ایوان غالب

0
0

ہندوستان میں رومی شناسی سمینار :ایک تجزیاتی جائزہ

کالم نگار:ٹی این بھارتیرابطہ نمبر:8802254915

گزشتہ ایام ایوان غالب میں رومی شناسی عنوان کے تحت منعقد ہ سمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ جہاں کھلے عام معتبر شخصیت مرحوم مولانا جلال الدین رومی ؒ کی مقدس روح کو مجروح کیا گیا۔ ہائے افسوس کہ سمینار میں شرکت کرنے والے مقالہ نگاروں نے مولانا جلال الدین رومیؒ کا مکمل نام بھی اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔ دو روزہ سمینار میں تقریباً بیس پچیس نقل کیے ہوئے نامکمل مقالے پڑھے گئے۔ ستم یہ کہ ماہر زبان فارسی مقالہ نگاروں نے تلفظ کا بھی خیال نہ رکھا۔ فارسی کے مقالہ نگاروں کا انداز بیان فارسی ادب کے لئے نہ صرف نسل نو کی تباہی بلکہ فارسی ادب کے لئے تاریک مستقبل کا ضامن ہے۔ سمینار میں فارسی زبان کی ترقی کے لئے کوئی کام نہیں ہوا۔ ستم ہائے ستم یہ کہ موصولہ دعوت نامے میں 71مقالہ نگار اور دیگر 10افراد کے نام دئے گئے۔ دعوت نامے میں مولانا جلال الدین رومی ؒکا نام نہایت گستاخانہ طریقے سے بطور رومی شناسی شائع کیا گیا، جبکہ سمینار ہال میں چسپاں کئے گئے بینر پر مولوی رومی ظاہر کیا گیا۔ علاوہ ازیں انگریزی میں بھی ریسیپشن آف رومی بھی سراسر توہین آمیز الفاظ میں لکھا گیا۔ صد افسوس کہ مہمان اعزازی کے لیے بھی نا اہل غیر فارسی داں شخص کو مدعو کیا گیا، جبکہ مہمان اعزازی کے لیے ایسے اشخاص کو مقرر کیا جانا چاہیے تھا ، جس نے مولانا مرحوم پر کوئی کارہائے نمایاں انجام دیا ہو، محض دوستی کی بنیاد پر زبانوں کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا ۔ موصولہ اطلاع کے مطابق مرکزی اداروں کی جانب سے بھی مالی امداد لی گئی، جس کے باعث غیر فارسی داں شخصیات کو بام عروج پر پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ لہٰذا اردو دانشوروں نے سمینار میں شرکت سے پرہیز کیا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ مولانا جلال الدین رومی ؒ خالصتاً عشق حقیقی کے علمبردار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خواب میں مرحوم کی اللہ تعالیٰ سے گفت وشنید ہوا کرتی تھی۔مرحوم نے اپنی فارسی شاعری میں عشق الٰہی کا ذکر کیا ہے۔ جابجا مکمل طور پر قرآن وحدیث میں شرابور ہو کر مولانا جلال الدین رومی ؒ کا قلم رواں دواں رہتا۔ مرحوم نے یہاں تک بیان کردیا کہ دنیا کے تمام اشجار کے قلم اور تمام سمندروں کی سیاہی بنا دی جائے ، تب بھی اللہ کی تعریف بیان کرنا مشکل امر ہے۔ اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔ غرض کہ مرحوم کی ہر سانس میں عشق الٰہی کا جنون طاری تھا۔ راقم الحروف کا تعلق بھی فارسی زبان وادب سے ہے۔ طالب علم کے زمانہ میں مولانا روم کے بارے میں جو درس ہم نے پڑھا تھا، اس درس کو سمینار میں پامال کیا گیا۔ کسی بھی مقالہ نگار نے مولانا جلال الدین رومی ؒکا عشق حقیقی کی بات کو بیان نہیں کیا۔ کسی نے مولانا مرحوم کو سنسکرت شلوکوں سے مشابہت کی تو کسی نے اللہ تعالیٰ کو ہی نرگن(جس میں کوئی خوبی نہ ہو۔نعوذ باللہ)تک کہہ ڈالا۔ ہندی کے مشہور پروفیسر نے یہ تک کہہ ڈالا کہ مرحوم مولانا پر کچھ کہنا میری حماقت ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا جلال الدین رومی ؒکے فلسفۂ زندگی کو سمجھنے کے لئے حماقت کرنے والے نہیں بلکہ روشن خیال اور عقل وفہم رکھنے والے نیز لسانی تہذیب وتمدن سے وابستہ اشخاص درکار ہیں۔ آئندہ سمیناروں میں حماقت کرنے والے اشخاص کو جگہ نہ دی جائے۔ مولانا روم کو سنسکرت اپنشدوں سے منسلک کرنا سراسر غلط ہے۔ مولانا جلال الدین رومی ؒ نہایت پاک دامن، قابل احترام ہستی ہے۔ مولانا مرحوم کی ہستی کو دیگر زبانوں میں بیان کرتے وقت مرحوم کے انداز بیان وفکر کے پامال نہ کیا جائے۔ مرحوم کے مکتبۂ فکر کو ہو بہو بیان کیا جائے ، تاکہ فارسی زبان وادب کا تحفظ کیا جاسکے۔
آئیے اب ایک نظر ایوان غالب کی غیر ادبی حرکتوں پر ڈالیں۔ ایوان غالب کی بنیاد خالصتاً ہندوستان کی زبانوں کو تحفظ دینے کے لیے رکھی گئی تھی بالخصوص زبان اردو کی بقا کے لیے اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گزشتہ چند برسوں میں ایوان غالب کب غالب انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوگیا، معلوم ہی نہیںہوا؟ اس بات کا مفہوم سمجھ سے بالاتر ہے کہ مرحوم فخر الدین علی احمد، مرحوم ڈاکٹر ذاکر حسین اور آنجہانی کے خوابوں کو تاریکی کا لباس کیوں پہنادیا گیا؟ فخر الدین علی احمد سابق صدر ہند کو اردو زبان وادب خاص طور پر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ سے بہت رغبت تھی۔ ہائے ستم ظریفی کہ ایوان غالب پر چند مخصوص لوگوں کا قبضہ کیوں ہوگیا؟ ایوان غالب کو موجودہ نوکری پیشہ لوگوں کی ذاتی ملکیت کیوں بنا دیا گیا؟ کیا سبب ہے کہ ایوان غالب کے عہدوں میں تبدیلی نہیں کی جاتی؟ کیا سبب ہے کہ مجرمانہ طریقے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایوان غالب کو اردوزبان وادب کی قتل گاہ بنا دیا گیا ہے؟ کیا سبب ہے کہ ایوان غالب کے مقاصد کے قطع نظر اردو ادب کے نام پر غیر ادبی کارکردگیاں عمل پیرا ہیں۔ کیا سبب ہے کہ سمیناروں کے پس پشت غیر اردو داں حضرات کو ایوان غالب میںپناہ دی جارہی ہے؟ کیا سبب ہے کہ بے روزگار گولڈ میڈلسٹ ، پی ایچ ڈی ہولڈر اسکالرس کو اردو زبان وادب کی ترقی کے لئے موقع فراہم نہیں کیا جارہا ہے؟ ان ناگفتہ بہ حالات میں ضرورت ہے کہ ایوان غالب کی عمارتوں کو غالب سینئر سکنڈری اسکول اور غالب شفاخانہ میں تبدیل کردیا جائے۔ مرکزی حکومت سے حاصل شدہ رقم اقلیتی فرقے اور غریب طالب علموںپر خرچ کی جائے۔ سمیناروں اور مشاعروں پر مکمل طور پر پابندی عائد ہو۔ کیونکہ سمیناروں اور مشاعروں سے کسی بھی زبان وادب کی بقا کے لیے خاطر خواہ کام ناممکن ہے۔ دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک گروپ بنا کر کسی بھی زبان پر قبضہ کرنا نہایت ہی نازیبا امر ہے۔ دور حاضر میں اردو داں حضرات کو جاگنا ہے۔ اردو زبان وادب کو زندہ رکھنے کے لئے تحفظ زبان تحریک پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ شعبۂ اردو، عربی، فارسی کے تمام طالب علموں کے لئے ناچیز کی رائے ہے کہ ہوس وخرم کے ساتھ انقلاب برپا کردیں۔ ایساانقلاب جس سے اردو زبان وادب کو تاقیامت زندہ رکھا جاسکے۔ ایسا انقلاب جس سے نسل نو فائدہ ہو۔ ایسا انقلاب جو بے روزگار، باکمال ریسرچ اسکالر کو معاشی بحران سے آزادی دلاسکے۔ نسل نو کو چاہئے کہ اردو زبان کو دشمنوں کی قید سے آزاد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ایک بامقصد تنظیم کا قیام عمل میں آئے، تاکہ اردو وزبان ادب کے لئے یہ نہ کہا جائے کہ گھوڑے گئے گدھوں کا راج۔کیونکہ ہمیں اردو زبان وادب کے لیے گھوڑے دوڑانے ہیں اور گدھوں کو راستے سے ہٹانا ہے۔٭(کالم نگار کا تعلق باحیثیت سماجی کارکن اور فروغ اردو زبان سے ہے )فوٹو کیپشن
(۱) اسٹیج پر موجود مقالہ نگار (۲) ظہرانہ سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رضا حیدر ودیگر ۳) ظہرانہ کے بعد سمینار ہال سے سامعین ندارد(۴) کالم نگار کی تصویر

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا