اُمت کی فلاح مقصد حیات میں پنہاں ہے

0
0
عالیہ خان حافظ نذراللہ خان_اردھاپور
        کیا عجب نہی کہ جس قوم کو تمام اقوام پر فضیلت دی گئ جسے امامت کے منصب پر سر فراز کیا گیا جس کے ہاتھوں سے قیصر و کسری کے ایوان لرزدادیے گئے  آج وہی قوم پستی و تنزلی کا شکار ہے_  کئ صدیوں پہلے  اسی قوم کے لیے قبلہ تبدیل کرکے اس کی امامت کا اعلان کیا گیا تھا اور آج اسی قوم نے   اپنے قبلہ سے منہ موڑ کر اپنا رخ  کفار کی طرف کرلیا کبھی ناچ گانوں میں تو کبھی فیشن کے نام پر تو کبھی فرقہ پرستی کے تعصب اندھے ہوکر اپنا اصل مقام گنوا بیٹھے اور فروعی مسائل میں ایسے الجھے کہ اسی کو اپنا مقصد حیات بنالیا _ یہ قوم اصل شریعت سے بہت دور نکلتی جارہی ہے _ اتنی دور کہ آج یہ قوم اپنے مقصد وجود رضائے الہی اور اپنے خدا اور اس کے رسول ﷺ کے دیے ہوئے مشن کو بھول گئ_  ایک عظیم انبیائ مشن *”اقامت دین”* جس کا اعلان رب العزت نے یوں کیا ( کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ۔۔۔۔۔الخ)
*تم وہ بہترین امت ہو جو نکالی گئ ہو لوگوں کے لیے تم بھلائ کا حکم دیتی ہو اور برائ سے روکتی ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتی ہو_البقرہ )* ۔۔۔۔ افسوس صد افسوس! کہ اس امت کو ایمان تو یاد رہا لیکن ایمان کا تقاضا یاد نہی رہا _ یہی وجہ ہیکہ آج امت کی اکثریت  بزدلی ، تنزلی و احساس کمتری اور خود اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف تعصب کا شکار ہوکر باطل پرستوں کی محکوم ہوگئ _ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان اپنے نفس کو شیطان کے حوالے کردیتا ہے تو پھر اس پر نفس پرستی مسلط کردی جاتی ہے اور وہ زمین سے چمٹا چلا جاتا ہے_  جس کے سبب اللہ ایسے افراد پر  لوگوں کا ہی کا خوف مسلط کردیتا ہے _ پھر موب لنچنگ، مسمار مساجد، مسلمانوں کا  قتل عام جیسے واقعات بڑھنے لگتے ہیں __
مسلمان تو وہ امت ہے جسے امتوں کا مرکز بنایا گیا اور محمد ﷺ کی جانشینی عطا کر انھیں ایک مقصد حیات ، ایک  بلند نصب العین دیا گیا ( وہ کذالک جعلناکم امۃ وسطالتکونوا۔۔۔الخ ۔۔۔ *اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنادیا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ* البقرہ)
امت مسلمہ کو جو نصب العین دیا گیا اس کا تقاضا ہیکہ جس شہادت حق کی ذمہ داری امت پر ڈالی گئ ہے اس کا حق ادا کرے ورنہ خدا کی عدالت سے بچ نہی  سکینگے _ ہر فرد اپنے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرلے تو کامیابی حد درجہ ممکن ہے _  وہ خالق  جس نے انسان کو پیدا کیا جو ہر چیز پر قادر ہے اگر چاہتا تو اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کردیتا لیکن اس کا قانون یہی ہیکہ پہلے وہ برائیوں کو ختم کرنے کے لیےانسانوں میں ہی سے کسی کو رسول یا پیغمبر بناکر بھیجتا یے پھر اس کے بعد اس کی امت کو یہ ذمہ داری دیتا ہیکہ وہ ہر برائ کا ازالہ کرکے قانون خدا قائم کریں اور سرکشوں سے لڑے_ اور یہ بغیر جماعت کے ممکن نہی _
وہ ایمان کی ہدایت دے کر پھر ایمان والوں سے  جنت کے بدلے جان و مال کی قربانی کی بیعت لیتا ہے _قرآن کا تفصیلی مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہیکہ اللہ نے اہل ایمان کو ہمیشہ سے جہاد پر ابھارا اور جہاد یہ ہیکہ وہ برائیوں کا ازالہ کریں اور نیکیوں کا حکم دیں اور اور یدعون الی الخیر پر سرگرم رہیں  چنانچہ اپنے حبیبﷺ کو حکم دیا *وحرض المومنین”* اور اے نبیﷺ مومنین کو جہاد پر اکساو) پھر اہل ایمان اس میں تساہل برتے تو شدت سے فرماتا ہے۔۔۔ ما قال لکم اذا قیل لکم انفروا اثاقلتم الی الارض ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
*”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا”* سورہ توبہ_)
تو کبھی  عیسی بن مریم علیہ السلام  اور ان کے حواریوں کی مثال پیش کرتا ہے  کہ جب عیسی ع نے اپنے حواریوں سے پوچھا من *انصاری الی اللہ* کون ہے اللہ کی راہ میں میرا مدگار تب حوریواں نے جواب دیا *نحن انصاراللہ* کہ ہم ہے اللہ کی راہ میں آپ کے مددگار ___ یہ ساری آیتیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ اہل ایمان کو برائ دیکھ کر خاموش نہی رہنا ہے بلکہ اس کا ازالہ کے لیے اٹھنا ہے اور اقامت دین کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنا ہے یا جس نے اس آواز کو بلند کیا "نحن انصاراللہ” کہہ کر اس کا ساتھ دینا ہے _ مسلمانوں کی فلاح کے لیے اقامت دین زندگی کے ہر شعبہ میں ہونا چاہیے گھر ،خاندان ،معاشرہ ، دفتر ، تعلیمی ادارے ،معشیت،  سیاست ہر جگہ خدا ہی کا قانون نافذ کرنا اہل ایمان کا فرض ہے _
آج ظلم، بربریت ، موب لنچنگ ، سود خوری ، ناچ گانے ، فحاشی، رسم و رواج، ٹرانس جینڈر، عریاں فلمیں،  جھگڑے، فساد ، قتل عام ، زنا ، جیسے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں __ تعلیم سے نا آشنائ بھی اس کا بڑا سبب ہے دینی و عصری دونوں تعلیمات سے لڑکے اور لڑکیوں کا آراستہ ہونا بہت ضروری ہے ورنہ کبھی حجاب تو کبھی طلاق کو آڑ بناکر جس طرح اسلام کی غلط تصویر پیش کی جارہی ہے اس میں ہماری امت کے لاعلم افراد  نادانی و جہالت میں ان کافروں کا ساتھ دینے سے گریز نہی کررہے ہیں _ ان تمام برائیوں کو دیکھ کر محض ہائے ہائے کرنا اور اپنی آرام گاہوں میں بیٹھ کر دعائیں کرنا کافی نہی اگر ایسا ہی ہوتا تو وہ نبیﷺ کبھی  بدر و احد میں نہ جاتا نہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کی لڑائ لڑتا_   اگر ان سب برائیوں کا سدباب نہی کیا گیا تو بعید نہی کہ یہ ساری خباثتیں امت کو دیمک کی طرح چاٹ جائینگی_ مسلمان تب تک فلاح نہی پاسکتے جب تک اپنے مقصد کا گہرا شعور پیدا نہ کرلیں اور ایک جماعت ہوکر اقامت دین کی سربلندی میں اپنی جان مال کی بازی نہ لگادیں _
اے امت کے نوجوانوں! اٹھو اس سے پہلے کہ تمھاری قوم کو پوری طرح برباد کردیا جائے۔۔۔۔۔
تمھاری عزتوں کو نیلام کردیا جائے ____ تمھارا *منصب امامت* تم سے  چھین لیا جائے
اٹھو اس سے پہلے کہ تم خدا کے کٹہرے میں کھڑے ہو اور وہ تم سے کہے___ کلا لما یقض ما امرہ __ عبس 23)
*ہرگز نہی انسان نے پورا ہی نہی کیا وہ فرض جس کا اسے حکم دیا گیا تھا*

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا