- اب چوہدری لال سنگھ نے میدان میں کود پڑے!
ہندو ایکتا منچ اور بی جے پی کا مشترکہ جلسہ، سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ
یواین آئی
جموں؍؍جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں جنوری کے اوائل میں پیش آئے دل دہلانے والے آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں گذشتہ ہفتے ترنگا ریلی نکالنے والی ہندو ایکتا منچ اور ریاست کی مخلوط حکومت کی اکائی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعرات کو ہیرا نگر کٹھوعہ کے کوٹہ نامی گاؤں میں ایک مشترکہ جلسہ کا انعقاد کیا۔ کوٹہ نامی یہ گاؤں متاثرہ آٹھ سالہ کمسن بچی کے آبائی گاؤں ’رسانہ‘ سے ملحق ہے۔ ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے منعقد ہونے والے اس جلسہ سے ریاستی حکومت کے دو سینئر بی جے پی وزراء چندر پرکاش گنگا اور چودھری لال سنگھ نے خطاب کیا جبکہ اس موقعہ پر بی جے پی کے متعدد دیگر لیڈران موجود تھے۔ جلسہ کے شرکاء نے ’ہم کیا چاہتے سی بی آئی انکوائری اور بھارت ماتا کی جے‘ جیسے نعرے لگائے۔ ہندو ایکتا منچ کے صدر ایڈوکیٹ وجے کمار کی تقریر کے بعد صنعت و حرفت کے ریاستی وزیر چندر پرکاش نے لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں کیس کو سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی)کے حوالے کرنے کا یقین دلایا۔ علاقہ میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود منعقد ہونے والے اس جلسہ کے مقام پر مبینہ طور پر بعض سینئر سیول و پولیس انتظامیہ کے عہدیدار بھی موجود تھے۔ سب ڈویژن ہیرانگر میں گذشتہ قریب تین ہفتوں سے دفعہ 144 نافذ ہے جس کے تحت چار یا چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہے۔ مسٹر گنگا نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’آج کا دن آپ انتظار کریے۔ ہمیں آپ کے ساتھ ہمدردی ہے۔ ہم یہاں باشن دینے نہیں آئے ہیں۔ ہم وزیر اعلیٰ سے ملاقات کریں گے اور ان کو بتائیں گے کہ لوگوں کو پولیس پر بھروسہ نہیںہے، اس لئے تحقیقات کو سی بی آئی کے حوالے کیا جائے۔ سی بی آئی انکوائری ہوگی۔ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کے چنے ہوئے ہیں‘۔ انہوں نے تاہم یہ بھی کہا ’آصفہ کو انصاف ملنا چاہیے کیونکہ یہ انسانیت کا قتل ہوا ہے‘۔ پرکاش گنگا نے بعدازاں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کا بھی موقف ہے کہ واقعہ کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا ’ہماری پارٹی کا بھی یہی موقف ہے۔ ہم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ ہم حکومت کو بتائیں گے کہ لوگوں کو پولیس، ایس آئی ٹی اور کرائم برانچ پر یقین نہیں ہے۔ اس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی جائے‘۔ ریاستی وزیر نے کہا کہ نوجوانوں کو بلاوجہ گرفتار کرنا غنڈہ گردی ہے اور ہم اس کو چلنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا ’تحقیقاتی عمل کے دوران لوگوں کو بہت زیادہ ہراساں کیا جارہا ہے۔ دشمنیاں نکالی جارہی ہیں۔ ہم نے ان کو بھروسہ دلایا کہ واقعہ کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات ہوگی‘۔ جب ایک نامہ نگار نے مسٹر گنگا سے پوچھا کہ اگر وزیر اعلیٰ نے سی بی آئی انکوائری سے انکار کیا تو پارٹی کا اگلا اقدام کیاہوگا، وزیر نے اپنے جواب میں کہا ’ہمارا اگلے اقدام کیا ہوگا، آپ کو پتہ ہی ہے‘۔ جنگلات و ماحولیات کے وزیر چودھری لال سنگھ نے اپنی تقریر ڈوگری زبان میں کی جس پر جلسہ کے شرکاء بار بار تالیاں بجاتے ہوئے نظر آئے۔ جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے ڈپٹی کمشنر روہت کھجوریہ نے بدھ کے روز نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کی انکوائری سی بی آئی کے حوالے کرنے کا حق صرف ریاستی حکومت کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا تھا ’سی بی آئی انکوائری کا حکم ایک ڈپٹی کمشنر صادر نہیں کرسکتا۔ وہ ریاستی حکومت کا کام ہے۔ یہ جو چند لوگ اس کے لئے احتجاج کررہے ہیں، وہ جموں میں بیٹھے اپنے بڑے بڑے لیڈروں سے اپروچ کیوں نہیں کرتے۔ میں خود زیادہ سے زیادہ ڈویژنل کمشنر کو اپروچ کرسکتا ہوں، میں نے کیا ہے۔احتجاج کرنے والے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر احتجاج کرنے سے سی بی آئی انکوائری نہیں ہوگی‘۔ منگل کے روز رسانہ گاؤں سے ایک مخصوص طبقہ سے وابستہ قریب ڈیڑھ درجن خواتین یہ کہتی ہوئے ایک نذدیک گاؤں منتقل ہوئی تھیں کہ کرائم برانچ پولیس انہیں ہراساں کررہی ہے۔ تاہم ریاستی پولیس نے بدھ کی صبح نقل مکانی کرنے والی خواتین اور دیگر تین لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا تھا۔ اس دوران ہندو ایکتا منچ کے درجنوں کارکنوں نے بدھ کے روز نقل مکانی کرنے والے خواتین کو حراست میں لینے کے خلاف اور کیس کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبے کو لیکر ریلی نکالی تھی اور پولیس تھانہ ہیرا نگر میں اجتماعی گرفتاریاں پیش کی تھیں۔ ہندو ایکتا منچ کے صدر ایڈوکیٹ وجے کمار جو احتجاجیوں کی قیادت کررہے تھے، نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ بھارت ماتا کی جے بولنے والوں کے خلاف ناانصافی کی جارہی ہے۔ ہندو ایکتا منچ کا کہنا ہے کہ کٹھوعہ کے ہندو سماج کو ریاستی حکومت کی طرف سے کرائم برانچ پولیس سے کرائی جارہی تحقیقات پر اعتبار اور اعتماد نہیں ہے۔ کرائم برانچ آصفہ قتل اور عصمت دری کے اس واقعہ کے سلسلے میں پہلے ہی دو لوگوں کو گرفتار کرچکی ہے جن میں ایس پی او دیپک کھجوریہ کو کلیدی ملزم سمجھا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے حلقہ انتخاب ہیرا نگر کے سینکڑوں لوگوں نے ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے کلیدی ملزم دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں نکلنے والے اس احتجاجی مارچ کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے اور ریاستی پولیس کے اہلکار احتجاجیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے ہوئے نظر آئے تھے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں ہونے والے احتجاج میں قومی پرچم کی موجودگی پر اپنی حیرانگی ظاہر کی تھی اور اسے قومی پرچم کی توہین قرار دیا تھا۔ انہوں نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا ’کٹھوعہ عصمت ریزی اور قتل کیس میں گرفتار شخص کے دفاع میں احتجاج کے بارے میں سن کر حیرانگی اور مظاہرین کے ہاتھوں میں قومی پرچم دیکھ کر میں بہت خوفزدہ ہوئی۔ یہ قومی پرچم کی توہین ہے۔ ملوث شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کاروائی ہوگی‘۔ کرائم برانچ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے 9 فروری کو آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تھا ۔ 28 سالہ ملزم ایس پی او پولیس تھانہ ہیرانگر میں تعینات تھا۔ دیپک کھجوریہ اُس پولیس ٹیم کا حصہ تھا جو آصفہ کے اغوا کے بعد اس کی تلاش کررہی تھی۔ تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نذدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ قتل اور عصمت دری کے اس واقعہ کے خلاف مقتولہ بچی کے کنبے اور رشتہ داروں نے اپنا شدید احتجاج درج کیا تھاجبکہ اپوزیشن نے اسمبلی میں اپنا احتجاج کئی دنوں تک جاری رکھا تھا ۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں پولیس کے حوالے سے کہا گیا تھا ’کھجوریہ نے دوسرے ایک کم عمر لڑکے کے ساتھ ملکر آٹھ سالہ آصفہ کو ایک ہفتے تک یرغمال بنا رکھا اور عصمت دری کے بعد اس کا قتل کیا‘۔ رپورٹ کے مطابق اس عصمت ریزی اور قتل کا مقصد علاقہ میں مقیم خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ کو خوفزدہ کرنا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر حکومت نے 23 جنوری کو آصفہ بانو کے قتل اور عصمت ریزی کے واقعہ کی تحقیقات کی ذمہ داری کرائم برانچ کو سونپی۔ قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے ایوان اسمبلی کو بتایا تھا ’کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل کے واقعہ کی تحقیقات اب کرائم برانچ کرے گا‘۔ اس اعلان کے محض چند گھنٹے بعد جموں وکشمیر پولیس کے کرائم برانچ نے ایک ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (آف کرائم برانچ) کی قیادت میں پانچ رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیکر واقعہ کی تحقیقات شروع کی تھی۔ پی ڈی پی بی جے پی مخلوط حکومت کے سینئر وزیر چودھری ذوالفقار علی نے کہا تھا کہ تحقیقات کی ذمہ داری کرائم برانچ کو سونپنے کا فیصلہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے لیا ہے۔ انہوں نے اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’وزیر اعلیٰ (محترمہ مفتی) نے اس کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری کرائم برانچ کو سونپنے کا فیصلہ لیا ہے۔ اب اس کیس کی تحقیقات کرائم برانچ کرے گا۔ شاید وہاں کے لوگوں کو پولیس پر اعتماد نہیں تھا، اس لئے ہمیں اس کیس کو کرائم برانچ کے سپرد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی‘۔ امور صارفین وتقسیم کاری کے وزیر مسٹر ذوالفقار نے کہا تھا کہ کرائم برانچ کیس کی تحقیقات کو ایک ماہ کے اندر مکمل کرلے گا۔ انہوں نے کہا تھا ’کرائم برانچ کیس کی تحقیقات ایک ماہ کے اندر مکمل کرے گا۔ کمسن بچوں کا قتل اور ریپ ایک برا رجحان ہے۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ جموں وکشمیر میں کم از کم ایسے واقعات پیش نہیں آنے چاہیے‘۔