۰۰۰
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
۰۰۰
وَإِذَا نَادَیْْتُمْ إِلَی الصَّلاَۃِ اتَّخَذُوہَا ہُزُواً وَلَعِباً ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُونَ۔ (سورۃ المائدۃ: 58)
(جب تم نماز کے لیے منادی (اَذان ) کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اُڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے۔)
اَذان کیا ہے؟:
”اَذان ” جو کہ بمشکل 2 سے 3 منٹ کے لئے ایسی عبادت کا پیش خیمہ ہے، جسے ہم نماز کہتے ہیں۔ اَذان کو اسلام کی سب سے اہم عبادت نماز کے کامل طور پر ادا ہونے کا ایک وسیلہ اور مقدِّمہ بھی کہا جاسکتا ہے۔رسل اللّٰہﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو تمام انبیاء اکٹھے ہوگئے، پھر آسمان سے ایک فرشتہ اترا جو اس سے پہلے کبھی نہیں اترا تھا اس نے اَذان دی اور اقامت بھی کہی پھر خاتم النبیین محمدﷺ نے انبیاء کرامؑ کو نماز پڑھائی۔”اَذان” سنّتِ مؤکدہ ہے جسے واجب کے قریب شمار کیا جاتا ہے۔ اَذان ہر فرض نماز کے لیے مسنون ہے۔ اَذان، اسلام کا اساسی ترین رکن ہے۔ اَذان فی نفسہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ اَذان اسلام کے وجود اور اپنے عقیدہ کے اظہار کا نام ہے۔رسول اللّٰہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”مُؤَذِّن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے، اس کے لیے مغفِرت کر دی جاتی ہے اور ہر تر و خشک جس نے اس کی آواز سنی اس کے لئے استِغفار کرتی ہے، اس لیے بلند آواز سے اَذا ن دی جائے”۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل و ابوداؤد)
اس حدیث سے اَذان کی آواز کو بلند کرنے کا جواز نکالا گیا اور ترقی یافتہ دور میں لاؤڈ اسپیکر کی شکل میں ایک آلہ ملا، ایک ایسا آلہ جس کی مدد سے کسی بھی آواز کو دور تک پہنچایا جاسکتا تھا، اسی لیے اس سائنسی ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا استعمال اَذان جیسی عبادت کے لیے کیا جانے لگا۔ ہمارے نزدیک یہ بات واضح رہنا چاہیے کہ لاؤڈ اسپیکر محض ایک آلہ ہے جو مُؤَذِّن کی آواز کو دور تک پہنچانے کا کام دیتا ہے۔ کثرتِ آبادی بھی لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال کا سبب بنی۔لاؤڈ اسپیکرز کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ جب یہ آلہ موجود نہیں تھا اسلام اس وقت بھی موجود تھا اور اب جب کہ اس سے زیادہ مفید اور موثر آلات کے استعمال میں آنے سے اس کی پہلے والی اہمیت باقی نہیں رہی، اسلام تب بھی قائم ہے اور آگے بھی قائم و دائم رہے گا۔ اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے مسئلہ کو دین کا سوال بنانے کی بجائے اس کی افادیت اور نقصانات کے حوالہ سے دیکھنا ہی عقلمندی و دانشمندی کا تقاضہ ہے۔ایک حدیث میں رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب نماز کی اَذان دی جاتی ہے، تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے، تاکہ اَذان اُس کو سنائی نہ دے”۔حدیث میں آیا ہے کہ ”اَذان کی آواز سن کر شیطان بہت دور بھاگ جاتا ہے اور جب اَذان ختم ہوتی ہے تب وہ واپس آتا ہے۔ اور جب تکبیر ہوتی ہے تو وہ پھر بہت دور چلا جاتا ہے۔ تکبیر کے ختم ہونے پر واپس آتا ہے۔”
شیطان جب نماز کے لیے اَذان سنتا ہے بھاگتا ہوا رَوحا پہنچ جاتا ہے۔ راوی فرماتے ہیں، رَوحا مدینۂ منوّرہ سے 36؍ میل دور ہے۔ (مُسلِم ص۴۰۲ حدیث ۸۸۳ مُلَخّصاً)
یعنی اَذان شیطا نوں کو بھگانے کا ایک راستہ بھی ہے۔ جس کی تصدیق آج بھی ہماری نگاہوں کے سامنے ہورہی ہے۔ اب یہ سوچنا چاہئے کہ اَذان سے نفرت شیطا ن کو ہوتی ہے، مسلمان یا انسان کو نہیں ہوتی۔ آگے اَذان کے فوائد اور ثمرات بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔جب اَذان دینے والا اَذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دُعا قبول ہوتی ہے۔ (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم، ج:۲، ص:۳۴۲، حدیث:۸۴۰۲)جس بستی میں اَذان دی جائے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرا ی، ج:۱، ص:۷۵۲، حدیث: ۶۴۷)اندور شہر کے قاضی عشرت علی نے کہا، اَذان مسجد سے کیا جانے والا صرف ایک اعلان ہے، جس سے لوگوں کو نماز کے بارے میں یاد دلایا جاتا ہے اور یہ دو سے تین منٹ میں ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاؤہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 25 ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیتا ہے۔
ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار!
اَذا ن اور اسلامی اصول:
بحیثیتِ اُمَّتِ مُسْلِمَہ اسلام ہمیں ایسی کوئی عبادت و تعلیم نہیں سیکھاتا جس سے مخلوقِ خدا کو ضرر و نقصان اور ایذارسانی پہنچتی ہو۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ”لا ضرر ولا ضرار”۔
( نہ کسی کو نقصان پہنچانے میں پہل کرو اور نہ ہی نقصان کے بدلے نقصان پہنچاؤ۔)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِک”
(اور اپنی آواز کو پست رکھو۔)
نماز کے ضمن میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا”۔
(اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ مسجدِ نبویﷺ میں طائف کے دو آدمی بلند آواز سے باتیں کررہے تھے، حضرت عمرؓنے اُ ن کا یہ عمل دیکھ اُن کو بلایا اور فرمایا: ”اگر آپ شہر والوں میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ کیا تم رسول اللّٰہﷺ کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو”ـ۔اس حدیث کی تشریح میں دکتور احمد عبد الکریم تحریر فرماتے ہیں: یہ حدیث بلند آواز کی کراہت اور اس فعل کی قباحت پر دلالت کرتی ہے، کیو نکہ اس میں آرام و سکون متاثر ہو جاتا ہے اور سننے کی حس کو نقصان پہنچتا ہے۔ہمارے مسلم محلوں کی کچھ مساجد کا معاملہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ جہاں رمضان المبارک میں رات 3؍ بجے سے سحری کو اٹھانے کے لئے عجیب و غریب قسم کی کومینٹری سے غیر مسلموں کو توکیا؟ مسلما نوں کو بھی اذیت و تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ ہم پہلے اپنی اصلاح فرمائیں، جس کی وجہ سے آج کچھ لوگوں کو ہماری اس حماقت کی وجہ سے ا گلیاں اٹھانے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ہماری کالونی کا ہی یہ حال ہے کہ 20؍ بلڈنگ کی کالونی میں 3؍ مسجدیں، جس میں اَذان کی آواز کے مقابلہ کے لئے صرف ایک مسجد کے کئی کئی مقامات پر لاؤڈ اسپیکرز لگا کر بچوں، عمر رسیدہ، معذور اور بیماروں کو اذیتیں دی جاتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ایسے نادان بھائیوں کو دین کا سہی فہم و ادراک نصیب فرمائے۔ (آمین)اسپیکرز اور ایمپلی فائر سے متعلق ایک فتویٰ نظر سے گذرا جس میں فرمایا گیا:”مساجد میں ایمپلی فائر اور اسپیکر کا استعمال، جس میں آواز کا پھیلاؤ ضرورت سے زائد ہو، مکروہ ہے، ضرورت سے زیادہ آواز بلند کر ے کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے، اس طرح کے مائک میں ضرورت سے زیادہ آواز بلند ہوتی ہے، جس قدر آواز کی ضرورت ہو اسی کی حد میں رہتے ہوئے مائک کا استعمال کرنا چاہیے اور یوں تو بلا ضرورت نماز میں مائک کا استعمال ہی پسندیدہ نہیں ہے۔ قال ابن عابدی : إن الإمام إذا جہَرَ فوق الحاجۃ، فقد أساء والإساء ۃ دون الکراہۃ ولا توجب الفسادَ (ابن عابدی نے کہا: اگر امام ضرورت سے بڑھ کر او نچی آواز میں بولے تو اس نے برائی کی ہے……)۔ (ردّ المحتار)۔ (Fatwa:232-229/sd=3/1439)
فتنہ و فساد سے بچنے کے لئے لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال کے بغیر اَذان کو جائز قرار دیا گیا ہے۔مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کا نظام:مساجد کے ذمّہ داران مساجد کے بیرونی اسپیکرز کے حوالے سے اہم پالیسی اور طریقۂ کار کا نفاذ کریں۔ جس کے تحت اسپیکرز کی آواز کو صوتی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے اَذان کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ بیرو نی اسپیکرز صرف اَذان اور زیادہ سے زیادہ نماز سے قبل اقامت کے لیے ہی استعمال کئے جانے چاہیے۔ اس طرح کے اقدام شہریوں، بچوں، عمر رسیدہ اور بیماروں کے حق میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر مسلمان کرتا ہے کہ وہ افراد جن کو نماز ادا کرنی ہوتی ہے وہ اَذان کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اس سے قبل ہی مسجد میں موجود ہوتے ہیں۔ نماز اور تراویح میں اندرونی لاؤڈ اسپیکر کی آواز اس قدر ہونی چاہیے کہ صرف نمازیوں تک ہی کو آواز جائے، مسجد سے باہر تک آواز جانا ضرورت سے زائد ہے، اور اگر مسجد میں اس امر کا لحاظ نہ رکھا جائے تو باہر کے لوگوں پر سماع واجب ہیں، وہ اپنے کاموں میں مشغول رہ سکتے ہیں۔
اسپیکرز کی آواز اتنی تیز رکھنا کہ مقتدی حضرات کا ذہن و دماغ کو قرأتِ قرآن سے نشاط ہونے کے بجائے تکلیف ہونے لگے شریعتِ مطہرہ کی نظر میں ناپسندیدہ اور مکروہ ہے، لہٰذا اس کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔ لہٰذا ہمیں اس بات کا بھی پورا خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ ہماری عبادتیں کسی کی تکلیف کا ذریعہ بنیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجدوں کی ذمّہ داری ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں رہے جو دین و دنیا کی سمجھ رکھتے ہوں، قانونی معاملات سے آگاہ رہتے ہوں، موجودہ حالات اور مستقبل کے خطرات کے بارے میں سنجیدہ ہوں، تاکہ مساجد کے تمام قانونی پہلو مضبوط رہیں اور مستقبل کے ممکنہ خطرات سے حفاظت ہوتی رہے۔
صوتی آلودگی یا ماحولیاتی شور:
ماہرین کے مطابق کانوں کو حد سے زیادہ تیز بے ہنگم آوازیں، جو حد سے تجاوز کر جائیں یعنی وہ آوازیں جو پسندیدہ نہ ہوں، کانوں کو بھلی نہ لگیں اور جو بے چینی اور ناپسندیدگی کے جذبات پیدا کریں اور انسانی صحت کو متاثر کرنا شروع کردیں تو اس کو صوتی آلودگی (شور کی آلودگی) کہتے ہیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ شور کو ناپنے کا پیما ہ ڈیسی بیل ہے اور سائنس دانوں کے مطابق زیرو ڈیسیبل کا مطلب وہ کم سے کم آواز ہے جو انسانی کان محسوس کرسکتے ہیں۔ 20؍ ڈیسیبل آواز ایک سرگوشی سے پیدا ہوتی ہے، 40؍ ڈیسیبل آواز کسی پُرسکون دفتر میں ہوسکتی ہے، 60؍ ڈیسیبل آواز عام گفتگو سے پیدا ہوسکتی ہے، سائنسی اعتبار سے انسانی کان عام طور پر شورو غل کی 55 تا 65 ؍ڈیسیبل تک کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ جب کہ 90؍ ڈیسیبل سے اوپر آواز پہنچ جائے تو ہمارے جسم پر منفی و مضر اثرات پڑنے لگتے ہیں، اس طرح کی آوازیں انسانی سماعت کے لیے تکلیف دہ اور نقصاندہ ہوتی ہے۔جب کہ اَذان کے سلسلے میں گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس انیرودھ مئے پر مشتمل دو ججوں کی ڈویژنل بنچ نے ایک PIL کو مسترد کرتے ہوئے منصفانہ طور پر کہا ”ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اَذان دینے والی انسانی آواز کس طرح صوتی آلودگی پیدا کرنے کی حد تک ڈیسیبل تک پہنچ سکتی ہے جس سے بڑے پیما ے پر لوگوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے”۔
اَذان اور صوتی آلودگی:
سوال یہ ہے کہ جب بھی صوتی آلودگی کا سوال کھڑا ہوتا ہے تو سب سے پہلے لوگوں کی نظر اَذان پر ہی کیوں پڑتی ہے۔ انہیں صوتی آلودگی پھیلانے والی دیگر چیزیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ ظاہر ہے یہ سب کچھ اسلاموفوبیا کے شکار، فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کی جانب سے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے اور یہ کارروائی جس ا نداز میں صرف مسجدوں کے خلاف انجام دی جاتی ہے، اس سے انتظامیہ اور پولیس کا متعصب کردار بھی اجاگر ہوتا ہے۔صرف اَذان سے ہی شہریوں کی نیند میں خلل کیوں پڑتا ہے۔ رات کو دیر گئے تک عبادت گاہوں سے بھجن، کیرتن ، آرتی اور کتھا کے دوران ہونے والے شور و غل سے انہیں پریشانی کیوں نہیں ہوتی؟ بعض اوقات ہماری بھی کئی راتیں اس طرح کی صوتی آلودگی کی نظر ہوئیں۔ جو کہ صوتی آلودگی noise pollution کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ہم نے بھی صبح صبح مکان سے قریب کے عبادت گاہوں سے گھنٹیوں کی بے ہنگم آوازیں سنی ہیں اور سن رہے ہیں۔ میں نے بمبئی کے ایسے علاقے میں بچپن سے جوانی گزاری ہے جہاں ہمارے گھر کے بالکل سامنے بڑا جَین دراسر (مندر)!، پیچھے بڑا سا ساؤتھ انڈین کرشنا مندر!! دن رات وہاں سے بھجن، کرتن اور گھنٹیوں کی آوازیں آتی تھیں۔ لیکن اب یہاں نہ کوئی عدالت صوتی آلودگی کی بات کرے گی اور نہ کوئی حکومت یا ان کے سیاسی اندھ بھکت اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔وشو ہندو پریشد کے سنٹرل کمیٹی کے رکن وینکٹیش نے اخبارنویسوں سے کہا تھا کہ ”پورے سال مسجدوں سے لاؤڈ سپیکر پر اَذا ن دی جاتی ہے اور اس سے سال بھر صوتی آلودگی ہوتی ہے، لیکن جب جب ہ دو تہوار آتے ہیں، گنپتی اور نوراتری وغیرہ، تب کچھ لوگ عدالت میں چلے جاتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ہندو تہواروں سے صوتی آلودگی ہوتی ہے
”۔ یعنی یہاں صوتی آلودگی کا اعتراف کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا اعتراف کرکے عدالت میں درخواست دائر کرنے والے مسلمان نہیں ہیں، بلکہ غیر مسلم حضرات ہی ہیں۔ گجرات ہائی کورٹ نے بھی کہا کہ ”مندر کی آرتیوں سے صوتی آلودگی کا سبب نہ بنیں”۔جب سیاسی جلسے اور سیاسی جماعتوں کی ریلیاں ہوتی ہیں تب صوتی آلودگی نہیں پھیلتی؟ جن کی تشہیری مہم عوام کے لئے اذیت ناک اور خطرناک حد نقصاندہ ہوتی ہیں۔ یہاں صوتی آلودگی کا واویلا کرنے والوں کی سماعت کیوں فناء ہوجاتی ہیں؟میرے خیال میں جتنی تکلیف لوگوں کو اَذان کی آواز میں نہیں ہوتی ہے اس سے کئی زیادہ تکلیف اَذان پر پابندی عائد کرنے والے متعصبانہ ذہنیت رکھنے والوں کے الفاط اور بیان بازی سے ہوتی ہیں۔
لاؤڈ اسپیکرز پر اَذان تنازعہ:
موجودہ سرکار کے بھارت میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا ہے اور مذہبی آزادی کو سلب کرلیا گیا ہے۔ حجاب پر پابندی، حلال اشیاء پر پابندی کے بعد اب مسلمانوں کو مساجد سے اَذان دینے سے بھی روکا جا رہا ہے۔بھارت میں لاؤڈ اسپیکر پر اَذان دینے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق ضلع رتلام میں مذہبی انتہاء پسندوں نے مسجد کی انتظامیہ کو لاؤڈ اسپیکر پر اَذان دینے سے روک دیا، اس پابندی پر عمل نہ کرنے کی صورت میں لاؤڈ اسپیکر پر میوزک چلانے کی دھمکی دے دی۔ ملک کے مختلف تھانوں میں لاؤڈ اسپیکر پر پابندی کے لیے میمورنڈم جمع کئے گئے۔ جنہیں بنیاد بناکر communal disharmony پیدا نہ ہو، اس کے لئے مساجد سے جبراً لاؤڈ اسپیکرز اتارے جارہے ہیں۔
کورٹ کی ایک بینچ نے بھی مذہبی مقامات پر بغیر اجازت لگے لاؤڈ اسپیکروں کو اتار ے کا حکم دیا تھا۔ بینچ نے صوتی آلودگی کو روکنے کے لئے یہ حکم نامہ جاری کیا تھا۔ شاید مذہب کی حیثیت سے مذہب اسلام کو ہی مانا جاتا ہے اس لئے کاروائیوں کے گھیرے میں مساجد ہی رہی۔
ملکی ریاست مدھیہ پردیش کے سب سے بڑے اور زیادہ آبادی والے شہر اندور میں مذہبی انتہاء پسند وکیلوں نے صوتی آلودگی (noise pollution) کو بہانہ بناتے ہوئے ریاست کے وزیر داخلہ سے اَذان پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اندور میں ہی کچھ شرپسند عناصر نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ ہونے والی اَذان کی مخالفت میں لاؤڈ اسپیکر پر ہنومان چالیسہ پڑھا، ان کا کہنا ہے کہ جب تک مساجد سے لاؤڈا سپیکر نہیں ہٹائے جاتے، ہم لاؤڈا سپیکر کے ذریعہ ہنومان چالیسہ پڑھتے رہیں گے۔
جہاں تک صوتی آلودگی کا تعلق ہے تو یہ صوتی آلودگی صرف مذہبی عبادت گاہوں میں استعمال ہونے والے لاؤڈ اسپیکر سے نہیں بلکہ سیاسی، سماجی تقریب، شادیوں میں بجنے والے ڈی جے، بینڈ باجے اور گاڑیوں سے بھی صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔
ملک کی ریاست اتراکھنڈ میں لاؤڈ اسپیکر پر اَذان دینے پر 7؍ مساجد کو پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسی اتراکھنڈ میں ہی ایک یاترا میں لاؤڈ اسپیکر کی آواز بڑھانے کی منظوری دی گئی تھی اور یہ آواز نصف کلو میڑ دور سے بھی صاف سنائی دے رہی تھی، جس پر انتظامیہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ محض دو منٹ تک جاری رہنے والی اَذان پر پانچ پانچ ہزار جرمانہ عائد کیا گیا۔ قانونی کاروائی صوتی آلودگی کے ضابطے اور کنٹرول ایکٹ 2000 میں طے شدہ معیارات کے مطابق ہونا چاہیے۔
بقول اکبر الٰہ آبادی ؎
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھا نے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ملکی نصاب میں اَذان کو صوتی آلودگی بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کونسل فار دی انڈین اسکول سرٹیفکیٹ ایگزامنیشنز (سی آئی ایس ای) کے ماتحت اسکولوں میں چھٹی جماعت کے طلبہ کو پڑھائے جانے والی سائنس کی ایک کتاب میں طلبہ کو صوتی آلودگی ایک تصویر کے ذریعے سمجھا ے کی کوشش کی گئی ہے۔ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ جہاز، ٹری ، کار اور مسجد سے شور شرابے کی لہریں اٹھ رہی ہیں، جو صوتی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق اس تصویر کے ساتھ سبق میں واضح کیا گیا ہے کہ شور شرابے کی آلودگی کن چیزوں سے اٹھتی ہیں اور اس سے لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں۔ جب نصابی کتابوں سے تربیت یافتہ بچے نکلیں گے تو ایسی ہی خبریں اخباروں کی زینت بنے گی کہ ”ہندو تنظیموں نے احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے مساجد سے لاؤڈ اسپیکرز ہٹانے کی مہم تیز کردی”۔ بچپن سے بچوں کے ذہنوں میں نفرت کے جو بیج بوئے جارہے ہیں، اس کے نتائج بھی بہت خطرناک ہوں گے۔ نماز کے لیے اَذان نسل پرستوں سے پہلے بھی تھی اور یہ نسل پرستوں کے بعد بھی رہے گی۔
اس بات کا احساس دلایا جارہا ہے کہ تمام رہائشی علاقوں میں رات 10؍ بجے تا صبح 6؍ بجے تک لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صوتی آلودگی قوانین کے پیشِ نظر حسبِ سابق ممنوع رہے گا، کیوں کہ نیند بنیادی انسانی حق ہے جس میں خلل ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں۔
جس مسجد کو لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی تحریری اجازت پہلے سے حاصل نہیں ہے وہاں لاؤڈ اسپیکر سے اَذان غیر قانونی ہے، یہ کورٹ اس کی تصویب نہیں کرسکتی، ہاں بغیر لاؤڈ اسپیکر کے میناروں پر سے اَذان دی جا سکتی ہے۔
صوتی آلودگی کے دیگر ذرائع:
شہروں میں موجود ایئرپورٹ اور اسٹیشن، شادی بیاہ یا تفریحی تقاریب، میلے، مذہبی جلسوں و مشاعروں میں بجائے جانے والے بینڈ، باجے، قوالیوں اور گانوں کی ریکارڈنگ کا شور اور ان میں بے دریغ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی وجہ سے صوتی آلودگی عروج پر ہے۔ اسی طرح صوتی آلودگی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے موجودہ دور کے پُر تعیش ٹیلی ویژن، میوزیکل آلات یا ڈی جے، آتش بازی بھی ہیں۔ صنعت و حرفت کے بے جا استعمال سے بھی صوتی آلودگی کثرت سے بڑھ رہی ہے۔
شادی بیاہ یا کسی بھی طرح کی مسرت کی تقاریب و تفریحی پروگرام صوتی آلودگی کے بغیر ہونے کا تصور پایا ہی نہیں جاتا۔ صوتی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ شادی خانے ہوتے ہیں، اکثر جو انسانی آبادیوں کے درمیان میں ہیں ان کے قرب و جوار میں بسنے والے انسان بڑے کرب سے گزرتے ہیں۔ جس کا شکار میں خود بھی ہوں، میرے گھر کے قریب 7؍ شادی خانے ہیں۔ ڈی جے بجا کر کانوں کے پردوں کو باقاعدہ پھاڑنے کا عمل ہے۔ گھروں کے برتن کے ساتھ بعض اوقات تو دیواریں بھی رقص کرتی ہیں۔
شہری آبادیوں میں کئی قسم کے شور ہیں جس میں انسان اپنی زندگی کا سفر طے کررہے ہیں، بے ہنگم ٹریفک، موٹر، ریل گاڑیوں، کاروں، فیکٹریوں، کارخانوں، مشینوں اور ہوائی جہاز وغیرہ سے پیدا ہو ے والا شور غیر محسوس طور پر انسانی صحت کے ساتھ حیوا نات وغیرہ کی صحت پر بتدریج اثر انداز ہے۔
ہوائی اڈے شہری آبادیوں سے بہت دور بنائے جاتے ہیں، کارخانوں اور فیکٹریوں وغیرہ کے قیام کی شہری آبادیوں میں قانوناً اجازت نہیں دی جاتی، آبادیوں سے باہر ہی ان کے قیام کی صورت میں اجازت نامہ منظور کیا جاتا ہے، اب رہا انسانوں کی ضرورت کی سواریاں جیسے موٹر سائیکل، کاریں، لاریاں، ٹرالے، جنیریٹر وغیرہ اس سے خارج ہونے والی بڑی آواز صوتی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ کیا ان تمام چیزوں کو ممنوع قرار دیا جائے گا؟
صوتی آلودگی کے نقصانات:
صوتی آلودگی کی وجہ سے ا نسانوں کے آرام اور ان کی نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے، بیماروں اور ضعیفوں کے ساتھ صحت مند افراد کیلئے بھی یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ اس غیر فطری شور شرابہ کی وجہ شہریوں کو جس کربناک صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا، سماج کی اس بے حسی پر خون کے آنسو روئے جائیں تو کم ہے۔ مزید ایسے مواقع پر آتش بازی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ نیز دیوالی کے تہوار پر آتش بازی بھی محلِ نظر ہے۔
صوتی آلودگی کا بہت عرصے تک سامنا صحت کے لیے بتدریج نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے مہلک امراض و لاعلاج بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برین ہیمبریج، ہائیپر ٹینش ، فالج، ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر، تولیدی صلاحیت کا کم ہونا، شوگر، قلبی و اعصابی امراض جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اس کے علاؤہ نفسیاتی طور پر غصّہ، نفرت، چڑچڑاپن، جارحیت، بے خوابی، بدہضمی، سستی، تھکن، بے توجہی، عدمِ دلچسپی، ذہنی دباؤ اور غائب دماغی جیسی خرابیاں ظہور میں آرہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایشیائی ممالک کی بہ نسبت یورپی ممالک میں ہر تیسرا فرد صوتی آلودگی میں ٹریفک کے شور کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق صوتی آلودگی سے نیند کے مسائل کے ساتھ ساتھ موٹاپے کا مسئلہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شور میں رہنے والے افراد جسما ی بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔
صوتی آلودگی کی وجہ سے بھیانک و پُرخطر نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کسی بھی قسم کا شور و غل ہماری قوتِ سماعت پر منفی اثر مرتب کرتا ہے۔ جسے دوسرے الفاظ میں صوتی آلودگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق پریشر ہارن اور ٹریفک کے شور سے دنیا بھر میں تقریباً 12؍ کروڑ لوگ مختلف سماعتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے شور اور ہارن بجانے کی متواتر عادت سے انسان کی قوت سماعت پر گہرا اثر پڑا ہے اور گزشتہ 10؍ برسوں کے دوران کم سننے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
اگر صوتی آلودگی کے نتیجے میں اَذا ن کو مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز سے دینا ممنوع قرار دیا جارہا ہے، تو وہ عبادت خانے جہاں صوتی آلودگی کے ہر وہ آلات نصب ہیں، جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے، انہیں بھی ممنوع قرار دے کر ہٹایا جائے۔ لیکن اگر دیگر معبود خانوں سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹتا ہے تو، مسجدوں سے ہی نکالنے کے لئے خوف و دہشت کا ماحول کیوں پیدا کیا جارہا ہے؟
ایسے میں مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر لگائے گئے قدغن کی وجہ سے بہت سارے اعتراضات و سوالات ذہنوں میں اٹھتے رہتے ہیں۔ آخر ہم کب تک defencive approach استعمال کرتے رہیں گے، کیوں ہم offensive approach استعمال نہیں کرتے۔ اہل اسلام کے عقائد کو متزلزل کرنے کی مسلسل ناکام کوششیں جاری ہے اور ایسے میں اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو روز محشر اللّٰہ کے حضور کیا جواب دیں گے۔
جہاں مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز پر بندش لگائے وہیں دیگر مذہبی و غیر مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا حکم دے، نیتاؤں کے بھاشنوں، میلوں اور مذہبی تہواروں میں ڈی جے پر بندش لگائی جائے۔
اگر کسی کو بے وقت نیند پر تین منٹ کی اَذان شاق گزرتی ہے تو ہم دوسروں کے شب بھر کے بے ہنگم بھجن کو کیوں جھیلیں؟
جن لوگوں کا سارا نظام اور پورا مذہب آج کل کے سی ڈی یا پین ڈرائیو میں بند ہے، یہ اسے بجا کر، فحش قسم کے گانے، مذہبی افسانے اور عجیب و غریب قسم کے mythological قصّے سنا کر ہی پُنیہ کماتے اور لوگوں کی عقیدتیں بٹورتے ہیں۔ اگر وہ ہماری اَذانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو پھر ہم بھی کیوں مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے پھریں؟
متعصبا نہ ماحول:
حالیہ برسوں میں عدالتوں کے اکثر و بیشتر فیصلوں میں ایک عجیب رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ فلاں چیز اسلام کا حصّہ/ لازمی حصّہ نہیں، لہٰذا اس پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اسی طئے شدہ عجیب رحجان کا نمونہ اَذان کے ضمن میں بھی نظر آرہا ہے۔ ہر بار یہی دلیل دی جاتی ہے کہ نماز کے لیے اَذان تو ضروری ہے، لیکن اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ضروری نہیں ہے۔ کئی معاملات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اسی بنیاد پر عدالتیں اسلامی چیزوں پر مکمل پابندی لگا دیتی ہے یا محدود کر دیتی ہے، تازہ مثال الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اَذان اسلام کا حصّہ ہوسکتی ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر سے اَذان اسلام کا حصّہ نہیں ہے”!! اور اسی بنیاد پر پہلے سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا اجازت نامہ نہ رکھنے والی مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر سے اَذا ن کو غیر قا نونی قرار دے دیا گیا، جن مسجدوں کو پہلے سے اجازت ہے وہ بھی صوتی آلودگی کے قوانین کے مطابق ہی لاؤڈ اسپیکر استعمال کر سکتی ہیں!
بغیر لاؤد اسپیکر کے اَذان اسلام کا لازمی جز اور دستورِ ہند کی دفعہ 25 کے ذریعے دیا گیا بنیادی حق ہے، اسے نہیں روکا جا سکتا۔ لاؤڈ اسپیکر سے اَذان اسلام کا لازمی حصّہ نہیں، اس لیے صوتی آلودگی قوانین کے مطابق اس پر فیصلہ کیا جائے گا اور بغیر پرمیشن کے کہیں بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع رہے گا۔
بقیہ اذان
اگر ہمارا ملک جنگل راج یا اسٹیٹ ٹیررازم کا شکار نہیں ہے تو، آئینی عدالت کو ملک میں لگائی جانے والی اسلام مخالف پابندیوں اور سازشوں کا ایمانداری سے جائزہ لینا چاہیے۔ ملک میں مسلمان ایک مذہبی اقلیت سہی لیکن تمام شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق یکساں ہیں۔ ملک کے مسلم اقلیتی باشندوں کو بھی وہی اور اتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے کہ غیر مسلم اکثریتی باشندوں کو۔ حالانکہ بھارت میں مسلمان مذہبی سطح پر دیکھا جائے تو ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہے۔ یہ حقیقت ہے، جس کا اعتراف لوگوں نے عدالتوں میں کیا ہے۔
مسلسل قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نفرت و عداوت کی زندگی بسر کرنے والا ٹولہ، لا قانونیت کا شکار انتہاء پسند مذہبی گروہ ایک مرتبہ پھر اسلاموفوبیا کے بخار اور اقتدار کے نشے میں چور ہونے کی وجہ سے بے قابو ہوگیا ہے، لاؤڈ اسپیکرز پر اَذا ن پر اعتراض، ڈریس کوڈ کی آڑ میں حجاب پر حملہ، طلاق ثلاثہ کے ذریعے مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مداخلت، نمازوں کی ادائیگی پر ہنگامہ، حلال گوشت پر تنازعہ، خوف و دہشت کے ذریعے مساجد اللّٰہ پر غاصبا ہ قبضہ، شہریت بل، مسلمان مخالف پراپیگنڈا جاری رکھتے ہوئے اب لاؤڈ اسپیکر پر اَذان دینے پر پابندی کی مہم شروع کر دی ہے۔ ہر بات میں تعصب سے کام لینا اور دوسروں کی صحیح اور درست باتوں کو بھی غلط ٹھہرانا عقل مندوں کا شیوہ نہیں۔
اَذان کو ایسے کسی معمولی سبب سے ترک کر دینا ہرگز جائز نہیں۔ مسلمانوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اسلام کے شعائر کو باقی رکھنے میں ہر ممکن کوشش کریں۔ اَذان ترک نہیں کی جاسکتی ہے مگر آواز کے پیمانے پر غور و خوص کیا جاسکتا ہے۔ آواز کی سطح کو محیطی ہوا کے معیار کی حدود میں رکھا جا سکے اس کے لئے کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ بات لاؤڈ اسپیکرز اتارنے کی نہیں ہونا چاہئے، بات اس کے احتیاطی استعمال پر ہونا چاہیے۔ بات پابندی پر نہیں آواز کو دھیمی کرنے پر ہونا چاہیے۔
ہماری عدالتوں کو اَذان کے تنازعہ کے ضمن میں دنیا کی دوسری عدالتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ جرمنی کو دیکھئے جہاں اَذان پر پابندی لگانے سے انصاف پسند عدالت نے ا کار کردیا۔ عدالت میں پریسائیڈنگ خاتون جج اننٹے کلین سچنٹگر نے کہا کہ سماج کے ہر گوشہ کو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جب کسی مذہب پر عمل کرنے کی پابندی نہیں ہے تو اس مذہب کے خلاف شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
اسی کے ساتھ ہمارے یہاں بھی ایک اچھی بات ہوئی کہ پرمود تیواری وغیرہ نے مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مانگ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس ا نیرودھ مئے کی ڈویژن بنچ نے اَذان کے متعلق حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشق، جو دن بھر میں تقریباً 10؍ منٹ تک جاری رہتی ہے، صوتی آلودگی میں حصّہ نہیں ڈالتی اور یہ بھی ریمارک کیا کہ مندروں میں بھجن اور آرتیوں کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بھی بجائی جاتی ہے۔ ”ان ڈھول اور موسیقی کے ساتھ صبح کی آرتی صبح سویرے شروع ہوتی ہے”، چیف جسٹس نے کہا، لائیو قانون کے مطابق۔ ”کیا اس سے کسی کے لیے شور نہیں ہوتا؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ گھنٹہ اور گھنٹیوں کا شور صرف مندر کے احاطے میں ہی رہتا ہے؟ کیا یہ احاطے سے باہر نہیں نکلتا؟
تجزیہ کار اور سپریم کورٹ کے وکیل و تجزیہ کار رویندر کمار جو ایک سماجی تنظیم راشٹریہ مکتی مورچہ کے صدر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ صوتی آلودگی (noise pollution) نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا پولیس کے پاس نوائز پولیشن ناپنے کا آلہ ہے؟ مزید کہتے ہیں یہ ‘صوتی آلودگی’ کے بجائے دماغی آلودگی کا مسئلہ ہے۔ رویندر کمار کے خیال میں اس مہم کے پیچھے حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔
اللّٰہ ربّ العزت نے اَذان کے ساتھ استہزاء کی خاص طور پر قرآن مجید کی سورۃ المائدہ میں نشاندہی فرمائی ہے۔ وَإِذَا نَادَیْْتُمْ إِلَی الصَّلاَۃِ اتَّخَذُوہَا ہُزُواً وَلَعِباً جب تم نمازوں کے لیے پکارتے ہو یعنی اَذان دیتے ہو، تو یہ لوگ اسے ٹھٹا اور کھیل بناتے ہیں۔ ٹھٹا کرنا جاہلوں اور بیوقوفوں کا کام ہے کوئی شریف آدمی کسی سے استہزاء نہیں کرتا جب انسان ایک دوسرے سے تمسخر نہیں کرسکتے تو اَذان یا کسی دیگر شعائر اللّٰہ سے تمسخر کرنا تو بطریق اولیٰ حرام ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے‘ کہ مدینے کے ایک نصرانی کو اَذان سے بہت چڑ تھی۔ جس وقت مؤذن کہتا اشھد ان محمد الرسول اللّٰہ تو وہ بد بخت بدعا کرتا احرق اللّٰہ الکاذب (جھوٹا جل جائے) جھوٹا تو وہ خود ہی تھا اللّٰہ نے اس کی دعا اس طرح قبول کی کہ ایک دن اس کی لونڈی گھر میں آگ لائی۔ اس کی چنگاری کسی چیز پر گر گئی جس سے سارے مکان کو آگ لگ گئی اور وہ نصرانی وہیں جل کر راکھ ہوگیا۔ اللّٰہ نے اسے گستاخی کی سزا دیدی۔ اَذان کے کلمات میں عقیدۂ توحید و رسالت اور اللّٰہ کی عظمت کا اقرار ہے‘ ایسی بے مثال عبادت کا تمسخر اڑانا بہت بری بات ہے۔
Post Views: 366