سید زاہد
بدھل ، راجوری
بدھل ایک خوبصورت وادی ہے جو جموں و کشمیر کے خطہ پیر پنچال کے پہاڑوں کہ درمیان واقع ہے۔ضلع راجوری کے تحت اس علاقے کا جغرافیہ پرکشش ہے۔جوبرفانی چوٹیوں، گھنے جنگلات ندیوں جھیلوں گھاس کے میدانوں اور چرگاہوں پر مشتمل ہے ۔لیکن قدرت کی بے شمارنعمت کے باوجود بدھل ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں کی عوام آج بھی اپنی شناخت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔وہ شناخت جو بقول عوام، ان سے چھین لی گئی ہے۔مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اگربدھل کو پھر سے تحصیل کا درجہ مل جائے تو نہ صرف علاقے کی بلکہ یہاں کے لوگوں کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بدھل کا نام اس کے حکمران بدپال کے نام سے رکھا گیا۔ جو 11ویں صدی عیسوی میں نیپال سے یہاں آئے تھے اور اس علاقہ پر حکومت کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اس علاقے میں بدھ مت کے پیروکار آباد تھے جنہوں نے اس علاقے کا نام بدھل رکھا ۔اسے راجنگر کا نام بھی دیا گیا ہے جو کہ اج تک رواں دواں ہے ۔جو حوالہ مل سکا اس میں بدھل کا نام بڑھا کر تحصیل بدھل کر دیا گیا ۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق تحصیل کی کل آبادی 1.45 لاکھ ہے جس میں اب اور اضافہ ہوچکاہے۔ اعداد و شمارکے مطابق بدھل تحصیل میں تقریبا 50 گاوں آباد ہے ۔ ابتدائی طور پر بدھل قصبہ تحصیل کا صدر مقام تھا۔ سال 1934 میںاس کو نیابت کا درجہ حاصل ہوا اور 1968 میں بدھل کو تحصیل صدر مقام کا درجہ دیا گیا اور 1971 میں بدھل تحصیل صدر مقام کو سیاسی لیڈروں کی حمایت پرا س تحصیل کو دوسری جگہ شفٹ یعنی 20 کلومیٹر دور کوٹرنکہ میں منتقل کیا گیا۔ دہائیوں سے بدھل تحصیل صدر مقام کے ساتھ سیاسی رسہ کشی اور یہاں کی عوام کے ساتھ سوتیلا سلوک کے باعث تحصیل صدر مقام بدھل کی افلاس عامتہ الناس 20 کلو میٹر دور کا سفر طے کر کے کوٹرنکہ میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی دہائیوں سے دربدر ہونے پر مجبور ہے۔
بدھل تحصیل میں صدیوں سے آپسی بھائی جا رہا قائم و دائم ہے۔یہاں ہند ،مسلم، سیکھ راجپوت ذات کے لوگ صدیوں سے رہائش پذیر ہیں۔ گجر بکروال پہاڑی کشمیری راجپوت اور ڈوگری زبان بولی جاتی ہے ۔یہاں کے متعدد دیہاتوں میں ہندو اور مسلم راجپوت آباد ہیں۔ بدھل ایک قدیم قصبہ ہے جس کا حوالہ راجترنگنی میں دستیاب ہے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی تاریخی کتابوں میں اس کا تاریخی حوالہ ملتا ہے۔ یہاں سے وادی کشمیر کا راستہ سب سے کم فاصلہ پر ہے جو کہ وادی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے ملتا ہے۔اسی راستے سے وادی کشمیر کی طرف گجر بکر وال طبقہ سمیت دیگر لوگ بھی داخل ہوتے ہیں۔ بدھل سے رابطہ سڑک خطہ جناب ضلع ریاسی ادھم پور کو بھی خطہ پیر پنچال سے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ جموں ڈویژن کے خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کو آپس میں جوڑنے والا بدھل اہم مرکز ہے ۔یہاں قدیم زمانے سے لے کر آج تک لوگ کاشتکاری پر انحصار ہیں۔ جس سے لوگوں نے اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنایا تھا اور اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر محنت و مشقت کی ہے ۔یہاں کے راجما آلو اور اخروٹ پور جموں ڈویژن میں مشہور ہیں۔ایک حوالے کے مطابق یہاں مندر، مسجد اور گردوارہ صاحب تینوں عبادت گاہیں ایک ہی جگہ پر تعمیر کی گیی ہیں جو کہ 1947 سے قبل تعمیر ہیں۔
یہاںکے مقیم ماسٹر محمد نظیر ٹھکر جو محکمہ تعلیم سے اب سبکدوش ہیں،کہتے ہیں کہ 1926 میںیہاں گردوارہ صاحب تعمیر کیا گیا تھا۔ سال 1934 میں قدیمی جامع مسجد بدھل تعمیر کی گئی۔ جس کو کوٹلی کے دلاور خان ولد راج ولی نے تعمیر کروایی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ مندر بھی اسی وقت کا بدھل میں تعمیر کیا گیا تھا۔یہاں کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اور مقیم محمد شبیر کملاک افلاطون کہتے ہیں 1952 میں بدھل میں گورنمنٹ پرائمری اسکول قائم کیا گیا تھا۔1962 میںا سکول کی عمارت تعمیر کی گئی جبکہ 1976 میں اسکول کا درجہ بڑھا کر ہائی سیکنڈری کیا گیا ۔اسی کے ساتھ حوالہ پولیس تھانہ بدھل 1931 میں قائم کیا گیا تھا۔ بدھل کو راجوری سے جوڑنے کے لیے رابطہ سڑک کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث اس سے قبل یہاںکے لوگ مرکناونی کا کام کرتے تھے یعنی گھوڑے اور کھچروں پر راجوری سے سامان بدھل کے تاجروں کا لاتے تھے۔
غور طلب ہے کہ بدھل تحصیل صدر مقام کا درجہ 1968 میں بڑھایا گیا۔ یہاں کے پہلے تحصیلدار جسونت راج تھے۔ ایک اورمقامی نوجوان محمد عارف چک بتاتے ہیں کہ بدھل منصف کوٹ 1979 میں بدھل سے شفٹ کر کے کوٹرنکہ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد مرحوم کی لکھی تحریر کے مطابق اس کے خلاف انہوں نے93 دنوں تک ہڑتال کی تھی۔ جس میں بدھل کے کئی سیاسی و سماجی کارکنان نے ان کا ساتھ نبھایا تھا۔ مرحوم محمد شریف کے فرزند عارف چک کہتے ہیں کہ ان کے مرحوم والد صاحب نے بدھل سے منصف کوٹ اور تحصیل کو شفٹ کرنے کی لڑائی۔ 1995میںمنصف کوٹ کو بدھل میں بحال کرنے کی لڑائی وہ جیت گئے تھے ۔لیکن 27 نومبر 1997کو نامعلو بندوق برداروں نے انہیں گولی مار کر حلاق کر دیا تھا۔ بدھل کو تحصیل کو درجہ واپس نہ مل سکا ۔ 1970 میں یہاں ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ یہ راجوری ضلع کے کنڈی اور بدھل بلاک کا پہلا پرائمری ہیلتھ سینٹر تھاجو کہ آج بھی پرائمری ہیلتھ سینٹر ہی ہے۔
بد قسمتی سے جموں و کشمیر میں عوام الناس کو صحت سے متعلق بہتر سہولیات میسر کروانے کے لیے جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر صحت کی سہولیات پرائمری ہیلتھ سینٹروں میں میسر ہیں۔ لیکن بدھل میں جدید مشینری سمیت دیگر بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی پرائمری ہیلتھ سینٹر بدھل کو آج تک اپ گریڈ کیا گیا ہے ۔سال 2014 میں جموں کشمیر میں کچھ علاقوں میں نئی تحصیل یونٹ قائم کیے گے تھے۔لیکن بدھل کو اس سال بھی نظر انداز کیا گیا۔یہاں کی عوام نے 16 دن تک بھوک ہڑتال بھی کی ۔لیکن اس وقت بھی بدھل کی عوام کے ساتھ نا انصافی کی گئی۔اس دوران تمام سیاسی رہنماؤں نے بدھل کی عوام الناس کو جھوٹی تسلیاں دیں۔ لیکن اس وقت بھی بدھل کی چھینی ہوئی تحصیل واپس نہ مل سکی۔
سال2008 میں یہاںگورنمنٹ ڈگری کالج قائم کیا گیا ۔کالج کی عمارت تعمیر ہونے تک اس کی کلاسیں ہائی سکینڈری اسکول بدھل میں چلتی رہی۔حالانکہ اب کالج کی تعمیر کا کام بہت جلد مکمل کیا گیا ہے اور کالج کی کلاسںیں بھی سکینڈری اسکول سے کالج کی نئی بلڈنگ میں شفٹ کی گئی ہے جس سے بدھل میں نوجوانوں میں تعلیم کا شوق اور بڑھتا گیا ۔یہاں گورنمنٹ ڈگری کالج قائم ہونے سے بدھل میں زیادہ تر لڑکیاں تعلیم یافتہ دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ قابل ذکرہے کہ بدھل کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم نے جے کے اے ایس امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے ۔بدھل کا ایک اور حوالہ جس سے اس کی پہچان ہی سیاسی لیڈروں نے بدل ڈالی سال 2021 میں بی ڈی سی اور ڈی ڈی سی کے انتخابات کے دوران بدھل کا نام ہی بدل ڈالا ۔کچھ مفاد پسند سیاسی لیڈروں نے اپنی کرسی کو پانے کے لیے بدھل تحصیل صدر مقام سے بدھل نیو کا درجہ دیا۔ صاف لفظوں میں کہیں کوٹرنکہ اور پیڑی کی عوام الناس کی شناخت بھی مفاد پسند سیاسی لیڈروں نے چھین لی ہے۔کنڈی کوٹرنکہ کو بدھل اولڈ اور پیڑی کو بدھل اولڈ بی کا نام دیا گیا ہے اور بدھل کو بدھل نیو کر دیا گیا۔ اس سے نہ صرف بدھل کی پہچان ختم کر دی بلکہ کنڈی کو ٹرنکہ اور پیڑی کی پہچان بھی مٹا دی ہے۔
بہرحال اس پر جموں و کشمیر ایل جی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کو توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بدھل کی عوام الناس اور ایک تاریخی قصبہ کے ساتھ کی جا رہی دہائیوں سے نا انصافی کو انصاف کی دہلیز تک پہنچایا جاسکے۔سال 1968 میں بدھل کو تحصیل کا درجہ حاصل ہونے کے بعد تحصیل صدر مقام رہا ہے جو کہ اب سیاسی مفاد پسند رہنماؤں کی کے باعث اب بدھل بلاک تک ہی محدود ہے جو کہ 11 پنچایتوں پر مشتمل ہے ۔
جموں و کشمیر ایل جی انتظامیہ اور موجودہ سرکار کو بدھل کے ساتھ کی جا رہی ظلم و ظریفی کو ختم کرنے کی توجہ مبزول کرنی چاہیے اوراس کے حقوق کو واپس بدھل کی عوام الناس کی جھولی میں ڈال کراس کی تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کی اشد ضرورت۔اس کے لئے ضروری ہے کہ بدھل کو تحصیل صدر مقام کا درجہ واپس دیاجائے۔(چرخہ فیچرس)
٭٭٭