انسان کی پہچان اچھا لباس نہیں اچھا اخلاق ہوتا ہے!

0
0

زاہدہ خانم سرنکوٹ پونچھ

اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں ۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل شئے اخلاق ہے۔اچھے اور عمدہ اوصاف و ہ کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا، اس میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات،اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتی ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اُس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ یہ منظر آپ اِس وقت دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہا ں ہے اور ذلت و رسوائی کہاں ہے
اخلاقیات ہی انسان کو جانوروںسے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔ انسان کی عقلی قوت جب تک اسکے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے ، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔
اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیںاور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے ۔
اسلام میں ایمان اور اخلاق 2 الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتاب ِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( القلم4)۔
’’بے شک تم بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہو۔‘‘
اورایسا کیوں نہ ہو آپ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالک ِ خلق عظیم فرماتے ہیں ۔
’’میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(حاکم ، مستدرک)۔
یعنی میں اعلیٰ اخلاق کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپنا کر، اپنے اوپر نافذ کر کے تمہارے سامنے رکھنے اور ان کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
ہمارے آقا و مولا کی پوری زند گی پیکر ِ اخلاق تھی کیونکہ آپ نے قرآنی اخلاقی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر لیا تھا۔ آپ کا اخلاق قرآن کے احکام و ارشادات کا آ ئینہ تھا، قرآن کا کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کو آپ نے اپنی عملی زندگی میں نہ سمو لیا ہو۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیںنصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب21)۔
’’بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
ایمان و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی صحت اخلاق ہے بلکہ عبادات و تعلیمات اسلامی کا لب لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔
اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔
’’تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔‘‘
اخلاق کیا ہیں؟ نبی کریم نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری بد خوئی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔‘‘
یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے توتم اس کے جواب میں اسے دعا دو تو ایک دن اسے خود بخود شرم آئے گی کہ میں تو اسے گالی دیتا ہوں اور وہ مجھے جواب میں دعا دیتا ہے تو مجھے شرم آنی چاہئے کیوں نہ میں بھی اسے دعا دوں اور اس کی تعریف کروں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے جو میری گالی کے جواب میں دعا دیتا ہے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتا۔ اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقینا ایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا
جس کے اخلاق اچھے اسکی دنیا اور آخرت اچھی اچھا اخلاق انسان کو فرش سے عرش تک لے جاتا ہے جب انسان کے پاس اخلاق پیار اور محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے چاہیے انسان کے پاس باقی دنیا کی ہر چیز موجود ہے بد اخلاق انسان اپنے گھر کو تباہ کر دیتا ہے نئے رشتے بناناں تو دور کی بات ہے وہ اپنے خونی رشتوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
اچھا انسان اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے دوسرے انسان کو سکھ دے سکتا ہے اور اپنے اور دوسرے کی زندگی کو خوبصورت بنا سکتا ہے دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو ہمارے بد زبانی کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہیں اور کتنے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے ستانے کی وجہ سے دنیا چھوڑ کر چلے گئے ہیں خودکشی کا شکار ہوئے ہیں
یہ بات یاد رکھیں جتنی خودکشی کا گناہ ہے اتنا ہے اُس انسان کا گناہ ہے جو دوسرے انسان کو خود کشی پر مجبور کرتا ہے اگر آپ کسے سے دو الفاظ میٹھے بول دیں گے آپکے اُن دو لفظوں کی وجہ سے کسی کی زندگی بچ سکتی ہے اور آپکی دنیا اور آخرت بچ سکتی ہے گناہ سے کاش ہم جتناں دوسرے انسان پر طنز کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں اتنا اگر ہم دوسروں کو پیار دے دیتے تو ہماری دنیاں اور آخرت۔ خوبصورت ہو جاتی جب آپ اپنے اندر سے بد اخلاقی ختم کریں گے تو اخلاق بچ جائے جب آپ اپنے اندر سے نفرت ختم کریں گے تو پیار بچ جائے گا ہمدردی بچ جائے گی اور پھر اخلاق پیار محبت ہمدردی خدا تک لے کے جائے گا
بے شک ماں کے قدموں میں جہنت ہے لیکن بد اخلاق نہیں حاصل کر سکتا ہے بے شک خاوند کے قدموں میں جنت ہے لیکن بد اخلاق عورت کبھی حاصل نہیں کر سکتی بے شک دنیا بہت خوبصورت ہے لیکن اخلاق والے کے لئے!

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا