سری نگر، //سرحدی حفاظتی فورس (بی ایس ایف) مغربی کمان کے خصوصی ڈائریکٹر جنرل (ایس ڈی جی) یوگیش بہادر کھورانیہ کا لائن آف کنٹرول پر سیکورٹی صورتحال اور آپریشنل تیاریوں کے مقصد کے لئے کیا جانے والا پانچ روزہ دورہ وادی کشمیر اختتام پذیر ہوا۔
بی ایس ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بی ایس ایف کی مغربی کمان کے ایس ڈی جی 18 سے 22 مارچ تک کشمیر فرنٹیئر کے پانچ روزہ دورے پر تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے کا مقصد ایل او سی پر سیکورٹی صورتحال اور آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لینا تھا۔
ان کا بیان میں کہنا تھا: ‘موصوف ایس ڈی جی کے دورے کا آغاز بی ایس ایف کشمیر فرنٹیئر کے آئی جی اشوک یادو کے ایل او سی اور اندورنی علاقوں میں سیکورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ سے ہوا’۔
موصوف ترجمان نے بتایا کہ اس دورے میں فضائی جاسوسی اور دفاعی علاقوں کے ساتھ ساتھ کپوارہ اور سری نگر میں بی ایس ایف سیکٹر ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایس ڈی جی نے ہر مقام پر مقامی بی ایس ایف کمانڈروں اور جوانوں کے ساتھ حفاظتی منظر نامے اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ آپریشنل تیاریوں کے بارے خود بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ مسٹر کھورانیہ نے دورے کے دوران فوج کی 15 ویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی سے بھی ملاقات کی اور بی ایس ایف اور فوج کے درمیان مشترکہ کاوشوں پر تبادلہ خیال کیا اور اس دوران وادی میں امن، خوشحالی اور ترقی کے حصول کے لئے ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا۔
موصوف ترجمان نے کہا کہ ایس ڈی جی نیکمپوزٹ ہسپتال اور ایس ٹی سی بی ایس ایف کمشیر کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے بھرتی ہونے والوں کی جسمانی اور پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت کا جائزہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ دورے کے دوران مسٹر کھورانیہ نے سینئر افسروں ،ماتحت افسروں اور جوانوں کے ساتھ پرہاری سمیلن کے توسط سے بات چیت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران موصوف ایس ڈی جی نے بی ایس ایف اہلکاروں کی اعلیٰ سطح کی پیشہ ورانہ مہارت کی سراہنا کی اور ان کو تاکید کی کہ وہ وادی میں امن خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے انتہائی چوکس رہیں۔
میٹ پیپر: پیپر ماشی دستکاروں سے براہ راست چیزیں خریدنے والی کینیڈا کی تنظیم
سری نگر، 23 مارچ (یو این آئی) وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے پیپر ماشی کے دستکاروں کے لئے راحت اور شادمانی کی بات ہے کیونکہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ایک تنظیم نے ایجنٹوں یا دلالوں کے سسٹم کو ختم کرکے بر آمدات کے حصول کے لئے دستکاروں کے ساتھ براہ راست سلسلہ قائم کیا ہے۔
میٹ پیپر نامی یہ تنظیم کشمیری دستکاروں کی شاندار کاریگری کو بین الاقوامی سامعین کے سامنے لاتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ منافع براہ راست دست کار تک پہنچے۔
مذکورہ تنظیم کے بانیان سنجے سوری، پرتیکشا پاٹھک اور شرون سوری نے حال ہی میں وادی کا دورہ کرکے منافع کی پہلی قسط مقامی دستکاروں میں تقسیم کی۔
ینیڈا کی تنظیم کا یہ اقدام پیپر ماشی کے زوال پذیر آرٹ کے تحفظ کو یقینی بنانے اور دستکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
اپنے دورے کے دوران میٹ پیپر کی یہ ٹیم وادی کے نامور دستکاروں سید اعجاز اور اختر میر سے ملاقی ہوئی۔
صدارتی ایواڑ یافتہ سید اعجاز کو کورونا دور کے دوران سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے نتیجے میں وہ عیال کو پالنے کے لئے پیپر ماشی کے کام سے کنارہ کشی کرکے آٹو رکشا چلانے پر مجبور ہوئے تھے۔اعجاز نے کہا: ‘یہ اس زوال پذیر آرٹ کو بحال کرنے کے لئے میٹ پیپر کا ایک انتہائی اہم اقدام ہے’۔
پیپر ماشی ایک منفرد کشمیری دستکاری ہے جس میں خوبصورت پیپر ماشی کے اشیا کی دلکشی مقامی و غیر مقامی خریداروں کو حیران کرتی ہے تاہم صدیوں پرانی یہ دستکاری بعض وجوہات کی بنا پر روبہ زوال ہے۔
سنجے سوری نے کہا: ‘میٹ پیپر کی یہ پہل اس تفاوت کو دورکرنے کے لئے اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے اوریہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دستکاروں کو ان کے فن کی حقیقی قدر ملے’۔انہوں نے کہا: ‘دورے کے دوران دستکاروں نے اپنے مشکلات ہمارے ساتھ شیئر کئے اور یہ انکشاف کیا کہ کس طرح ان کے ہاتھوں کی بنائی چیزوں کو اچھی قیمتوں پر فروخت کیا گیا لیکن انہیں بہت کم معاوضہ دیا گیا’۔
میٹ پیپر تنظیم کے دوران دستکاروں کو طبی و مالی امداد کے علاوہ دستکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے مزید سپورٹ کرنے پر بات چیت بھی شامل تھی۔
سوری نے کہا کہ میٹ پیپر کشمیری دستکاری اور عالمی منڈی کے درمیان خلیج کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔انہوں نے کہا: ‘میٹ پیپر دستکاروں سے براہ راست خرید کر، بر آمد کا انتظام کرکے اور شپنگ اور فروخت کرنے کے عمل کا انتظام کرکے ایک پائیدار ماحولیاتی نظام پیدا کرتا ہے جس سے دستکاروں ک فائدہ پہنچتا ہے اور ان کی روزی روٹی کو فروغ دیتا ہے’۔
میٹ پیپر کے ایک اور ممبر پرتیکشا پاٹھک نے کہا: ‘اخباروں میں کورونا کے دوران دستکاروں کو پیش آنے والے مشکلات کے بارے میں اخباروں میں خبریں پڑھنے کے بعد ہم نے یہ اقدام شروع کیا’۔انہوں نے کہا: ‘ہمیں اخباروں سے معلوم ہوا کہ قومی و ریاستی ایوارڈ یافتہ دستکاروں کو روزی روٹی کے لئے اپنے پیشے کو خیر باد کہہ کر مزدوری کرنا پڑ رہی ہے، کچھ آٹو رکشا چلا کر عیال کو پال رہے ہیں’۔ نے کہا: ‘ایسے ہی واقعات سے ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی تحریک ملی جس سے ہم دستکاروں سے براہ راست چیزیں خرید سکیں اور ان کو بھر پور معاوضہ دے سکیں’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے یہ مہم چند دستکاروں سے شروع کی اور آگے ہمارا یہ نیٹ ورک مزید وسیع ہوجائے گا۔