اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)ایمان لانے کی دعوت!

0
0

۰۰۰
ریاض فردوسی۔
9968012976
۰۰۰
حضور اکرم ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہونچے تو وہاں آپ ﷺ نے دو قوموں کو پایا، ایک یہود اور دوسرا نصاریٰ۔ اللہ تعالی نے ان دونوں قوموں کو اہل کتاب کہہ کر خطاب کیا ہے۔ یہود پیغمبر یعقوب علیہ السلام جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے انکی اولاد ہیں، اس لیے انھیں قرآن مجید میں بنی اسرائیل بھی کہا گیا ہے۔ یہ قوم اللہ تعالی پر، آخرت پر اور تمام رسولوں پر بجز پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ ﷺ ایمان رکھتی ہے۔عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہی قوم میں سے تھے اور انہی کے طرف ا نکو رسول بناکر بھیجا گیا لیکن اس کے باوجود یہودیوں نے ان کو اپنا رسول تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔عیسائیوں کی کتاب انجیل میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ انہیں اسرائیل کے کھوئے ہوئے بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا۔قرآن مجید میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ انہیں بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا۔ ٹھیک اسی طرح قوم نصاریٰ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر اللہ تعالی کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتی ہے۔عہد نامہ کی کتاب ڈیوٹرانمی میں ایک ایسی عبارت موجود ہے ،جس میں محمد رسول اللہﷺ کی آمد کی بشارت موجود ہے۔اس عبارت میں پیغمبر موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل سے مخاطب ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ میرے بعد ٹھیک میرے ہی جیسا ایک پیغمبر آئے گا۔ اسی طرح یوحنا کی انجیل میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک اور پیغمبر آئے گا۔قرآن مجید میں بھی عیسیٰ علیہ السلام نے محمد رسول اللہﷺ کے آنے کی خوشخبری دی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزول سے پہلے ہی اللہ تعالی نے اہل کتاب کو انہیں کی کتابوں میں محمد رسول اللہﷺ کے آنے کی خوشخبری دی تاکہ جب وہ آ جائیں تو ان پر بھی ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالی نے جتنے بھی رسولوں کو ان کی قوموں میں بھیجا سب کے سب رسولوں نے اپنے اپنے قوم کو خاص کر تین باتوں کی دعوت دی۔
اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان لانا،رسولوں کی رسالت پر ایمان لانا اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا۔
قوم میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے اللہ تعالی نے انہیں ہلاک کر دیا اور جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ تعالی کے عذاب سے بچ گئے۔مدینہ منورہ میں اہل کتاب میں سے جو لوگ عیسائی تھے ان کا اللہ تعالی کے متعلق عقائد مشرکانہ تھا،ان لوگوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو رسالت کے منصب سے ہٹا کر الوہیت کے منصب پر فائز کر رکھا تھا۔وہ عیسیٰ علیہ السلام کو ہی اللہ سمجھتے تھے،وہ انہیں اللہ کا بیٹا کہتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ خدا تین ہیں۔اللہ،عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس یا ماں مریم۔اللہ تعالی نے حضور ﷺ کے ذریعہ سے عیسائیوں کی اس جاہل اور غلط عقیدہ کی تصحیح فرمائی اور تنبیہ کی! اے اہل کتاب اپنے دین کی بات میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ خدا کے رسول اور کا کلمۂ بشارت تھے، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اوراس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔اس اعتقاد سے باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو۔جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔اور خدا ہی کارساز کافی ہے(سورۃ النسائ۔آیت نمبر۔ 171)
قرآن مجید کی دوسری سورہ المائدۃ،آیت نمبر 72 اور 73 میں اللہ تعالی عیسائیوں سے فرمایا کہ مسیح علیہ السلام جو مریم کے بیٹے ہیں ان کو اللہ کہنا اور یہ بھی کہنا کہ اللہ تعالی تین معبودوں میں سے تیسرا معبود ہے کفریہ کلمہ ہے۔ایسے اقوال اور عقائد سے اجتناب ضروری ہے۔اس کے بعد اللہ تعالی مسیحیوں کو عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیلیوں سے یہ فرمایا تھا کہ اللہ ہی میرا رب اور تمہارا رب ہے اور اسی کی بندگی کرو۔اس کے بعد فرماتا ہے کہ جو شخص خدا کے ساتھ شرک کرے گا،خدا اس پر بہشت حرام کر دے گا اور وہ تکلیف دینے والا عذاب پائے گا۔
جب فخر بنی آدم ﷺ نے بنی اسرائیلیوں کو دین کی دعوت دینی شروع کی تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے ان بنی اسرائیلیوں کو اللہ تعالی کے احسانات اور انعامات یاد دلائے، جسے اللہ تعالی نے ان کے باپ دادا پر کیا تھا ،مثلاً بنی اسرائیلیوں کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلانا،چٹان سے نہروں کو جاری کرنا،من وسلوی اتارنا، انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا،ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ۔سورہ القصص آیت ۔5 اور 6 میں اللہ تعالی بنی اسرائیلیوں پر احسان کرنے کے ارادہ کو بیان فرمایا!اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں اور اُن کو پیشوا بنائیں اور انہیں (ملک کا) وارث کریں،اور ملک میں ان کو قدرت دیں اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو وہ چیزیں دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے۔اس کے بعد اللہ نے مدینہ منورہ کے یہودیوں سے فرمایا کہ تم میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا تاکہ میں اپنے وعدوں کو پور کروں گا۔بنی اسرائیلیوں سے جو عہد لیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ جب محمد ﷺ تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ کی ذات پر ایمان لانا۔وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہوجائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے ، یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے زکوٰۃ دیتے رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا (المائدہ،آیت نمبر 12) اللہ تعالی بنی اسرائیلیوں کو قرآن مجید پر بھی ایمان لانے کی دعوت دی جو ان کی کتاب تورات کو تصدیق کرتا ہے ،جس میں آخری نبی ﷺ کی بعثت اور اس بعثت کی صفتیں موجود ہے۔قرآن مجید پر ایمان لانے سے حضور ﷺ پر بھی ایمان لانا ثابت ہوگیا کیونکہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور جس شخصیت پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس پر ایمان نہیں لانا قرآن مجید پر ایمان نہیں لانے کی مترادف ہوگی۔
پھر فرمایا چونکہ یہ کتاب تمہارے پاس جو الہامی کتاب موجود ہے اس کی تصدیق کرتا ہے اس لیے تمہیں قرآن مجید اور صاحب قرآن کا انکار کرنے والوں میں پہل نہیں کرنا چاہیے(وَلَا تَکُونُوآ اَوَّلَ کَافِر بِہ) بلکہ دونوں پر ایمان لانے میں سبقت حاصل کرنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ بھی تم لوگوں کو دیکھ کر اللہ کے رسول اور قرآن حکیم پر ایمان لائے(سورہ البقرہ،آیت۔41)
جب کبھی یہودیوں اور عرب کے مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تو یہود ی کہا کرتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالی کے ایک عظیم الشان پیغمبر تشریف لانے والے ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف ایسی جنگ کریں گے کہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا۔وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے کہ اے اللہ تو اس نبی کو جلد بھیج جس کی صفتیں ہم توراۃ میں پڑھتے ہیں تاکہ ہم ان پر ایمان لائیں۔لیکن جس وقت حضور مبعوث ہوئے تمام نشانیاں آپ میں دیکھ لیں، پہچان بھی لیا جیسا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے (جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے بالکل ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسا وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور واقعتاً ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یقیناً حق کو چھپاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں۔سورہ۔البقرہ۔آیت۔146۔پارہ۔2)
دل سے قائل بھی ہوگئے،مگر چونکہ آپﷺ عربی النسل میں سے تھے،اس لیے حسد کیا اور آپﷺ کی نبوت کا انکار کردیا۔ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت بشر بن براء رضی اللہ عنہ اور حضرت داؤد بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان یہود مدینہ سے کہا بھی کہ تم تو ہمارے شرک کی حالت میں ہم سے حضورﷺ کی نبوت کا ذکر کیا کرتے تھے اور اب جب کہ وہ عام اوصاف جو تم حضرت ﷺ کے بیان کرتے تھے وہ تمام اوصاف آپ ﷺ میں ہیں پھر تم خود ایمان کیوں نہیں لاتے؟
تو سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ ہم ان کے بارے میں نہیں کہتے تھے۔خلاصہ یہ ہے کہ یہود مدینہ پہلے تو مانتے تھے منتظر بھی تھے لیکن آپ ﷺ کے آنے کے بعد حسد اور تکبر سے اپنی ریاست کے کھوئے جانے کے ڈر سے صاف انکار کر بیٹھے۔
اللہ تعالی قرآن مجید کے مختلف مقامات میں مختلف اسلوب سے اہل کتاب کو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ایک جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اگر وہ تم سے اس بارے میں جھگڑتے ہیں رہیں تو تم ان سے کہہ دو کہ میں نے اور میرے پیروکاروں نے تو اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کیا اور اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کہ کیا تم بھی اسی طرح اسلام لاتے ہو؟اگر وہ بھی اسی طرح اسلام لائے تو وہ رکا میاب ہوئے اور اگر وہ اعراض کریں تو تمہارے اوپر ذمہ داری صرف پہنچا دینے کی ہے،اللہ اپنے بندوں کا نگران حال ہے(سورۃ آل عمران،آیت نمبر۔20)کتاب اللہ ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ دونوں سے توحید پر ایمان لانے سے متعلق حضور ﷺ سے فرمایا:کہہ دو،اے اہل کتاب اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب ٹھہرائے۔اگر وہ اس چیز سے اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں(سورہ۔آل عمران،آیت۔64)
اللہ تعالی اہل کتاب کو ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے اے اہلِ کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم گواہ ہو (سورۃ آل عمران، آیت۔70)پھر آگے فرماتا ہے کہو کہ اہلِ کتاب! تم خدا کی آیتوں سے کیوں کفر کرتے ہو اور خدا تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے(سورۃ آل عمران،آیت۔98)اہل کتاب کو رسول اللہ ﷺکی حقانیت کا یقینی علم تھا،اگلے انبیاء اور رسولوں کی پیش گوئیاں اور ان کی بشارتیں ان کے پاس موجود تھیں،پھر بھی اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے اور دوسرے لوگوں کو بھی پورے زور سے اسلام سے روکتے تھے۔ اللہ تعالی یہود مدینہ کو کو یاددہانی کرا رہا ہے کہ ماضی میں بنی اسرائیل سے نماز کے اہتمام،زکوۃ کی ادائیگی، آئندہ آنے والے رسولوں پر ایمان اور ان کی تائید اور خدا کی راہ میں انفاق کا عہد لیا گیا تھا اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی معیت،ان کی عام لغزشوں سے درگزر اور ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا۔اس میثاق میں اہم بات نبی کریمﷺ پر ایمان لائے کی بات تھی ،جن کا ذکر توراۃ میں نہایت نمایاں علامات کے ساتھ ہوا ہے۔اس کے بعد فرمایا اگر کسی نے اس معاہدے سے انحراف اختیار کیا تو وہ خدا کی شاہراہ سے بھٹک گیا۔(سورۃ المائدۃ،آیت۔12)
آگے پھر اللہ تعالی اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے فرمایا کہ دیکھو تمہارے پاس ہمارا رسول پہونچ چکا ہے جو تم پر ظاہر کرتا ہے بہت سی چیزیں جن کو تم کتاب میں چھپاتے تھے اور درگزر کرتا ہے بہت سی چیزوں سے۔ بیشک تمہارے پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور ایک واضح کرنیوالی کتاب (سورۃ المائدۃ،آیت۔15) اب اس کتاب اور اس رسول کے بعد کوئی عذر باقی نہیں رہا۔بس اب تمہیں چاہیے کہ اس کتاب اور صاحب کتاب پر ایمان لاو۔آگے سورۃ المائدۃ آیت 19 میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو مخاطب کرکے اللہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایک طویل زمانہ کے بعد تمہارے پاس محمد مصطفی ﷺ کو رسول بناکر بھیجا گیا ہے۔یہ ایک عظیم نعمت ہے کیونکہ مدت دراز سے رسولوں کے بعثت کا یہ سلسلہ بند تھا،اب یہ تمہارے لیے پھرسے کھولا گیا ہے۔یہ آخری موقع ہے اس لیے اس موقع کو غنیمت سمجھو اور آخری رسول پر ایمان لے آو۔کل یہ نہ کہنا کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا اور خوشخبری سنانے والا نہیں آیا۔ہم نے تمہارے لئے کوئی عذر یا کوئی حجت نہیں چھوڑا،ہم نے ایک نزیر و بشیر بھیج دیا۔اب اس اتمام حجت کے بعد بھی تم نے اپنی روش نہ بدلی تو جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔وہ اس بات پر قادر ہے کہ اس رسول پر ایمان لانے والوں کو ثواب دے اور کفر کرنے والوں کو عذاب دے۔
اس وعظ اور نصیحت کا اہل کتاب پر کوئی اثر نہ ہوا اور ایمان لانے کے بجائے وہ لوگ دین اسلام کا ہنسی اور مذاق اڑانے لگے۔اس پر اللہ تعالی نے فرمایا:ان سے کہو کہ اے اہل کتاب،تم ہم پر بس اس بات کا غصہ نکال رہے ہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، اور اس چیز پر جو ہماری طرف بھیجی گئی اور اس چیز پر جو پہلے اتاری گئی اور تم میں اکثر نافرمان ہیں (سورہ المائدۃ، آیت۔59)اللہ تعالی اہل کتاب کو ایمان کی ترغیب دلانے کے لیے ان سے وعدہ فرمایا کہ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم دور کردیتے ان سے ان کی برائیاں اور ان کو داخل کرتے نعمت کے باغوں میں (سورۃ المائدۃ آیت۔65)
پھر فرمایا اور اگر وہ قائم رکھتے توریت اور انجیل کو اور اس کو جو کہ نازل ہوا ان پر ان کے رب کی طرف سے تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کچھ لوگ ہیں ان میں سیدھی راہ پر اور بہت سے ان میں برے کام کر رہے ہیں(سورہ المائدۃ۔آیت۔66)
لیکن اہل کتاب نے آخرت کی نعمتوں اور دنیاوی برکات، راحت و آرام سے زیادہ اپنی سیادت و قیادت کو ترجیح دی۔اہل کتاب سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے یہ دعوت قبول کرلی تو وہ سیادت و قیادت سے محروم ہوجائیں گے۔ان کو خطرہ یہ تھا کہ اگر ہم محمد ﷺ پر ایمان لائے گے تو ہماری چودھراہٹ ختم ہو جائے گی اور ہمیں دینی پیشوا ہونے سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔اسی وجہ سے ان میں سے تھوڑے لوگ ایمان لائے اور اکثریت کفر پر جمے رہے۔
اتنا ہی پر ان اہل کتاب خاص کر یہودیوں نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ وہ حضور ﷺ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں اور سازشیں کرنے لگے،ان ہی میں سے بعض لوگ دن میں ایمان لاتے اور شام ہوتے ہی ایمان سے پھر جاتے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان سے مرعوب ہوکر دین اسلام سے پھر جائے۔آپ ﷺ نے مدینہ آنے کے بعد یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا (جس کا ذکر سیرت ابن ہشام میں ہے) لیکن یہودیوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔اوس اور خزرج کے مابین پھوٹ ڈالنے کے لیے جنگ بعاث کے تزکرہ چھیڑتے تاکہ وہ آپس میں لڑ جائیں اور نئے سرے سے دشمنی پیدا ہو جائے۔قریش مکہ کو حضور ﷺ کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب بھی دی اور تعاون کرنے کا وعدہ بھی کیا،آپ ﷺ کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔جب یہودیوں کی سرکشی اور معاندت حد سے تجاوز کر گئی تو اللہ تعالی نے یہودیوں کو ماضی کے دو بڑے واقعات یاد دلا ئے،جب بنی اسرائیلیوں کو ان کے بداعمالیوں کے سبب پہلے بخت نصر اور بعد میں رومن جنرل ٹائٹس نے ہلاک کر ڈالا،بہتوں کو ان کے ملک سے نکال دیا،ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا۔
اس یاد دہانی کے بعد فرمایا وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا یعنی اگر تم پھر نافرمانی اور سرکشی کی طرف لوٹو گے تو ہم پھر اس طرح کی سزائے و عذاب تم پر لوٹا دیں گے۔
یہ ضابطہ قیامت تک کے لئے ارشاد ہوا ہے اور اس کے مخاطب وہ بنی اسرائیل تھے جو رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں موجود تھے،جس میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ جس طرح پہلے شریعت موسوی کی مخالفت سے اور دوسری مرتبہ شریعت عیسوی کی مخالفت سے تم لوگ سزا و عذاب میں گرفتار ہوئے تھے اب تیسرا دور شریعت محمدی ﷺ کا ہے جو قیامت تک چلے گا اس کی مخالفت کرنے کا بھی وہی انجام ہوگا۔اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ جب کسی قوم میں اپنے رسول کو بھیجتا ہے، تو اس قوم کو ایک مدت معین تک مہلت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایمان لے آئے،پھر جب وہ مدت گزر جاتی ہے تب اللہ تعالی اس قوم پر عذاب نازل کرتا ہے۔ اس کی تائید میں سورہ ہود آیت 36 میں اللہ تعالی قوم نوح کے متعلق فرمایا:(ترجمہ:اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ان کے سوا کوئی اور ایمان نہیں لائے گا تو جو کام یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے غم نہ کھاؤ)یہود مدینہ اتنے ضدی اور ہٹ دھرم تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ڈرانے،دھمکی اور تنبیہ کے باوجود آپ ﷺ پر ایمان نہیں لایئں،بالآخر اہل کتاب کے متعلق اللہ تعالی نے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا:ان اہل کتاب سے جو نہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے،نہ اللہ اور اس کے رسول کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے اور نہ دین حق کی پیروی کرتے،جنگ کرو تاآنکہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں (سورۃ التوبۃ،آیت۔29)یہ حکم مدینہ منورہ کے یہودیوں کے متعلق تھا۔قرآن مجید کے تین مقامات میں اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے عام یہودیوں کے تعلق سے تین پیشین گوئیاں کی ہے۔ سورہ الاعراف، آیت نمبر 167 میں اللہ نے فرمایا: اور یاد کرو جب تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ وہ روز قیامت تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو نہایت برے عذاب چکھاتے رہیں گے بیشک تیرا رب جلد پاداش دینے والا اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔دوسری پیشنگوئی یہ ہے کہ نصاریٰ اپنے باطل عقائد کے باوجود بھی یہودیوں پر جو عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور رسالت کے منکر ہیں ہمیشہ غالب رہے گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا