اُڑتاتیراک

0
0

شاہ تاج خان کی تمام تحریریں | ریختہ

شاہ تاج خان (پونہ)
’’پینگوئن(penguin)کارٹون ہے یا حقیقت؟‘‘لیاقت نے پینگوئن کارٹون دیکھتے ہوئے اچانک اپنے بڑے بھائی شارق سے پوچھا
’’پینگوئن حقیقت میں ہوتا ہے۔کیا تمہیں معلوم نہیں تھا؟‘‘شارق نے کہا
’’نہیں بھائی جان! مجھے تو لگتا تھا کہ یہ صرف کارٹون ہے۔میں نے اسے کبھی کسی چڑیا گھر میںدیکھا ہی نہیں۔ہم لوگوں نے دلّی کا چڑیا گھر دیکھا ہے،پونہ کا چڑیا گھر بھی جہاں سفید شیر بھی ہے اور ہم نے حیدر آباد کا چڑیا گھر بھی دیکھا ہے ،جہاں بڑا سا شتر مرغ(ostrich) اچانک کھڑا ہوگیا تھا۔جسے دیکھ کر میں ڈر گیا تھا۔یاد ہے نا!‘‘لیاقت نے ہنستے ہوئے کہا تو شارق کو بھی ہنسی آگئی
’’ہاں!اور تم نے زور زور سے رونا شروع کر دیا تھا۔‘‘لیاقت نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا
’’لیکن کہیں بھی پینگوئن نہیں دکھائی دیا!‘‘شارق نے لیاقت کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا
’’ارے بدھو!پینگوئن ٹھنڈی جگہ رہتا ہے۔ہر کارٹون میں وہ انٹارکٹکا کی برف پر ہی مستی کرتا نظر آتا ہے۔کیا تم نے دھیان نہیں دیا؟‘‘ لیاقت نے اپنا سر سہلاتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا
’’ جی بھائی جان!لیکن یہ اتنی سردی میں زندہ کیسے رہتا ہے؟‘‘شارق نے جواب دیا
’’لیاقت! میں بھی پینگوئن کے بارے میں اِس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔مجھے بھی کارٹون دیکھتے ہوئے اِس کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا تو اسکول میں سر سے پوچھا تھا۔تو انہوں نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ کارٹون دیکھ کر وقت ضائع کرتے ہو،پڑھائی پر توجہ نہیں دے رہے ہو،اسکول کے نصاب پر اتنا دھیان دوگے تو کلاس میں اوّل آؤگے۔ اور ہاں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پینگوئن کی معلومات کسی امتحان میں نہیں آنے والی ہیں۔معلوم ہے سر نے میری شکایت امّی سے بھی کر دی تھی۔امّی نے کچھ دن توکارٹون تک نہیں دیکھنے دیئے تھے۔‘‘ شارق نے اپنی آپ بیتی سنائی تو لیاقت نے معصومیت سے پوچھا
’’بھائی !تو کیا ہمیں صرف اسکول کی کتابوں تک ہی محدود رہنا چاہئے؟‘‘ایک آواز آئی
’’نہیں بالکل نہیں! جب کوئی بھی سوال ذہن میں آئے تو اُس کا جواب تلاش کرنا چاہئے!‘‘ دونوں نے پیچھے پلٹ کر دیکھاتو چچی مسکرا کر انہیں کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ شارق چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے اور لیاقت تیسری جماعت کا طالبِ علم ہے۔دونوں کو ہی کارٹون دیکھنا بہت پسند ہے۔چچی کی بات سُن کر شارق نے فوراً کہا
’’چچی !میں سوال کا جواب تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش کر چکا ہوں۔ڈانٹ کھائی تھی اوراوپر سے سزا بھی ملی تھی۔اسی لیے لیاقت کو سوال نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔‘‘چچی نے سمجھاتے ہوئے کہا
’’کیوں نہ ایک مرتبہ پھر سے کوشش کی جائے! ممکن ہے اب کی بار پینگوئن کی کچھ معلومات مل جائیں؟سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے سوال کا جواب کون دے سکتا ہے؟کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب ہر ایک کے پاس ہو!‘‘چچی نے بچوں کے ٹوٹتے حوصلے کو سہارا دیا تو اُن کی آنکھوں میں تجسس ایک مرتبہ پھر قلانچیںمار نے لگا تھا
’’جی چچی!آپ ہی بتائیے کہ پینگوئن کی معلومات ہمیں کہاں سے مل سکتی ہیں؟‘‘لیاقت نے پوچھا
’’یہ تو آپ لوگ ہی تلاش کر سکتے ہیں۔ہاں میں کچھ مدد ضرور کر سکتی ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ حیاتیات کے استاد آپ کے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔‘‘اچانک شارق نے کہا
’’جی !رشید سر بہت اچھا پڑھاتے ہیں۔کیا وہ نصاب کے باہر کے سوالوں کے جواب دیں گے؟کہیں پھر ڈانٹ نہ کھانی پڑے؟‘‘شارق نے اپنی تشویش کا اظہار کیا توچچی نے کہا
’’کوشش کیجئے۔‘‘چچی نے اتنا کہا اور اُٹھ کر باورچی خانہ میں چلی گئیں۔دونوں بھائی کل اسکول میں سر سے ملاقات کی تیاری کرنے لگے
’’سر! کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟‘‘شارق نے اسمبلی ختم ہوتے ہی کلاس کی جانب جاتے ہوئے سر کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا
’’جی شارق!کہئے ۔کوئی پریشانی ہے؟‘‘رشید سر نے پوچھا
’’نہیں نہیں سر ۔میں پینگوئن کے بارے میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا۔‘‘شارق نے وقت ضائع کیے بنا کہا
’’بہت خوب!لیکن پہلے مجھے آپ یہ بتائیے کہ آپ خود پینگوئن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘‘رشید سر کے سوال سے پہلے تو شارق تھوڑا گھبرا گیا لیکن پھر سنبھلتے ہوئے کہا
’’سر میں نے پینگوئن کو صرف کارٹون میں دیکھا ہے۔میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انٹارکٹکا میں برفیلے علاقے میں رہتا ہے۔‘‘شارق کی بات سُن کر رشید سر نے کہا
’’آج تفریح کے وقت اسٹاف روم میں آجائیے گا۔تب اِس موضوع پر بات کریں گے۔‘‘شارق خوش ہوگیا اور اُس نے کہا
’’سر کیا میں اپنے بھائی لیاقت کو بھی ساتھ لا سکتا ہوں جو تیسری جماعت میں پڑھتا ہے؟ہم دونوں کوہی پینگوئن کے بارے میں جاننا ہے۔‘‘ رشید سر نے کہا
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ضرور لائیے ۔اور اب آپ اپنی کلاس میں جائیے۔تفریح میں ملتے ہیں۔‘‘شارق حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ تفریح کی گھنٹی بجتے ہی وہ پہلے لیاقت کو لینے اُس کی کلاس میں گیا اور پھر دونوں رشید سر کے پاس اسٹاف روم میں پہنچ گئے۔رشید سر نے گفتگو کا آغاز کیا
’’پینگوئن(penguin)کو اردو میں بطریق کہتے ہیں۔اسے آبی پرندہ بھی کہتے ہیں۔‘‘لیاقت نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
’’سر!کیا یہ آسمان میں اُڑ بھی سکتا ہے؟‘‘سر نے مسکرا کر جواب دیا
’’نہیں لیاقت!پینگوئن اپنے پروں کو چپّو(flippers)کی طرح استعمال کرتا ہے کیونکہ پینگوئن کے پر اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ وہ آسمان میں پرواز کر سکے۔لیکن وہ اپنے جسم سے چپکے ہوئے چھوٹے سے پروں کو جب پانی میں تیرتے وقت پھیلاتا ہے تو وہ آسمان میں اُڑتے پرندے کی مانند نظر آتا ہے۔جب یہ تیرتا ہے تو بالکل آب دوز(submarine)کی طرح دکھائی دیتا ہے۔‘‘شارق نے پوچھا
’’سر!کیابطریق صرف انٹارکٹکا میں ہی پائے جاتے ہیں اور کیا سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ؟‘‘رشید سر نے جواب دیا
’’بطریق زیادہ تر قطب جنوبی کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔لیکن یہ نیوزی لینڈ،جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تقریباً 20اقسام کے مختلف خدوخال کے بطریق کرہ ارض پر موجود ہیں۔ان میں سب سے بڑا ایمپرر بطریق(emperor penguin)اور سب سے چھوٹالٹل بلوبطریق(little blue) ہے۔‘‘لیاقت نے کہا
’’کارٹون میں جب پینگوئن برف پر پھسلتے ہیں تو میرا بھی دل کرتا ہے اُن کے ساتھ کھیلوں۔‘‘رشید سر نے کہا
’’اسے tobogganingکہتے ہیں۔یعنی برف گاڑی میں پھسلنا۔لیکن یہ کسی گاڑی کے بغیر ہی آرام سے مزے لیتے ہیں۔‘‘شارق جو کافی غور سے سر کی باتیں سُن رہا تھا اور اپنی نوٹ بُک میں لکھتا بھی جا رہا تھا اُس نے پوچھا
’’سر!بطریق کے دانت ہوتے ہیں؟بالکل ویسے ہی جیسے مچھلیوں کے منہ میں ہوتے ہیں۔‘‘سر نے جواب دیا
’’نہیں شارق!بطریق کے منہ میں کوئی دانت نہیں ہوتے بلکہ زبان اور تالو میں نوکیلے میخ نما(spikes) (papillae) ہوتے ہیں۔جو حلق کی جانب گھومے ہوئے ہوتے ہیں۔شکار گرفت میں آتے ہی حلق کی طرف پھسل جاتا ہے ۔انہیںکرِل(کھلے سمندر میں رہنے والا ایک خولدار قشری جانور) (krill)،قیر ماہی(squids)اورمچھلیاں(fishes) کھانا بہت پسند ہے۔‘‘لیاقت نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا
’’سر!سمندر کا پانی تو بہت نمکین ہوتا ہے تو یہ پانی کہاں سے پیتے ہیں؟‘‘سر نے مسکراتے ہوئے کہا
’’واہ بہت اچھا سوال کیا ہے۔سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ اِن کے پاس صرف دو ہی ذائقوں ترش(کھٹا)(sour) اور نمکین(salty) کے وصول کنندہ (receptors)ہوتے ہیں۔اور اب آپ کے سوال کا جواب ۔پینگوئن ایک خاص قسم کے غدود کے مالک ہوتے ہیں جو پانی سے نمک کو فلٹر کرنے کا کام کرتے ہیں۔فوق حجاجی غدود(supraorbital gland)آنکھ کے اوپر کی جانب موجود ہوتا ہے۔‘‘رشید سر نے دیکھا کہ دونوں ہی بچے بہت دلچسپی کے ساتھ اُن کی باتیں سُن رہے تھے۔اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا
’’پینگوئن کی بیٹ گوئینو(guano)کوکھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اِس میں وافر مقدار میں نائٹروجن پایا جاتا ہے۔میرے خیال میں آپ لوگوں کے لیے اتنی معلومات کافی ہوں گی۔‘‘پھر کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے کہا
’’ایک بات میں اور بتانا چاہتا ہوں۔اُسے کہیں لکھ لیجئے گا۔‘‘رشید سر کی بات سُن کر شارق نے اپنی نوٹ بُک سنبھال لی
’’آپ نے دیکھا ہوگا کہ بطریق بڑے بڑے گروپ میں رہتے ہیں۔اُن کے ہر گروپ کا ایک مخصوص نام ہے۔جیسے جب وہ سمندر میں اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں تو اُس گروپ کو RAFTکہتے ہیں۔جب پینگوئن زمین پر موج مستی کر تے ہیں تو اُس گروپ کو WADDLEکہتے ہیں اور پینگوئن کے معصوم بچوں کے جھُنڈ کو CRECHEکہتے ہیں۔ اور ہاں میں آپ دونوں کو ایک کام بھی دینا چاہتا ہوں۔رافٹ،واڈل اور کریش کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟یہ آپ کا ہوم ورک ہے۔آپ دونوں کر پائیں گے؟‘‘شارق نے جواب دیا
’’سر ہم پوری کوشش کریں گے۔‘‘تب تک تفریح ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی تھی۔دونوں بچے رشید سر کا شکریہ ادا کر کے اپنی اپنی کلاس میں جانے کے لیے نکل پڑے۔شارق سوچ رہا تھا کہ اگر چچی نے حوصلہ نہ دیا ہوتا تو شاید وہ کبھی بھی نصاب کے باہر کا سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔آج اُسے سوالوں کے جواب بھی ملے تھے اور ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب پوچھنے کی ہمت بھی۔
9225545354

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا