ڈاکٹر نعیمہ جعفری اور ڈاکٹر سید احمد خان کو اردو ادب میں خدمات پر اعزاز سے نوازا گیا
آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کی جانب سے تقریب کا انعقاد
نئ دہلی //انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ، ابوالفضل انکلیو،جامعہ نگر میں آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کی جانب سے ممبئی سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ناظم مشاعرہ پروفیسر قاسم امام کے اعزاز میں "ایک شام قاسم امام کے نام اور اردو ادب کی مقتدر شخصیات کا اعزاز” کی تقریب اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اسکی صدارت شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر اور اردو اکیڈمی دہلی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر خالد محمود نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی جودھپور کے سابق چانسلر پدم شری پروفیسر اخترالواسع ، سینئر صحافی معصوم مرادآبادی، پروفیسر قاسم امام سابق صدر شعبہ اردو برہانی کالج ممبئی، ڈاکٹر سید احمد خان صدر اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن دہلی،ڈاکٹر نعیمہ جعفری مشہور ناول و افسانہ نگار ان کے علاوہ مہمانان اعزازی میں ڈاکٹر شعیب رضا خاں اسسٹینٹ ڈائریکٹر اردو این آئ او ایس، ایس یو ظفر صاحب اور بچوں کا رسالہ گل بوٹے کے مدیر فاروق سید صاحب تھے۔جبکہ نظامت کے فرائض عالمی شہرت یافتہ شاعر معین شاداب نے ادا کئے۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا۔آج کی اتنی خوبصورت محفل دو معٰنی میں میرے لئے اہم ہے کہ سراج عظیم جن سے میرا رشتہ حنیف کیفی صاحب سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر بھتیجے کی حیثیت سے ہے میں ان کو گھریلو نام نجمی سے جانتا تھا،جب مجھے ادب اطفال میں ان کی کاوشوں کا پتہ چلا تو میں نے پوچھا کہ یہ سراج عظیم کون ہیں لیکن جب انھوں نے مجھے اپنی سوسائٹی کے سن 2018 میں پہلے سیمینار میں صدر کی حیثیت دعوت دی تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ نجمی ہیں۔یہ کئ برسوں سے ادب اطفال لکھ رہے ہیں نہ صرف لکھ رہے ہیں بلکہ اس کے فروغ کے لئے بہت محنت بھی کررہے ہیں۔انھوں نے اپنی سوسائٹی کے تحت ادب اطفال پر کئ سیمینار کرائے ہیں، جن میں میں شامل رہا ہوں۔ میں ان کو اس پروگرام کے انعقاد پر مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ دوسرے پروفیسر قاسم امام کے اعزاز میں یہ شعری نشست کا اہتمام سراج عظیم کا قابل قدر قدم ہے۔ انھوں نے مزید کہا قاسم امام صاحب جو آج کی محفل کے امام ہیں۔وہ نہ صرف ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ناظم بلکہ ایک مخلص انسان بھی ہیں۔ان کی شاعری میں عصر حاضرکی شعری جہات کے نمایاں نقوش ملیں گے۔ بمبئی کی بھاگتی دوڑتی زندگی دھڑکتی ہوئ ملے گی۔میں ان کو اس موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دہلی میں ان کا استقبال کرتا ہوں۔ میں ڈاکٹر نعیمہ جعفری صاحبہ کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کو یہاں ان کی خدمات پر اعزاز سے نوازا گیا۔ نعیمہ جعفری کی حال ہی میں ایک ضخیم کتاب لفظوں کے پیچھے چھپی تہذیب آئ ہے جسمیں انھوں نے تہذیب کے تعلق سے ایسا تاریخی کام کیا ہے جو ہمیشہ ان کا نام زندہ رکھے گا۔ ڈاکٹر سید احمد خان کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں،انکی خدمات پر بھی آج ان کو اعزاز سے نوازا گیا۔ سید صاحب ارود کے بے لوث خدمت گار ہیں۔ وہ پچھلے پچیس سال سے علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش پر یوم اردو کے طور مناتے آرہے ہیں۔ میں فاروق سید کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ بھی بچوں کے ادب کی جنون کی حد تک خدمت کررہے ہیں۔ اب انھوں نے گل بوٹے کا ایپ نکالا ہے جو عصر حاضر کی ضرورت کے مطابق ہے۔ پروفیسر اخترالواسع نے اپنے خطاب میں سراج عظیم کو پروگرام کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ایک تو سراج عظیم بچوں کا ادب لکھ رہے ہیں جو مشکل کام ہے اس سے بھی مشکل کام یہ ہے کہ اس کے فروغ کے لئے اس طرح کے پروگرام کرنا۔ آج بچوں کے ادب کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے جبکہ قدریں بدل گئ ہیں۔ اس کے فروغ کے لئے جو لوگ کام کررہے ہیں وہ واقعی ستائش کے مستحق ہیں، اس سلسلے میں فاروق سید کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ادب اطفال کو مہاراشٹر کے اسکولوں تک اپنے رسالے گل بوٹے جس کی اشاعت پچیس ہزار تک ہوتی تھی اس کے ذریعے پہنچانے کا کام کرتے رہے۔ اب انھوں نے اسی گل بوٹے کے ایپ کی شروعات کرکے اردو کو آج کی ٹیکنالوجی سے مربوط کرنے کی پہل کی ہے۔ آج کی محفل کے دولہا جن کے اعزاز میں یہ شام منائ جارہی ہے۔ ان کا دہلی کی ادبی بستی میں استقبال کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ قاسم کی شاعری منفرد لب ولہجہ کی غماز ہے۔ جہاں مصروف زندگی میں احساسات کی ٹوٹن کا درون ہستی درد ملے گا وہیں زندگی میں جینے کے امید افزا حوصلے بھی ملیں گے۔ معصوم مرادآبادی نے کہا آج کی شام کے دولہا قاسم امام اور اس محفل کو سجانے والے سراج عظیم دونوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی فاروق سید ڈاکٹر نعیمہ جعفری حکیم سید احمد صاحب کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا مجھے یہ اچھا لگا کہ بچوں کے ادب کی سوسائٹی نے اتنا کامیاب پروگرام منعقد کیا۔آج ہمیں بچوں کے ادب کی جانب دھیان دینا چاہئے اس کی ترویج میں ہرممکن کوشش کرنا چاہئے۔ تاکہ اگلی نسل تک ہمارا ادبی سرمایہ محفوظ ہو سکے۔ ڈاکٹر شعیب رضا نے مہمانان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا میں نے کئ بار پروگرامز میں بھی کہا ہے اور سراج عظیم صاحب اور فاروق سید صاحب سے بھی کہ جب تک ادب اطفال کو تدریسی کتابوں میں شامل نہیں کیا جائے گا تب تک اس کی اہمیت اجاگر نہیں ہوگی۔ میرا تجربہ بچوں کا ادب جن بچوں کے لئے لکھا جارہا ہے ان تک پہنچ نہیں رہا۔ اس کو بڑے لکھ رہے ہیں اور بڑے ہی پڑھ رہے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے بچوں کا ادب بچوں تک پہنچایا جائے۔ ڈاکٹر نعیمہ جعفری نے کہا میں سراج عظیم صاحب کے اسرار پر طبیعت خراب ہونے کے باوجود آئ اگر نہیں آتی تو اتنی خوبصورت محفل سے محروم رہتی انھوں نے سراج عظیم، قاسم امام، فاروق سید کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر سید احمد نےڈائس پر صدور حضرات کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کا ان کو اعزاز سے نوازے جانے پر شکریہ ادا کیا۔ ایس یو ظفر صاحب نے کہا کہ وہ سراج عظیم صاحب کے خلوص اور قاسم امام صاحب کی محبت میں بہت دنوں بعد کسی ادبی محفل میں شریک ہورہے ہیں، ایسا نہیں کہ میں ادب یا ادبی محفلوں سے علاحدہ ہوگیا بلکہ میری کاروباری مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وقت نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ میں قاسم امام صاحب کو اس خوبصورت شام کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور سراج عظیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس محفل کا حصہ بنایا۔ فاروق سید نے اپنے خطاب میں سراج عظیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے قاسم امام صاحب اور میرے لئے اتنی خوبصورت محفل سجائی اس کے لئے میں دل کی گہرائیوں سے سپاس گذار ہوں۔ انھوں نے فرداً فرداً سب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے گل بوٹے کے سوشل میڈیا پر گل بوٹے ایپ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ہندوستان میں کسی زبان کے رسالہ کا سب سے پہلا ایپ ہے جس میں تقریباً چارسو گیمز ہیں۔ کسی بھی کلاس کے لئے اسٹڈی میٹیریل موجود ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اور ایکٹوٹیز ہیں۔ یہ ایپ چار زبانوں میں ہے۔ اردو، ہندی، انگریزی اور مراٹھی۔ ان میں سے کسی بھی زبان میں بچہ کوئی پروگرام ڈاؤن لوڈ کرکے مطالعہ کر سکتا ہے۔ اس ایپ کا خاص فیچر یہ ہے کہ اس میں گل بوٹے میں شائع کسی بھی تخلیق کو پڑھنے کے ساتھ اس کی اینیمیٹڈ تصویروں کے ساتھ سن بھی سکتا ہے۔
صدارتی تقریر سے پہلے ڈاکٹر قاسم امام نے بڑے جذباتی انداز میں سراج عظیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ سراج بھائ بہت پیاری شخصیت ہیں۔ جب یہ ممبئی آتے ہیں اور ہمارے کسی پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ تب یہ بالکل دلیپ کمار کے سے اسٹائل میں آتے ہیں۔ اس لئے ہم ان کو دلیپ کمار کہتے ہیں۔ میں ان کا بہت شکر گزار ہوں کہ دہلی میں میری پذیرائی کی اور اتنا اچھا پروگرام منعقد کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت اور خوشی ہے کہ تقریباً رات کے گیارہ بجنے کو ہیں اور تمام شعرا اور سامعین بغیر کسی اکتاہٹ بہت تحمل سے سب کو سن رہے ہیں اور اچھے اشعار پر داد بھی دے رہے ہیں۔ میں نے بہت کم ایسی محفلیں دیکھی ہیں جہاں سنجیدہ سامعین ہوں۔ انھوں نے پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر اخترالواسع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں سے حوصلہ پاکر کچھ کرلیتے ہیں۔ معصوم مرادآبادی کے بارے میں انھوں نے کہا آپ کی اردو ادب کی تاریخ پر بڑی گہری نظر ہے۔ ہم اخبارات میں شائع ہونے والے ان کے مضامین سب سے پہلے پڑھتے ہیں، یہ بڑی متوازن صحافت کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اس کے بعد قاسم امام صاحب کے کلام سے سامعین محظوظ ہوئے۔ اس سے پہلے معین شاداب نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کی جانب ایک شام قاسم امام کے نام اور مقتدر شخصیات کے اعزاز کی تقریب میں اسٹیج پر مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے، سراج عظیم کے بارے میں کہا کہ سراج عظیم سن 1978 سے بچوں کا ادب تحریر کر رہے ہیں۔ اس کےبعد سن 2015 سے اپنی سوسائٹی کے تحت ادب اطفال کے فروغ کے لئے سیمینارز، ورکشاپس وغیرہ کراتے رہتے ہیں۔ انکا ایک واہٹس گروپ بچپن ہے جس میں پوری دنیا کے ادیب الاطفال جڑے ہوئے ہیں۔جہاں صرف ادب اطفال ہی شئیر کیا جاتا ہے۔انھوں نے اردو ادب کو تیس کے قریب نئے بچوں کے لئے لکھنے والے ادیب دئے جن میں سے کئ کی کتابیں بھی آچکی ہیں۔معین شاداب نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا سراج عظیم اور فاروق سید جیسے لوگ محض اردو کی محبت میں بغیر کسی صلے اور ستائش کے ادب اطفال کے فروغ کے لئے خاموشی سے کام کر رہے ہیں،تاکہ ہماری آگے آنے والی نسلوں میں اپنی زبان، تہذیب وثقافت محفوظ ہوسکے۔ مگر افسوس نہ تو سرکاری اداروں اور نہ ہی کسی انجمن یا تنظیم ان کی خدمات کے سلسلے کسی بھی اعزاز نہیں نوازا۔ میں اس اسٹیج سے یہاں موجود تمام احباب اور ارباب اختیار سے درخواست کروں گا کہ ایسے لوگوں کے بارے خاص توجہ دی جائے۔ انھوں نے کہا قاسم امام صاحب کے ساتھ میں نے بہت سے مشاعرے پڑھے ہیں۔ قاسم صاحب نہ صرف یہ کہ ایک اچھے شاعر ہیں بلکہ بہترین ناظم ہیں۔ میں جب بھی بمبئی میں ہوتا ہوں تو قاسم امام صاحب اور فاروق سید صاحب بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ پرتکلف دعوتوں کا انتظام کرتے ہیں۔ سراج عظیم نے اپنی استقبالیہ تقریر میں مہمانان، مدعو شعرا اور سامعین کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم بمبئی سے تشریف لائے ہمارے دو خاص مہمانان پروفیسر قاسم امام اور فاروق سید کا اپنی سوسائٹی کے اراکین اور اپنی جانب سے استقبال کرتا ہوں۔ قاسم امام صاحب کے اعزاز میں ہم نے اس خاص شام کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہم دو اور شخصیات ڈاکٹر نعیمہ جعفری اور ڈاکٹر سید احمد صاحب کو انکی اردو میں خدمات کے لئے آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کی جانب سے ایوارڈ پیش کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا قاسم کی شاعری میں جہاں مجروح احساسات، بمبئی کی مصروف دوڑتی بھاگتی زندگی میں جینے کی تگ ودو میں بہت کچھ کھو جانے کا ایقان ہوگا وہیں حوصلوں کی ندا بھی سنای دیگی۔فاروق سید ادب اطفال کو وہ مسافر ہیں جس کا خود کا بچپن محرومیوں میں گزرا لیکن وہ ہر بچے کے مستقبل کو سنوارنا چاہتے ہیں۔ پروفیسر خالد محمود صاحب میرے لئے ایک سرپرست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں جب بھی ان کو پروگرام کی اطلاع دیتا ہوں۔ وہ سب سے پہلے پہنچنے والے اور سب سے آخر میں جانے والے ہوتے ہیں۔ پروفیسر اخترالواسع صاحب کو پروگرام کے عین موقع پرجب بھی میں فون کرتا ہوں تب ان کا ایک ہی جواب پاتا ہوں حکم اور میں اتنی بڑی شخصیت کے اس طرز پر شرمندہ کہتا ہوں میں صرف درخواست کرسکتا ہوں کہ کل آپ ہمارے پروگرام کی زینت بڑھائیں اور وہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتے۔ ڈاکٹر نعیمہ جعفری بہت کم کہیں جاتی ہیں مگر ہم نے ان سے اسرار کیا تو وہ طبیعت کے باوجود آئیں۔ ڈاکٹر سید احمد صاحب پچھلے تیس سال سے اردو کی بے لوث خدمت کررہے ہیں اور ہر سال 9 نومبر یوم اردو کے طور پر مناتے اور ایک بہت بڑا ایوارڈ فنکشن کرتے ہیں مگر آج تک ان کو کسی ادارے نے اس قابل نہیں سمجھا کہ انھیں کی خدمات کی پذیرائی کرتا۔ ہمیں انکا اعزاز کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔ یہاں جتنے بھی لوگ اس وقت موجود ہیں۔ یہ سب میری دعوت اور مجھ سے تعلق کی بناء پر تشریف لائے ہیں۔ ڈاکٹر ذکی طارق صاحب، ایس یو ظفر صاحب، ناصر عزیز صاحب جو ہماری سوسائٹی کے قانونی مشیر بھی ہیں، خان رضوان نے اس پروگرام کے لئے بڑی محنت کی شارق عباسی اور چشمہ فاروقی ہمیشہ انتظامات میں ساتھ رہتے ہیں۔حامد علی اختر صاحب اپنے صلاح کار چینل پر پروگرام کو نشر کرتے ہیں۔اور وہ تمام حضرات جویہاں موجود ہیں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سراج عظیم کے استقبالیہ کےبعد مہمانان کی گل پوشی ہوئ اس کے بعد پروفیسر قاسم امام، ڈاکٹر نعیمہ جعفری، ڈاکٹر سید احمد خان اور فاروق سید کو انکی خدمات پر آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کی طرف سے پروفیسر خالد محمود ، پروفیسر اخترالواسع اور معصوم مرادآبادی کے بدست توصیفی مومینٹو پیش کئے گئے۔ تقاریر اور اعزازات کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا جو رات گیارہ بجے تک اختتام کو پہنچا اور پرتکلف عشائیہ پر پروگرام ختم ہوا۔ شعراء حضرات کے منتخب اشعار قارئین کے لئے پیش ہیں۔
خالد کا تو دریا کی گزرگاہ میں گھر ہے سیلاب کوآناہو تودروازہ کھلا ہے
پروفیسر خالد محمود
ایک ہم باز نہ آئے کبھی سچ بولنے سے
ایک وہ حرف صداقت پہ زباں کاٹتا ہے
ڈاکٹر ذکی طارق
وقت سے پہلے وقت نہیں تھا وقت کے بعد ہے وقت
ہاتھ چھڑا کر چلا گیا وہ اب پچھتانا کیا
ڈاکٹر قاسم امام
خواب میں دیکھتا تھا رات سمندر کوئی
اور پھر خاک اُڑاتا رہا دن بھر کوئی ڈاکٹر ایم، آر، قاسمی(علیگ)
تمام شیروں کو سرکس میں ڈال کر آزر
شغال سارے غضنفر بنا دئے گئے ہیں
ڈاکٹر فریاد آزر
اِک اشک زمیں پر نہ گرایا ہے ترے بعد
یہ بوجھ بھی پلکوں نے اٹھایا ہے ترے بعد
رحمان مصوّر
دو سگی بہنوں سے دو گنجوں کی شادی ہوگئی
اور یہ بے زلف بھی ہمزلف کہلانے لگے احمد علوی
یہ کس کا شہر تھا بازار تو بہت تھے وہاں
مگر کفن کے علاوہ کچھ اور تھا ہی نہیں
معین شاداب
میں نے دیکھی ہیں تری بھی آنکھیں
صرف مجھ پر نہ لگا تہمتِ خواب
ڈاکٹرخالد مبشر
ہاں وہی مانگا ہے میں نے جو ترے بس میں نہیں
زندگی اور زرا دیر کی مہلت دے دے
ایس، یو، ظفر
وہی ہے مے،وہی شیشہ ،وہی ہے پیمانہ
پہ میکشی کے جو آداب تھے وہ بدلے گیے ۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری
تالے تو سب کی زبانوں پہ لگا رکھے ہیں
گیت آزادی کے ہم گائیں تو گائیں کیسے
حامد علی اختر
کسی کے گھر کو جلائیں کسی کا قتل کریں
یہ ان میں حوصلہ جانے کہاں سے آتا ہے
خان محمد رضوان
آسماں چھو کے جو ہر شام پلٹ آتے ہیں
ان پرندوں کی سی پرواز کہاں سے لاؤں
غزالہ سمیر
ایک ہے نل اور سارا محلہ پیاسا ہے
آپس میں ہے روز لڑائی پانی پر
ارشاد احمد ارشاد دہلوی
پاؤں بچا کر رکھنے سے یہ بہتر تھا
تو رستے سے خار ہٹا کر رکھ دیتا
احتساب انشا
ٹوٹے ہوے دلوں کو غزل میں سجا دیا
شیشہ گری میں چشمہ ہے اس کی ادا بلند
چشمہ فاروقی
کام جب کرنے کا کوٸی قصد فرماتا ہے وہ
صرف کہہ دیتا ہے ہو جا اور ہو جاتا ہے وہ
شارق اعجاز عباسی