ایک گمنام مجاہدِ آزدای مولانا سید محمد اسحاق رحمانی برونویؒ

0
0

ڈاکٹر سیداسرارالحق سبیلی

پیارے بچو! آج میں تمہیں ایک ایسے مخلص مجاہدِ آزادی کا نام بتاؤںگا، جواب تک گم نام رہے ہیں۔ تم نے ملک کی ایک بڑی ریاست بہار کا نام ضرور سنا ہوگا۔ یہ ریاست جہاں دوسری خصوصیات کے لیے مشہور ہے وہیں بودھ مذہب اور جین مذہب کی جائے پیدائش، علم وروحانیت اور جذبۂ آزادی کے لیے بھی مشہور ہے، اور مادرِ وطن کی آزادی میں اس ریاست کا بہت بڑا حصہ ہے۔
ریاست بہار کے صدرمقام پٹنہ میں ایک محلہ کا نام صادق پورہے۔ یہ تاریخی محلہ پورے ملک کے لیے قابلِ فخر ہے، کیوں کہ اس محلہ صادق پور کے علماء نے وطن کی آزادی کے لیے شان دار قربانیاں پیش کی ہیں۔ علمائے صادق پور نے حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی کی قیادت میں سب سے پہلے بالاکوٹ میں جہاد کیا، جس میں حضرت سید احمد بریلوی اور ان کے کئی خلفاء ورفقاء شہید ہوگئے۔
پھر ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف پہلی جنگِ آزادی حضرت سیداحمد شہیر کے خلفاء اور دیگر افراد کے ذریعہ لڑی گئی۔ بدقسمتی سے اس مرتبہ بھی مجاہدین کو شکست ہوئی اور صادق پور کے بے شمار علماء شہید کردیئے گئے۔آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے علماء صادق پور کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہاتھا:’’اگر پورے ہندوستان کی قربانیوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور علمائے صادق پور کی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو علمائے صادق پور کی قربانیاں بھاری پڑیں گی‘‘۔
پٹنہ سے سواسوکیلومیٹر دور دریائے گنگا کے شمالی ساحل پر برونی شہر میں ایک بہت بڑا ریلوے جنکشن ہے، اسی برونی میں مغربی سمت آموں کے باغات کے درمیان بریار پور نام کا ایک گاؤں آباد ہے۔ اسی گاؤں میں ۱۹۰۰ء کے آس پاس مولانا سید محمد اسحاق رحمانی برونوی کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والد ماجد کا نام مولوی غلام سبحان اور دادحضرت کا نام مفتی یارعلی محدث برونوی تھا۔مفتی یارعلی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (جنہوں نے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتوی دیاتھا) کے شاگرد وخلیفہ تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب وہ دہلی میں علماء کو انگریزوں نے چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو مفتی یار علی دہلی سے ترکِ وطن کرکے برونی آکر آباد ہوگئے۔
مولانا اسحاق رحمانی کی تعلیم وتربیت دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، جس کے قیام کا اوّلین مقصد ہی ملک سے انگریزوں کو بھگانا اور ان کی غلامی سے آزاد کرانا تھا۔ دیوبند میں مولانا اسحاق رحمانی کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی جیسے استاد سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا، جو ایک عظیم مجاہدِ آزادی اور آزادی کے لیے ریشمی رومال تحریک کے بانی تھے۔ دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد مولانا اسحاق اپنے استاد حضرت شیخ الہند کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے۔ انگریزوں نے جب حضرت شیخ الہندکو مالٹا جلاوطن کردیا تو مولانا اسحاق بھی اپنے استاد کے ساتھ تھے۔
مالٹا سے واپسی کے بعد مولانا اسحاق رحمانی ایک دوسرے مجاہدِ آزدای مولانا سید محمد علی مونگیریؒ کے مدرسہ جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس سے وابستہ ہوئے، اور یہاں بھی انگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی، جس کے نتیجہ میں انہیں مونگیر، بھاگل پور اور رانچی کے جیلوں میں قید کی سزائیں دی گئیں، لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور تادم حیات جنگِ آزادی میں حصہ لیتے رہے۔ ۱۹۴۲ء میں بمبئی سے’’ہندوستان چھوڑو تحریک‘‘ شروع ہوئی، اس موقع پر مولانا اسحاق دیگر مجاہدینِ آزادی کے ساتھ شریک تھے، کیوں کہ ۱۹۹۲ء میں حکومتِ ہند کی طرف سے ہندوستان چھوڑوتحریک کی گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کے لیے مولانا اسحاق رحمانی کے نام بھی دعوت نامہ بھیجا گیاتھا، جس کی ایک کاپی راقم کے پاس بھی موجود ہے، لیکن مولانا اسحاق کا انتقال تو ۱۹۴۲ء کے بعد ہی مشرقی دیناج پور کے سفر کے دوران ہوگیاتھا، ان کی قبر بھی وہیں ہے جو آج کل بنگلہ دیش میں واقع ہے، مولانا اسحاق کے پوتا(اور میرے چچازاد ماموں) اختر ماموں بنگلہ دیش میں ان کی قبر کی زیارت کرچکے ہیں۔
گاندھی جی، ڈاکٹر راجندر پرشاد، شری کرشن سنہا(سابق وزیراعلیٰ بہار) جے پرکاش نارائن، رام چرترسنگھ، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی آپ کے ساتھیوں میں تھے، جن کے ساتھ مل کر آپ نے پورے ملک کا دورہ کیا تھا اور ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کی دعوت دی تھی۔ آپ گاندھی جی کی سودیشی تحریک سے مکمل متفق تھے۔ آپ خود بھی کھادی کا کپڑا پہنتے اور اپنے بچوں کو بھی پہناتے۔ مولانا اسحاق کے تیسرے فرزند مولوی سید محمود الرب کے بارے میں میری والدہ (سیدہ سامرہ خاتون عرف چاند بی بی جو مولانا اسحاق رحمانی کی پوتی ہوئیں) نے مجھ سے بتایاتھا کہ ان کے دادا ان کے تیسرے چچا کو جو دوتین سال کے بچے تھے کھدر کا کپڑا پہناتے تھے، جس سے بعض دفعہ ان کا بدن چھل جاتاتھا۔
مولانا اسحاق رحمانی کے انتقال کے بعد ان کے دوسرے فرزند اور میرے نانا حضرت مولانا سید محمد عبدالرب نشتر (م: ۲۸؍ستمبر ۱۹۹۸ء) نے اپنے والد بزرگوار کے مشن کو جاری رکھا۔ وہ بھی ایک بے باک قائد، مصلح اور شعلہ بیان مقررتھے، اور پورے شمالی بہار میں ایک نڈر مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کے انتقال کے بعد روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ نے ایک مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے ان پر اداریہ شائع کیاتھا۔
غرض مولانا سید محمد اسحاق رحمانی میں آزادی کے حصول کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ انہوں نے اپنی پور زندگی تن، من،دھن سے وطن کی آزادی کے لیے وقف کردی تھی، اور آزادی کی جدوجہد کے سفر میں ہی مشرقی دنیاج پور میں عین جوانی کی حالت میں آپ کی موت واقع ہوئی۔ ملک کی آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے مجاہدِ آزادی کا وظیفہ مولانا اسحاق رحمانی کی اہلیہ محترمہ بی بی سلمیٰ خاتون کے نام جاری کیا جو ان کی وفات (۱۹۷۷ء) تک جاری رہا۔ ریاستی حکومت اور اس کے کارندے مولانا اسحاق کی یادگار بنانے کے لیے ان کی باقیات کی تلاش میںہیں جو نایاب ہیں۔ البتہ بلدیہ والوں نے ان کے گھر کے پاس سے گزرنے والی سڑک کو مولانا اسحاق روڈ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
9346651710

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا