خان شبنم فاروق
یہ جملہ نہ کسی عام شخص نے ادا کیا ہے اور نہ ہی کسی عام شخص سے کہا گیا ہے ۔یہ جملہ دیبل (محمد بن قاسم کا مفتوح علاقہ جو کراچی سے 37 کلومیٹر دور بھمبھور میں پایا جاتا تھا) کے ایک پروہت نے ایک سترہ سالہ سپہ سالار سے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر ادا کیا تھا ۔ واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ عرب کے کچھ جہازوں پر سندھ کے حکمران (داہر راجہ) نے ناجائز قبضہ کرلیا ۔ جہاز کےمسافروں کو قیدی بنالیا گیا اور عورتوں کا استحصال کیا گیا ۔ ان قیدیوں میں عظیم مجاہد ابوالحسن کی بیٹی ناہید بھی شامل تھی ۔ ناہید نے اپنی روداد کسی طرح اپنے چچا حجاج بن یوسف کو پہنچائی جس کے نتیجہ میں سترہ سالہ نوجوان مجاہد کو سپہ سالار منتخب کرکے بارہ ہزار سپاہیوں کے لشکر نے سندھ پر ظلم کا تختہ پلٹنے کی غرض سے سندھ روانہ ہوئے ۔
ادھر سندھ کے راجہ نے بھی بیس ہزار سے زائد کی فوج تیار کرچکا تھا ۔قصہ مختصر، گھمسان جنگ کے بعد سترہ سالہ نوجوان کے لشکر کو فتح حاصل ہوئی۔سندہ کو فتح کرنے کے بعد اسیران قیدی کی حالت دگرگوں تھی کیوں کہ سندھی ہندؤں نے عرب کے قیدیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے ۔اب راجہ کے قیدیوں نے یہ توقع کی تھی کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جایں گے ۔ ہماری بھی عورتوں کی عزت پامال کی جاے گی اور ہمارے بچوں کو جانوروں کے آگے ڈال دیا جاۓ گا ۔لیکن اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب سترہ سالہ نوجوان سپہ سالار دوڑ دوڑ کر مخالفین کے زخمی سپاہیوں کو مرہم پٹی کررہا تھا ۔ انہیں مشکیزے میں پانی بھر بھر کر لاکر دیتا ۔راجہ کے سپاہی جو اب قیدی تھے وہ اس نوجوان کو داتا کہہ کر مخاطب کرنے لگے جبکہ عوام اسے بھگوان کا کوئی اوتار سمجھنے لگی ۔ جب یہ سترہ سالہ نوجوان نے تمام سپاہیوں کی رہائی کا اعلان کیا تو سارے قیدی دم بخود رہ گئے ۔ قیدی آنکھیں پھاڑے اس رحم دل مجسمہ کو دیکھنے لگے جس کی آنکھیں حیا کا پیکر چہرے پر سورج سا جاہ و جلال اور پیشانی پر نور پھوٹتا ، جبکہ اس کی طرف دیکھنے سے عجیب ایک رعب طاری ہوجاتا تھا۔ اسیران قیدی میں سے اس رحم دل مجسم کے آگے کئی سندھی ہندؤں نے اسلام قبول کرلیا اور جہاد میں شامل ہوگیے ۔اسی دوران ایک کمسن لڑکی چیختے چلاتے ہوئے اس سپہ سالار کے پیروں کے پاس آکر بیٹھ گئی اؤر روتے ہوئے اپنی پامال عزت کی بپتا سنانے لگی ۔ جبکہ پیچھے سے دیبل کا پروہت دونوں ہاتھوں کو جوڑتے ہوئے حاضر ہوا اور کہنے لگا ” ان داتا اسے انصاف دلایے”،
” ۔۔اس سترہ سالہ نوجوان کی آنکھیں سرخ ہوگئی ۔۔اس نوجوان نے کہا خدا کی قسم اگر یہ میرے کسی سپاہی نے کیا ہے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاے گا ” ۔ پروہت نے کہا "نہیں نہیں ان داتا ، آپ کے سپاہی تو ہمارے لیے بگھوان بن کر آے ہیں ۔یہ نیچھ حرکت دیبل کے حکمران کے ایک حاکم نے کی ہے اور اس مظلوم لڑکی کا باپ دیبل کا گورنر تھا اسے قید کردیا گیا ہے ۔ یہ الفاظ سننا تھے کہ سترہ سالہ نوجوان نے بھپر کر کہا "اس ظالم کا ظلم انصاف تک ضرور پہنچے گا ” ۔
اب میں یہاں اس نوجوان کا نام ذکر کرنا چاہوں گی جس کے جاہ و جلال کا یہ عالم تھا کہ حجاج بن یوسف جو اپنے جلال میں عظیم المرتبت اور منفرد مقام رکھتا تھا جس سے دشمن تو دشمن دوست بھی تھرایا کرتے تھے ، وہی اس نوجوان سے حجاج بن یوسف متاثر ہوکر اسے سترہ سالہ عمر میں سپہ سالار منتخب کرکے جہاد کےلیے روانہ کرتے ہیں ۔یہ عظیم مجاہد کوئی اور نہیں بلکہ محمد بن قاسم رحمتہ ﷲ علیہ ہیں ۔جن کے دیدار کےلیے عظیم روحانی شخصیت عمر بن عبدالعزیز نے طویل انتظار کیا تھا ۔ یہ ہیں ہمارے اسلاف کا جذبہ تھا اور یہ تھی ہماری غیور قوم ، جس نے ایک ہندو لڑکی کی ایک آہ پر لبیک کہا ۔ ایسے ہزاروں واقعات ہمیں اپنی تاریخ میں رقم ملیں گے۔ جب جب ظلم و جبر کا طوفان برپا ہوا اسے کسی قاسم ، صلاح الدین ایوبی ، خالد ، بدر بن مغیرہ ، کمال پاشا، حجاج بن یوسف ، یوسف بنتاشفین ٹیپو سلطان جیسے مجاہدین نے اپنے تلوار اور کراد کی یلغار سے ختم کیا ہے ۔
آج پوری دنیا میں مسلم ممالک کی صورت حال قابل بیان نہیں ہے ۔ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے ۔ فلسطین میں ہزاروں کی تعداد میں ناہید جیسی خواتین کا استحصال ہوچکا ہے ، لاکھوں کی تعداد میں شہادت ہوچکی ہے ۔ برما کے کروڑوں مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی، انہیں موت اور قید کے حوالے کردیا گیا ،جبکہ ایغور مسلمانوں کو سرِے سے انسانی حقوق حاصل ہی نہیں ، وہیں کمیٹی (UNCERD) کی ایک رپورٹ کے مطابق قازق ، ازبک ، تاجک ، تاتار ، تہور ، روسی مسلمانوں کو چین نے حراستی کیمپوں میں قید کیا ہے ۔آے دن مغربی ممالک میں قرآن کی بے حرمتی اور مسجدوں پر پتھراؤ کیا جارہا ہے ۔ حجاب پر سختی سے پابندی عائد کی جارہی ہے ۔لیکن نہ کسی عرب کا خون خولتا ہے اور نہ ہی کسی عجمی کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہوتی ہیں ۔ بلکہ مغربی ممالک کی اندھا دھند تقلید میں امن و سلامتی کا دم بھرا جارہا ہے ۔۔ مسلمانان عالم یہ بات ذہن میں پیوست کرلے ظالم کے ہاتھ کاٹے بغیر ظلم کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ہم اس امن وسلامتی کے خاطر آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم نے اپنی مقدس کتاب حیات سے جہاد کا لفظ ہی نکال دیا ہے یاد کرو بنی اسرائیل کی قوم کو ۔وہ بھی ﷲ کی لاڈلی امت تھی لیکن جب سرکشی بڑھ گئی اور کہنے لگے جہاد ﷲ اور اس کے رسول کرے تو ﷲ نے انہیں اس دنیا میں ہی اس کی سزا دے دی ۔یہ زمین ان پر تنگ ھوگئی۔ اس وسیع و عریض زمین پر لاورثوں کی طرح پھرتے رہے۔
ہم امت محمدیہ کو اس سے عبرت حاصل کرنا چاہیے لیکن ہم اپنی الگ دیڑھ انچ کی مسجد میں خوش ہیں ۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا مسلمانوں کی خواتین کا استحصال ہو یا نوجوانوں کو زمین دوز کیا جائے ۔ ہمارے دل تو تب بھی نہیں لرزتے جب مقدس کتاب کو اچھالا جارہا تھا ۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔اور ہو بھی کیسے ﷲ کسی کی مدد اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ اپنی مدد آپ کےلیے نہ کھڑا ہو ۔ہم کسی مجاہد کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ہم پروہت کی طرح کسی محمد کے انتظار میں ہے کہ وہ اے گا اور ہمارے مخالفین کے جبر سے ہمیں آزاد کراۓ گا ۔یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خود ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے ۔ایک مسلمان کو موت سے نہیں ڈرنا چاہیے موت ایک مسلم حقیقت ہے اسے بدلہ یا ٹالا نہیں جاسکتا۔لہذا ذلت کی موت سے عزت کی موت کا انتخاب پسند کرو۔اٹھ کھڑے ہو اس طوفان کے مخالف جس میں کروڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ کم از کم اپنے ہندوستان میں تو حق کی آواز ہم اٹھا سکتے ہیں ۔یہ کوئی جذباتی تقریر کا پہلو نہیں ہے اگر آج بھی ہوش کے ناخن لیں اور حکمت عملی اپنایں تو یہ ظلم کا بڑھتا جبر ختم کیا جاسکتا ہے ۔لہذا اول اپنے بچوں ، نوجوانوں میں اسلاف جیسا ایمان پیدا کرنے کےلیے فلموں ، ڈراموں سے ہٹا کر انہیں مجاھدین کے قصے ذہن نشین کیے جایں ۔ اگر ہمارے نوجوان میں اطغرل ڈرامہ دیکھ کر جوش پیدا ہوسکتا ہے تو مجاھدین کے کارنامے انھیں حکمت و دانائی بھی عطا کرسکتی ہے ۔ قرآن کو رٹانے کے بجاے اس کی حرف حرف فہمائش کی جاۓ۔جب قرآن کے الفاظ دل میں اترے گے۔ تب کسی نوجوان کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے اور کیا نہیں ۔وہی علماء کرام فرقوں کی بندش توڑ دیں ۔ خدا کےلیے جو قوم کا شیرازہ بکھرا ہو وہ کبھی غالب نہیں ہوسکتی ہے ۔ ہمارا مقصد اسلام کا غلبہ ہونا چاہیے کسی فرقہ کا نہیں ۔ آج فرقوں کی بدولت ہی ہم جانوروں کی طرح بکھرے پڑے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر کوئی ہم پر حملہ آور ہے ۔ آج ہم کس محمد سے کہہ کے "ہمیں انصاف دلایے ". آج کوئی محمد بن قاسم نہیں جو ہماری آہ کو سنے ۔اے مسلمانوں آج ہم اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ ہمیں صرف اور صرف عزت کی موت کا انتخاب کرنا ہے اور عزت کی موت سے مراد ہمیں حق کے خلاف آواز بلند کرنی ہے چاہے وہ قانونی شکل میں ہو یا پھر تلوار کی شکل میں ۔ اگر ہجومی تشدد کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے تو اس کا حل اب تک ہم نے کیوں نہیں نکالا۔اگر ہم اس فراق میں بیٹھے ہیں کہ حکومت اس سے متعلق کچھ پالیسی یا قانون نافذ کرتی ہے تو یہ ہماری خامخیالی ہے مختلف ذرائع کےمطابق اب تک 50000 ہزار سے زائد مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہوچکے ہیں ۔اگر یہ ظالم اپنے اصول خود مرتب کرسکتے ہیں تو ہم عقل سے پیدل کیوں بنے ہیں ہم کیوں نہیں اس کے خلاف کچھ اصول بنائے ۔ہم کیوں خاموشی سے قتل کا تماشا دیکھے ۔ ہم مصلحتوں کے راگ الاپنے میں بضد ہیں اور جابر ہمارے نوجوانوں اور عورتوں پر جبر کرنے پر بضد ہیں ۔آخر کب تک ہم بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے ۔ یہ مظاہرے ، احتجاج سواۓ ڈھونگ کے کچھ نہیں ، آپ اپنا حقیقی کردار ادا کرے قانونی چارہ جوئی کا سہارا لے اگر تب بھی بات نہ بنے تو دشمن کو زمین دوز کرکے اپنا فریضہ انجام دے ۔ یہ ہے عزت کی موت کا راستہ جو ہم نے فراموش کردیا ہے ۔ موت تو آنا ہی ہے کیوں نہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوکر موت کی بازی لگائیں۔