ایک مبنی بر شمولیت ڈیجیٹل مستقبل کی تعمیر: بھارت سے حاصل ہوئے سبق

0
0

 

 

از: دیب جانی گھوش، ناسکام کے صدر
تیز رفتار تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے عالمی بیانیوں کے امتیازی نشان کے حامل عہد میں بھارت کا لائحہ عمل اختراع، ترقی اور مضمرات کے معاملے میں ایک پرکشش داخلی آگہی فراہم کرتا ہے۔ آج، ’’ناگزیر بھارت‘‘ کا راستہ اس کی ترقی پذیر معیشت اور تکنالوجی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے مضبوط قدم سے بھی کہیں آگے کا ہے اور یہ راستہ ایک ایسے ملک کی شکل لے رہا ہے جو عالمی وراثت میں اپنے مقام کی تشکیل نو میں مصروف ہے۔ ایک ایسا سفر جسے خلاقیت ، کلیدی اتحاد اور مبنی بر شمولیت ترقی کے لیے لگاتار کی جانے والی کوشش سے تقویت حاصل ہو رہی ہے۔
بھارت فزوں طور پر کلیدی شراکت داریوں اور اتحاد کی تشکیل میں ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اس نظریہ کو گولڈمین سیکس کے اندازوں اور تخمینوں سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے جنہوں نے بھارت کے بارے میں توقع ظاہر کی ہے کہ یہ 2075 تک دنیا کی دوسری وسیع تر معیشت بن جائے گا اور فائننشل ٹائمز نے بھارت کی قوت خرید کے بارے میں پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قوت خرید 2050 تک امریکہ کے مقابلے میں 30 فیصد زائد ہو جائے گی۔
بے مثال بھارت میں مضمر اپنی جڑوں سے لے کر اب یہ مہم موجودہ صورتحال میں مطلع عالم پر ایک محوری شریک کار کی شکل اختیار کر چکی ہے، بھارت کا سفر ایسا سفر ہے جس میں مختلف النوع شعبوں میں تغیرات کا ایک پورا سلسلہ کارفرما ہے۔
بھارت کی ڈیجیٹل اور مصنوعی انٹیلی جینس کی قوت
ہمارے سفر کا آغاز آدھار پروجیکٹ کے ساتھ ہوا تھا، اس کے ذریعہ ایک بلین سے زائد شہریوں کو ایک منفرد قومی شناخت فراہم کی گئی تھی۔ جہاں ایک جانب متعدد یوروپی ممالک شناخت کی تصدیق کے مسئلے سے کافی عرصے تک نبردآزما رہے اور انہیں اسے حل کرنے میں 18 مہینے لگ گئے، دوسری جانب بھارت کی جے اے ایم تثلیث نے پوری دنیا میں ایک سب سے بڑے سماجی فائدے کی تقسیم سے متعلق منصوبوں کی جانب رہنمائی کی 1.3 بلین کیبقدر بھارتیوں کے ہاتھوں میں اب ڈیجیٹل شناخت ہے، جو اس کا استعمال تقریباً 80بلین کے بقدر لین دین کے لیے یومیہ بنیاد پر کرتے ہیں۔ بھارت نے صحیح معنوںمیں مبنی بر شمولیت معیشت کے لیے ایک زبردست بنیاد قائم کر لی ہے۔ اس انقلابی سفر کے قلب میں انڈیا اسٹیک (ڈیجیٹل عوامی مالی بنیادی ڈھانچہ)جو ڈیجیٹل شناخت کا ایک اختراعی ارتباط ہے۔ یہ سقم سے مبرا ڈیجیٹل ادائیگی پروٹوکول یا ضابطہ فراہم کرتا ہے اور رضامندی سے مملو ڈاٹا شیئرنگ فریم ورک، جس کے نتیجے میں انفرادی ترجیحات پر مبنی محفوظ اعدادو شمار کا تبادلہ ممکن ہو پاتا ہے۔ یہ اسٹیک اب بھارت کے ڈیجیٹل عوامی بنیادی ڈھانچے کا سنگ بنیاد بن چکا ہے جو مالی لین دین سے لے کر قومی پیمانے پر ٹیکوں کو متعارف کرانے تک کے معاملیمیں خدمات کے ایک پورے سلسلے کو تقویت بہم پہنچا رہا ہے اور عالمی پیمانے پر بے مثال نمونہ ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت کا ڈی پی آئی شمولیت، سلامتی اور ایکو نظام – مرتکز نمو کے اصولوں پر قائم ہوا ہے، اور ایک ایسے اقتصادی ترقی کے نمونے کے لیے راستہ ہموار کر رہا ہے جو اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی فرد واحد پیچھے نہ رہ جائے۔ بنیادی سطح سے اوپر کی جانب اختراع کو پروان چڑھانے کا ہمارا طریقہ کار روایتی اور سے نیچے والی اختراع کے ماڈلوں کے برعکس ہے جو کہ مغرب میں عام طور پر رائج ہے۔ اس طریقہ کار نے بھارت کو ایک ایسے منفرد ملک کا نمونہ بنا دیا ہے جو صحیح معنوںمیں مبنی بر شمولیت، عوام کو اولیت دینے والی ڈیجیٹل معیشت کو غیر معمولی پیمانے پر اصل شکل دے رہا ہے۔
ناگزیر بھارت کی داستان محض مقامی یا علاقائی نمونوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار ترقی اور اشتراک کے عالمی بیانیوں پر ہے۔ ایک ایسے عالمی پیش منظر میں جہاں بڑی تعداد میں لاکھوں افراد ڈیجیٹل شناختوں سے محروم ہیں، مجموعی طور پر 1.5 بلین کے بقدر افراد بینکنگ خدمات کے دائرے سے باہر ہیں اور 133 ممالک ڈیجیٹل ادائیگیوں کے بنیادی ڈھانچے کے فقدان کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھارت کے طریقہ سے بہت کچھ سیکھنے کی گنجائش ہے۔ جس تیز رفتاری سے ملک نے محض ایک دہائی سے بھی کم کے عرصے میں مالی شمولیت کے اہداف حاصل کیے ہیں- یہ عمل جو بصورت دیگر شاید 5 دہائیوں پر محیط ہوتا – آج اپنے ڈیجیٹل عوامی بنیادی ڈھانچے کی اثر انگیزی کا مظاہرہ ہے اور ساتھ ہی اس کے شہریوں کی لچک بھی شامل ہے – یہ کچھ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں دنیا ہم سے سبق حاصل کر سکتی ہے۔
جس بڑے پیمانے پر فرانس ، بھوٹان، عمان، سری لنکا، ماریشس اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں متحدہ ادائیگیوں کے انٹرفیس کو اپنایا گیا ہے، اس سے مطلع عالم پر بھارت کے اثر و رسوخ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی پہل قدمیاں اور عالمی پیمانے پر کلیدی اتحاد اور شراکت داریوں کے معاملے میں تبادلہ خیالات کے دوران بھارت کی مقتدر حیثیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
یہ ملاحظہ کرنا ازحد خوشگوار ہے کہ بھارت ان ہی بنیادی اصولوں کو بڑی آسانی کے ساتھ مصنوعی انٹیلی جینس کے عہد میں تغیر لانے کے لیے کر رہا ہے۔ ٹفٹس یونیورسٹی کے فلیچر اسکول کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ ترین حالیہ مصنوعی انٹیلی جینس عدد اشاریے کے مطابق بھارت ان سرکردہ 25 ممالک کی صف میں 15ویں مقام پر فائز ہے جو مصنوعی انٹیلی جینس کی مسابقت میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اے آئی کے معاملے میں سرکردہ حیثیت کے حامل ممالک کے سلسلے میں کی گئی تحقیق نے اے آئی کے ابھرتے ہوئے جغرافیہ میں ممالک کی قیادت کا تعین چار اہم عناصر یعنی : اعداد و شمار، قواعد، سرمایہ اور اختراع کی بنیاد پر کیا ہے۔ جو چیز مشاہدے میں ازحد دلچسپ تھی، وہ یہ ہے کہ مصنوعی انٹیلی جینس کی تعمیر کے لیے انسانی، مالی، تنوع اور ڈیجیٹل بنیادیں، اس معاملے میں بھارت کو امریکہ ، چین ، جاپان، جنوبی کوریا اور جرمنی کے بعد چھٹواں مقام دیا گیا ہے۔ اگرچہ نئی اور ابھرتی ہوئی تکنالوجی کے معاملے میں قواعد کو اپنانے کے سلسلے میں بھارت کو 25 ممالک کی صف میں سب سے نچلا درجہ حاصل ہوا ہے۔
اب ہمارے اوپر یہ فریضہ عائد ہے کہ ہم نظریات کے ابتدائی شواہد سے آگے بڑھ کر مصنوعی انٹیلی جینس کی شکل میں حقیقی پیمانہ تلاش کریں اور ان کے اصل عالمی اثرات کا تجزیہ کریں، سلامتی اقدامات کو بہتر بنائیں، اور مصنوعی انٹیلی جینس کی ترقی اور استعمال کے معاملے میں ایک انسانی ارتکاز والی روایت اپنائیں۔ اقتصادی نمو کے معاملے میں مصنوعی انٹیلی جینس کا تعاون اہم اور ناقابل تردید ہے۔ 2022 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ متعارف کرائی گئی بھاشنی مختلف النوع شعبوں میں بڑی تیزی سے اپنی فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ دی آسک دشا چیٹ بوٹ، جسے بھارتی ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورزم کارپوریشن نے وضع کیا ہے، اب بھاشنی کی ترقی یافتہ صلاحیتوں کی قوت کو بروئے کار لا رہی ہے۔
ایک ایسے عہد میں جب متعدد ممالک سست رو ہوتی اقتصادی توسیع کی صورت میں برعکس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، اور یہ صورتحال مزدوروں کی تعداد میں ہونے والی نمو کے جمود اور عمر رسیدگی کی حامل آبادی کینتیجے میں انحطاط پذیر پیداواریت کی وجہ سے اور سنگین ہو گئی ہے۔ ایسے میں مصنوعی انٹیلی جینس کو اختیار کرنا محض متبادل نہیں ہے بلکہ بقاء کے لیے لازمی شرط بن گئی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم کس طرح مصنوعی انٹیلی جینس کی قوتوں کا استعمال صارفین کی ضروریات کی بہتر تفہیم کے لیے کر سکتے ہیں، اختراعی طور پر مصنوعات کی ساختوں کے تعین کے لیے کر سکتے ہیں، مینوفیکچرنگ شعبے کے لیے ذاتی اور مصنوعات سے متعلق سفارشات میں اس کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں، یا بھارت میں کس طرح ٹیک ایس ایم ای شعبہ مصنوعی انٹیلی جینس کا استعمال پرانے نظام کی وراثت کی تشکیل نو اور بنیادی ڈھانچوں کے لیے کر سکتا ہے اور انہیں نہ صرف مقامی طور پر بلکہ عالمی پیمانے پر کس طرح مسابقت کے لائق بنا سکتا ہے۔
صلاحیت، تکنالوجی اور صاحب بصیرت قیادت کا اجتماع
بنیاد میں عناصر یعنی : صلاحیتوں کا ایک وسیع تر مخزن، جدید ترین تکنالوجی پر مبنی صلاحیتیں، صاحب بصیرت قیادت اور بھارتی اسٹاٹ اپ ایکونظام کے اندر’کر سکتے ہیں ‘ جیسا وسیع رجحان کا ایک منفرد مرقع کارفرما ہے۔
دنیا کی 17.5 فیصد آبادی اور اس کی تقریباً نصف آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے، اس بالادستی کے ساتھ وہ واحد وسیع معیشت ہوگا جو 2030 تک عالمی لیبر فورس میں 90 ملین کے بقدر کارکنان کا اضافہ کرے گا۔ جہاں بھارت او ای سی ڈی کے مطابق اے آئی ہنرمندی وسعت کے معاملے میں اول درجے پر فائز ہے اور اس نے حاصل ہی میں مصنوعی انٹیلی جینس کے ارتکاز اور مصنوعی انٹیلی جینس کے سائنٹفک اشاعتوں کے سلسلے میں اول اور پانچویں درجہ بندی حاصل کی ہے۔ ہمیں اس گفتگو کو اے آئی کی صلاحیت سے منتقل کرکے ایک ’جنریشن اے آئی‘ کو پروان چڑھانے کی جانب منتقل کرنا چاہئے۔ کیا ہم بھارت کی داخلی قربت کو ایک بلین سے زائد مصنوعی انٹیلی جینس کی خواندگی کے حامل افراد کی آبادی میں تکنالوجی کو اختیار کرنے کی شکل دے سکتے ہیں، یعنی یہ افراد ایسے ہوں جو پوری ذمہ داری کے ساتھ اس تغیراتی تکنالوجی کو سنبھال سکیں اور برت سکیں۔ بھارت کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر مبنی حکمت عملی کے معاملے میں ایک تغیراتی اہم تبدیلی کے لمحے کی تخلیق کرے۔ کیا ہم اس وسیلے کو مزید موثر طریقے سے بروئے کار لا سکتے ہیں اور اپنی کوششوں کو ایک ایسے ملک کو تغیر سے ہمکنار کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جہاں مصنوعی انٹیلی جینس کی خواندگی محض ایک مراعت نہیں بلکہ ایک عام اصول ہو ؟
حتمی نتیجہ: امید اور اختراع کی ایک علامت
ہم ناگزیر بھارت کو وا ہوتے ہوئے ملاحظہ کر رہے ہیں۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت کی داستان محض تکنالوجی کی قوت اور اقتصادی قوت تک محدود نہیں ہے۔ اس کا تعلق ایک ایسی مثال پیش کرنے سے ہے کہ کس طرح تکنالوجی جب اسے مبنی بر شمولیت اور ہمہ گیریت پر مبنی اصولوں کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے، معاشروں اور معیشتوں کو تغیر سے ہمکنار کر سکتی ہے۔بے مثال سے لے کر ناگزیر بننے تک کے بھارت کا سفر امید اور اختراع کی ایک علامت ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ قومی کامیابی کے امکانات روشن کر رہا ہے بلکہ ایک مثبت عالمی اثرات کی شکل میں بھی اپنا تعاون پیش کر رہا ہے۔
ترقی اور باہم ارتباط کے اس نئے عہد میں ناگزیر بھارت ایک ایسی علامت بن کر کھڑا ہے جب یہ ملک اپنے ثقافتی ورثے اور مستقبل پر مبنی اندازِ فکر کی حامل اختراع کی قوت اور کلیدی عالمی روابط کے ساتھ یہ دکھا سکتا ہے کہ کیا کچھ ممکن ہے۔ ناگزیر بھارت کی روح کی بازگشت پوری دنیا میں سنی جا سکتی ہے جو ایک ایسی طلوع صبح کا پتہ دے رہی ہے جہاں ہمارے ساجھا مستقبل میں بھارت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تعاون اس کے لازمی عنصر ہوں گے۔ جہاں بھارت ڈیجیٹل عہد میں اور ا س سے بھی آگے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اس کی پوری داستان اختراع ، ترقی اور سب کے لیے ایک بہتر کل کے وعدے کے معاملے میں ایک لائق مطالعہ موضوع بن گیا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا