"ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے؛الحاج بذل الرحمن صاحب،آپ بہت یاد آئیں گے!

0
0
تحریر:- محمد اطہر القاسمی
جنرل سکریٹری جمعیت علماء ارریہ بہار۔
____________________________________________
             سابق سرپرست و سابق جنرل سکریٹری جمعیت علماء ارریہ بہار و سابق SP Reader جناب الحاج بذل الرحمن صاحب چلہنیاں (ضلع ارریہ بہار ) اب اِس دنیا میں نہیں رہے،وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
انا للہ و انا الیہ رجعون۔
الحاج بذل الرحمن صاحب اپنے زمانے کے اہل اللہ،شب زندہ دار،تہجد گذار،ولی صفت،علماء نواز،مہمان نواز،وسیع الظرف،کشادہ قلب،چھوٹوں پر شفیق،بڑوں کے قدرداں،اصول پسند،وقت کے پابند،انسانیت نواز،اولو العزم،صاحب الرائے،بالغ نظر،وجیہ النظر،دینی حمیت و غیرت کے مجسمہ،اخلاق و مروت کے پیکر،ملنسار،غم گسار،دیانت دار،صاحب کردار اور جمعیت علماء ہند پر مرمٹنے والے اور خانوادہ مدنی پر جان نچھاور کرنے والے،فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی سابق صدر جمعیت علماء ہند کے تربیت یافتہ،قائد جمعیت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت صدر جمعیت علماء ہند کے فیض یافتہ،ریاستی و مرکزی اکابرین جمعیت کے منظور نظر اور ارریہ و سیمانچل  کے ممتاز و منفرد شخص تھے،ان کی زندگی بےشمار خوبیوں کا ایک انجمن تھی،ان کی عمر 70 سال سے متجاوز تھی،وہ برسوں سے متعدد امراض کا شکار تھے،ابھی  سال بھر پہلے پٹنہ سے گھٹنوں کا آپریشن کرواکر لوٹے تھے اور کافی دن بستر پر گذارنے کے بعد ابھی فروری میں دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد جمعیت علماء ہند کے اجلاس عام میں شریک ہوئے تھے،یعنی وہ اب تندرست و توانا ہو کر قوم وملت کے لئے اپنی پرانی دوڑ دھوپ والی زندگی کی پٹری پر رواں دواں تھے اور لگتا تھا کہ ان کا سایۂ عاطفت ہم سبھوں کے سروں پر اب مزید دراز ہوگا لیکن فرمان الٰہی اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(الأعراف:34) آپہنچا اور ایک خوبصورت مثالی زندگی بسر کے خوبصورت موت کے ساتھ ہمیشہ کے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔
حاجی صاحب نے وفات سے قبل آخری رات اپنے ہردالعزیز بھتیجے ماسٹر محمد شاکر عالم صاحب کے دولت کدہ مدنی کالونی زیرومائل ارریہ میں گذاری تھی،فجر بعد دونوں چچا بھتیجے نے چائے پی،پھر حاجی صاحب اپنی نینو پر حسب معمول خود سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنی بیٹی اور اکلوتے بیٹے ظل الرحمن کے گھر پورنیہ پہنچ گئے،دن بھر بیٹی،بیٹا،داماد نواسے نواسی اور پوتے کے ساتھ گذارکر مغرب کی نماز سے قبل اپنے چہیتے چھوٹے بھائی جناب حفظ الرحمن صاحب کے پورنیہ مکان پر تشریف لائے،مکمل انشراح کے ساتھ وہیں مغرب کی نماز ادا کی،بعد نماز بھائی سے کہا کہ حِفظُو ! تسبیح لاؤ،بھائی نے ہاتھ میں تسبیح تھمائی،حاجی صاحب نے معمولات سے فارغ ہوتے ہی کرسی پر بیٹھ کر پلنگ پر پاؤں پھیلادی اور یک لخت نیچے لڑھک گئے،کمرے میں موجود چھوٹے بھائی اور ایک بھتیجے نے دوڑ کر سنبھالنے کی کوشش کی مگر حاجی صاحب کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
دس روز سے احقر کے دونوں جبڑے میں کافی تکلیف تھی،ہلکی پھلکی دوا سے افاقہ نہیں ہوا تو کل شہر کے ڈاکٹر سے دوائی لی تھی،گھر پہنچ کر چھوٹی موٹی ضروریات کی تکمیل کے بعد اس ارادے سے چھت پر چڑھا کہ سکون کے ساتھ لوگوں کے دن بھر آئے ہوئے پوسٹ کے جواب دے لوں،ابھی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ لگا کہ چھت ہل رہی ہے اور دل پر یکلخت گھبراہٹ ہونے لگی،لیکن میں سنبھل کر بیٹھا اور جیب سے فون نکالا ہی تھا کہ خبر آگئی کہ حاجی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔۔۔۔
کچھ لمحے تک تو عقل نے کام ہی کرنا چھوڑ دیا،حاجی صاحب کے گھر سے جن کے فون آتے تھے،سب بلک بلک اور تڑپ تڑپ کر روتے تھے،ایسا لگتا تھا کہ آج بڑے بڑے پہاڑ دل والے لوگ بھی موم بتی بن کر جل جل کر کٹے جارہے ہیں۔پھر ضلعی و ریاستی جمعیت کے رضاکاروں نے ایک ایک کرکے تفصیلات جاننی چاہی اور سب اس رحلت پر ماتم کناں تھے،ضلعی صدر ڈاکٹر عابد حسین پر تو خبر سن کر سکتہ طاری ہوگیا،صدر جمعیت علماء بہار ہم سب کے محسن و مشفق اور حاجی صاحب کے طویل ترین زندگی کے یار و رفیق حضرت مفتی جاوید اقبال صاحب قاسمی دامت برکاتہم کل مغرب سے اب تک لگاتار فون کررہے ہیں اور پل پل کی معلومات حاصل کرکے جنازہ میں شرکت کی تیاری کررہے ہیں،یہ سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہا،پھر کچھ شعور مجتمع ہوا اور بےچین دل اور آنسوؤں سے تر آنکھوں پر قابو پاکر حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ کی کچھ یادیں کچھ باتیں دل و دماغ کو جھنجوڑنے لگیں تو تسلی کے لئے انہیں لکھنے بیٹھ گیا،رات کے پونے دو بج گئے،آنکھ لگ گئی اور سلسلہ رک گیا۔علی الصباح حاجی صاحب کی آخری دیدار کے لئے چلہنیاں حاضری ہوئی اور پھر کچھ باتیں ان کی مدنی لائبریری جو ان کی آرام گاہ بھی تھی،اشکبار آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے وہیں بیٹھ کر تحریر کرنے کی کوشش کی ہے۔
حاجی صاحب اپنے زمانے کے منفرد و مثالی شخصیت تھے،وہ ملت اسلامیہ پر اپنی جان فدا کردینے والے ملت کے ممتاز لوگوں میں سے ایک تھے،ان کی زندگی جمعیت علماء ہند کی تحریک اور مشن کے ارد گرد گھومتی رہتی تھی،وہ ضلع ارریہ ہی نہیں بلکہ ریاست بہار اور ملک کے ان مخلصین خدامِ جمعیت میں سے ایک تھے،جنہوں نے جمعیت کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت تک جمعیت پر فدا رہے۔
جمعیت سے یہ والہانہ محبت و شیفتگی انہیں یوں ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ سابق صدر جمعیت علماء ہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دست حق پرست پر بیعت کا یہ روحانی فیض تھا،وہ حضرت فدائے ملت علیہ الرحمہ کے مرید کیا ہوئے کہ پوری زندگی ان کے نقش قدم پر پر گذار دی،ان کے سامنے حضرت فدائے ملت علیہ الرحمہ کا نام نامی آتا تھا تو عقیدت و احترام میں ان کی نظریں فوراً جھک جاتیں،وہ جب کبھی اپنی زبان سے حضرت فدائے ملت کے الفاظ بولتے تو چہرہ کھل جاتا اور مسکراہٹیں اپنی شباب پر آجاتیں۔
حضرت فدائے ملت نور اللہ مرقدہ کی وفات کے بعد جانشین فدائے ملت صدر محترم حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم سے بیعت و سلوک کا رشتہ قائم کیا اور یہاں بھی وہ اسی طرز پر گامزن رہے،وہ حضرت قائد جمعیت کا بھی نام لیتے تو اپنی آواز دھیمی کرلیتے اور ادب واحترام کی انتہاء کے ساتھ ان کی کسی ہدایت یا حکم کو نقل کرتے اور اس کی تکمیل کے لئے وہ دیوانہ وار میدان عمل میں کھڑے ہوجاتے۔
2017 میں بھیانک سیلاب آیا جس سے ارریہ اور سیمانچل میں بدترین تباہیاں ہوئیں تھیں،جس دن شہر ارریہ میں سیلاب کا پانی آیا اور ہر طرف ہاہاکار مچنے لگا تو اگلے دن عین مغرب کے وقت الحاج بذل الرحمن صاحب نور اللہ مرقدہ اپنے گھر چلہنیاں سے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ارریہ پہنچ گئے،میں بھی ناظم عمومی حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے حکم پر ارریہ پہنچ چکا تھا اور جمعیت علماء ہند کے آرگنائزر مولانا نوشاد احمد قاسمی بھی دہلی سے ارریہ پہنچ چکے تھے،ضلعی صدر ڈاکٹر عابد حسین بھی موجود تھے۔
حاجی صاحب کہنے لگے کہ مجھے جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم نے فون کرکے کہا کہ بذل الرحمن! ارریہ ڈوب رہا ہے تم گھر پر آرام کررہے ہو؟حاجی صاحب کہنے لگے کہ حضرت کے حکم کے بعد گھر پر ٹھہرنا ممکن نہیں تھا،میں حاضر ہوں اور اب متاثرین کی راحت رسانی کا کام شروع کردیا جائے اور پھر بڑھاپا اور بیماری کے ساتھ لگاتار وہ تین ماہ تک جمعیت علماء ارریہ کی راحت رسانی کی ٹیم کی سرپرستی فرماتے رہے،اس درمیان ان کی صبح چلہنیاں،شام ارریہ اور دن متاثرین کے درمیان گذرتی تھی۔
جمعیت علماء ارریہ کے وہ بنیادی پتھر تھے،وہ جمعیت علماء ارریہ کے برسہا برس جنرل سکریٹری تھے،معروف اہل فکر و نظر جناب ماسٹر قمر مسعود صاحب جو ضلعی صدر تھے،ان کے ساتھ انہوں نے جمعیت پر تب محنتیں کیں جب یہاں ارریہ میں خال خال لوگ ہی جمعیت سے متعارف تھے،اراکین کی تعداد بھی بہت مختصر تھی،وہ بحیثیت جنرل سکریٹری اتنے حساس تھے کہ اپنے ساتھ ساتھی کی طرح رہنے والے جھولے میں وہ جمعیت علماء ارریہ کا لیٹر پیڈ اور مہر لازمی طور پر رکھتے تھے کہ مبادا کسی ضرورت مند کی تکمیل ضرورت میں دشواری نہ ہو،وہ SP Reader کی حیثیت سے سرکاری ملازمت کررہے تھے اس کے باوجود وہ اہل اللہ اور اور اکابرین کے وضع قطع کے خوبصورت نمونہ تھے،بزرگوں کے ہاتھوں کی زینت عصاء ان کے ساتھ ان کا معاون بن کر رہتا تھا،سفر در سفر کے لئے وہ ہمیشہ زادِ سفر ساتھ رکھتے تھے،اکثر کسی بچے کو اپنے ہمراہ رکھتے تاکہ وہ دیکھ بھال کرسکے،جو بچہ ان کے ہمراہ ہوتا ان کا وہ حد درجہ خیال رکھتے،اسے سیب بسکٹ وغیرہ کھلاتے رہتے،وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے ذریعے اس بچے کی کفالت ہوجائے،جمعیت علماء ارریہ کی جب جس عنوان پر میٹنگ ہوتی وہ بڑھاپے میں بھی تمام نوجوان شرکاء سے پہلے حاضر ہوتے،وقت اور ٹائم ٹیبل کا حال یہ تھا کہ کبھی کسی میٹنگ میں انہوں نے دس منٹ تک کی بھی تاخیر نہیں کی،آپسی مشاورت سے جو تجاویز منظور ہوجاتیں ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی طرف سے وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے،ان کے متعلقین رشتے دار اعزہ و اقارب اور دوست و احباب میں سے کسی کو کچھ ہوجاتا تو سارا نظام کینسل کرکے عیادت کے لئے نکل پڑتے،چلہنیاں،قرب و جوار اور ارریہ پورنیہ کے چھوٹے بڑے رشتے دار میں سے کسی کی وفات کی اطلاع مل جاتی تو ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے نکلنے والوں میں وہ سب سے آگے ہوتے،ان کی زندگی منظم،مرتب اور بااصول تھی،اس میں وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے،ان کا پریشر ہمیشہ بڑھا رہتا تھا،جاڑے کے زمانے میں اس میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا،میں کبھی کہتا کہ اتنے پریشر کو آپ کیسے جھیل لیتے ہیں؟تو بڑے فخریہ انداز میں کہتے کہ مفتی صاحب!ہم خانوادہ مدنی سے نسبت رکھنے والے آدمی ہیں،ان کے آباء واجداد کے رگ و ریشے میں جہادِ حریت کا خون دوڑتا تھا تو ان کے منتسبین کا پریشر لو(Low) کیسے ہو سکتا ہے۔وہ مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ مفتی صاحب! زندہ دل انسان کا خون اکثر گرم رہتا ہے اور جس کا خون ہمیشہ یا اکثر ٹھنڈا رہے گا وہ قوم وملت کی خدمت کے لئے کچھ نہیں کر سکتا ہے۔
وہ شب بیدار،عبادت گذار،تہجد گذار اور اپنے وظائف و معمولات کے سخت پابند تھے،اذان فجر سے کافی پہلے بیدار ہوجانا اور رب کے حضور سجدہ ریز ہوجانا ان کی زندگی کا خاصہ تھا،وہ پختہ دل،پختہ ارادہ اور مضبوط عزائم سے مالامال ایسے شخص تھے جنہوں نے کبھی اپنے ارادے سے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔وہ جمعیت علماء ارریہ کے ساتھ دیگر تمام ملی جماعتوں کے بھی بہی خواہ تھی اور ان کی صدا کر ہمیشہ لببک کہتے تھے،
گاؤں سماج کے مسائل کے حل کرنے والوں میں بھی حاجی صاحب اپنا نمایاں مقام رکھتے تھے،وہ نزاعات کو سلجھانے میں دونوں فریقین کو آمادہ کرلینے میں بے مثال تھے،آپسی رنجش کو بھلا کر مصالحت کے لئے کامیاب کوششیں کرنا ان کی زندگی کی ترجیحات میں شامل تھیں۔علماء نوازی اور مہمان نوازی ان کی زندگی کا خوبصورت باب تھا،علاقے کے تمام معتبر علماء کرام اور مدارس اسلامیہ سے ان کے گہرے مراسم تھے،وہ جس عالم دین سے ملتے ٹوٹ کر ملتے،چند لمحے کی گفتگو میں وہ اپنی شیریں کلامی سے ان کا دل موہ لینے کا ہنر جانتے تھے،چھوٹا سے چھوٹا شخص بھی اگر کسی کار خیر انجام دے دیتا تو ان کی دل کھول کر حوصلہ افزائی فرماتے تھے،اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی چھوٹی سے چھوٹی تقریب میں شرکت کرتے اور ماشاءاللہ،الحمد للہ،بارک اللہ جیسے کلمات سے انہیں خوب دعائیں دیتے۔
میرے ساتھ ان کے 20 سالہ تعلقات تھے،انہوں نے ضلع میں میرا تب تعارف کرایا جب لوگ مجھے جانتے پہچانتے تک نہیں تھے،مجھے جمعیت میں انہوں نے ہی لایا،اور لایا تو ایسا لایا کہ میرے دل و دماغ اور فکر ونظر میں جمعیت کو ایسا پیوست کردیا کہ اب جمعیت میرے دل و دماغ سے میری موت کے ساتھ ہی رخصت ہوسکتی ہے،وہ ہمیشہ میری تربیت کرتے رہتے تھے اور اب دوچار سالوں سے ہمیشہ کہتے تھے کہ مفتی صاحب ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوم وملت کی خدمت کے لئے قبول کرلیا ہے،یہ محض اس کی توفیق و عنایت ہے،وہ آپ سے کام لے رہا ہے،یہ بہت بڑی بات ہے،پھر وہ دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ میری ہر لمحہ یہی دعاء ہے کہ آپ صحیح سلامت رہیں اور ہر بیماری و شرور و فتن سے محفوظ رہیں،وہ پرسنل پر ہمیشہ لکھا کرتے کہ صحت کا خیال رکھیں گے،بلاشبہ آج جمعیت کے حوالے سے میں جو کچھ ہوں،اس کے پیچھے حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ کی تربیت،حوصلہ افزائی اور دعائیں  کارفرما ہیں۔
وہ مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرتے تھے،ہمیشہ اپنے گاؤں چلہنیاں بلاتے کہ مفتی صاحب ! یہاں نوجوان آپ کو سننا چاہتے ہیں،کافی دن ہوگئے ہیں،آپ کو فلاں پروگرام یا فلاں جمعہ کو آنا ہوگا اور تب میں بھی ساری مصروفیات ترک کرکے لبیک کہہ دیا کرتا تھا۔2018 کی ابتداء میں جب مجھے مہلک مرض نے گرفتار کرلیا تو سابق صدر جمعیت علماء بہار حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنی معیت میں پٹنہ میں سارا چیک اپ کروایا اور ہم ایک ماہ کی مہلت لےکر گھر کیا آئے کہ مرض بڑھ گیا،حاجی صاحب مجھے پورنیہ لےکر ڈاکٹر سہیل احمد صاحب کے پاس پہنچ گئے اور جم کر میرا تعارف کراتے ہوئے آپریشن کی درخواست کی،ڈاکٹر صاحب بشاشت سے تیار ہوگئے اور کٹیہار میڈیکل کالج میں چہرے کے ٹیومر کا آپریشن ہوا،لیکن اللہ کی مرضی کہ آدھے گھنٹے کے آپریشن میں آٹھ گھنٹے لگ گئے اور اس آٹھ گھنٹے میں میرے برادر بزرگ حضرت مولانا خورشید انور صاحب نعمانی کے ساتھ اوٹی کے باہر حاجی صاحب مسلسل اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعائیں مانگتے رہے۔چب آپریشن روم سے صحیح سلامت واپسی ہوئی تو انہیں تسلی ہوئی۔
ابھی چھ ماہ قبل اکلوتے بیٹے حافظ ابوذر غفاری سلمہ اچانک سخت بیمار پڑگئے تو حاجی صاحب علالت کے باوجود چلہنیاں سے پورنیہ تشریف لے آئے اور بابو کو اپنی نینو میں بٹھاکر شدید بارش میں سارا چیک اپ کروایا اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوگئے وہ دعائیں کرتے رہے۔
وہ برسہا برس سے دیوبند میں حضرت فدائے ملت،بعدہ قائد جمعیت کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے،اس سلسلے میں وہ صدر جمعیت علماء بہار حضرت مفتی جاوید اقبال صاحب قاسمی دامت برکاتہم سے ہمیشہ رابطے میں رہتے،جمعیت علماء بہار کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا محمد ناظم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے لئے بڑی دعائیں کرتے اور کہتے کہ سابق صدر جمعیت علماء بہار کے سچے جانشین وہی ہیں۔مرکزی جمعیت علماء کے اکابرین،صدر محترم حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی اور ناظم عمومی حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے ساتھ پوری جمعیت سے وہ مربوط تھے،اسی لئے وہ ریاستی پروگرام کے ساتھ مرکزی جمعیت کے اجلاسوں میں بھی ہمیشہ شرکت کرنے کو اپنی ذمےدارای سمجھتے تھے۔تین سال سے جمعیت علماء ارریہ نے ضلع بھر میں نشہ اور مروجہ جہیز کے خلاف جو تحریک چلا رکھی ہے،اس کی کامیابی کے لئے وہ ہمیشہ کبھی یہ گاؤں کبھی وہ قریہ جاتے رہتے تھے،اور خود اپنے اکلوتے بیٹے کا نکاح تقریباً دس سال قبل مرکزی جامع مسجد شہر ارریہ میں نمازِ جمعہ کے بعد کروائی تھی اور نکاح امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نور اللہ مرقدہ نے پڑھائی جبکہ جہیز مخالف ایک اجلاس میں احقر نے لڑکوں سے بغیر مانگ مطالبے کے نکاح کا معاہدہ کروایا تو سامعین میں موجود ککوڑا کے ایک نوجوان ڈاکٹر محمد صادق صاحب نے بھی ہاتھ اٹھایا اور کچھ ہی وقفے بعد وہ حاجی صاحب کے داماد بن گئے اور لڑکے اور حاجی صاحب دونوں نے احقر کو بلایا کہ ایک ایک عہد پورا ہورہاہے،آپ  چلہنیاں آکر نکاح پڑھادیں۔
الحاصل الحاج بذل الرحمن صاحب نور اللہ مرقدہ صدیوں میں پیدا ہونے والی ایک عبقری شخصیت تھے،ان کی زندگی کے اوصاف وکمالات پوری ملت اسلامیہ کے لئے مشعلِ راہ ہیں اور جمعیت علماء ارریہ کے ایک ایک رضاکار کے لئے جہد مسلسل سے عبارت ان کی زندگی ایک آئیڈیل اور نمونہ ہے۔
خداوند عالم انہیں معاف فرمائے،سیآت کو حسنات سے مبدل فرمائے،قوم و ملت کے لئے ان کی بےپناہ قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطافرمائے،جمعیت علماء ارریہ کو ان کا نعم البدل اور ان کے اکلوتے بیٹے،چاروں بیٹیاں،اہلیہ  اور تمام رشتے دار و متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے!
مصیبت کی اس گھڑی میں جمعیت علماء ارریہ،جمعیت علماء بہار اور جمعیت علماء ہند کے جملہ خدام و اراکین حاجی صاحب کے ورثاء کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا