہ پہلا بابا غلام شاہ بادشاہ میموریل لیکچر دیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ شیخ الجامعہ پروفیسر جاوید مسرت کی تعمیر ی سوچ اور وسیع النظری کا یہ نتیجہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے ولی باباغلام شاہ بادشاہ کے نام پہ یہ لکچر سیریز کا سلسلہ شروع کیا ہے جو ہر تین ماہ کے بعد ہوا کرے گا۔جس کے لیے دنیا کے ہر ملک سے عالمی شہرت یافتہ علمی،ادبی،ساینسی اور دینی شخصیات کو وقتاً فوقتاً مدعو کیا جاتا رہے گا۔تاکہ طلبہ ،اساتذہ اور سیول سوسائٹی کے لوگ ان نابغہ روزگار ہستیوں سے مستفید ہوتے رہیں۔پروفیسر ایاز رسول نازکی نے اپنے لیکچر میں صوفی ازم کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوے فرمایا کہ سلسلہ قادریہ ،سلسلہ چشتیہ،سلسلہ سہروردیہ اور سلسلہ نظامیہ تمام صوفی ازم کی مختلف شاخیں ہیں۔انھوں نے اپنے موضوع سے پورا انصاف کیا۔ان کی علمی واقفیت اورزبان وبیان پہ عبور کو محسوس کرتے ہوے سامعین وناظرین نے انھیں دل سے داد دی۔اس موقعے پہ پروفیسر ایاز رسول نازکی کا ناول”ستی سر“ کی رسم رونمای بھی انجام دی گئی۔یہ ناول پانچ سو سالہ کشمیری کلچر اور وہاں کی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔اس ناول کو انگریزی رسم الخط میں لکھا گیا ہے جس پہ لکھا سیر حاصل تبصرہ شعبہ انگریزی کی صدر (راجوری یونیورسٹی) محترمہ ڈاکٹر رومینہ رشید نے سامعین کی نذر کیا۔پروفیسر اقبال پرویزرجسٹراربابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیاجس میں انھوں نے فرمایا کہ پروفیسر ایاز رسول نازکی جیسے ذہین،محنتی اور خوش مزاج وخوش اخلاق لوگ آج کے معاشرے کے لیے غنیمت ہیں۔ہم سب پروفیسر نازکی اور ان کی اہلیہ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی ہماری فرمائش پر ایسی علمی مجلسوں کی رونق بنتے رہیں گے۔پروفیسر جاوید مسرت نے پروفیسر ایاز رسول نازکی کو ایک ہمہ جہت علمی وادبی شخصیت قرار دیا اور کہاکہ پروفیسر نازکی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔وہ اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں۔ان کی حیثیت ایک ساینس دان،شاعر،ناول نگار،دانشور اور ایڈمنسٹریٹر کے علاوہ ایک اچھے مصور کی ہے۔انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی پروفیسر ایاز رسول نازکی جیسے ذہین ومتین اور علمی وادبی شخصیات کی قدردان ہے اور ان کو خوش آمدید کہتی ہے۔اردو اور پنجابی کے ادیب خالد حسین نے پروفیسر ایاز رسول نازکی کو اپنا گہرا علمی ودابی رفیق قرار دیا اور کہا کہ یہ شخص جتنی اچھی شاعری اردو میں کرتا ہے اتنی ہی اچھی شاعری کشمیری میں بھی کرتا ہے۔اس پروگرام کی نظامت کے فرائض دانش اقبال رعنا نے بحسن وخوبی انجام دیے۔