انتخاب ختم ہو ا ، اگزٹ پول ہوا مسترد

0
0

 

 

 

 

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
8969648799

سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں برسر اقتدار حکومت کے ذریعہ جمہوری قدروں کو پامال کرتے ہوئے

18 ویں لوک سبھا کا 80 دنوں تک چلنے والا عام انتخاب، جو ملک کے عوام کو ذہنی طور پر اور سیاسئین کو جسمانی طور تھکا دینے والا یکم جون کو ختم ہوا۔ اب سبھوں کونتیجہ کا انتظار ہے۔ 2024 ء کا یہ انتخاب کئی لحاظ سے معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی تھا ۔ اس انتخاب میں یہ دیکھا گیا کہ برسراقتدار پارٹی اور اس کی حکومت کے سربراہ نے ملک کے عوام کو اپنی دس برسوں کی حصولیابی بتانے سے گریز کیا اور ہندو مسلم ، رام مندرکی تعمیر، نفرت اور فرقہ پرستی بڑھانے ، ملک کی اکثریت کو اقلیت سے خوف زدہ کرنے ، حذب مخالف کے لیڈروں پر جارحانہ حملہ ،انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی دھمکی ، کانگریس کے منشور میں مسلم لیگ کے اثرات جیسے عامیانہ جملوں کے ساتھ ساتھ اپنی تقاریرمیں کبھی مچھلی ،کبھی مٹن ، منگل سوتر ، مجرا ، بھینس وغیرہ جیسے بہت سطحی قسم کے جھوٹے الزامات لگا کر ووٹوں کے پولرائز کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ ان کی ایسی ساری تقاریر اور انٹرویوز حقیقتاََ ایک وزیر اعظم کے وقار کے قطئی منافی تھے ۔جن پر سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک کے میڈیا نے بھی تنقید کی ہے ۔ لیکن عوامی طور پر وزیر اعظم کی ایسی بے تکی اور لایعنی باتوں کاکوئی بھی سنجیدگی سے اثر لینے کو تیار نہیں تھا ، بلکہ مذاق اڑایا گیا۔جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم کو ہر دن ایسے ایسے بیانات بدلنے پڑ رہے تھے ۔ سب سے بڑا المیہ ان کے ساتھ یہ ہو اکہ انھیں آدھی ادھوری رام مندر تعمیر سے اکثریت کے متاثر ہونے کی بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں، اس لئے ایک نعرہ یہ بھی دیا گیا کہ ’جو رام کو لائے ہیں انھیں ہم لائیں گے‘ ۔ ایسے نعروں کا بھی کوئی اثر ہوتا نہیں دکھا ۔ دراصل مودی کے بیانات میں اتنے زیادہ جھوٹ،فریب اور غیر سنجیدگی تھی کہ عوام ان باتوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوئی بلکہ الٹا اثر ہوتا دیکھاگیا ۔عوام کے بنیادی مسئلوں سے بے اعتنائی کے باعث مودی حکومت اور ان کی پارٹی نے عوام کی ہمدردی کھو دیا اور عوام کا اعتماد حزب اختلاف کے انڈیا اتحاد پربڑھتا گیا۔ انتخاب سے ٹھیک قبل الیکٹرول بونڈ جیسی حکومت کی بدعنوانی کا سپریم کورٹ نے پردہ فاش کر دیا تھا ۔ جس سے تلملائے ہوئے بی جے پی کے لوگ انڈیا اتحاد کے لیڈروں پر مسلسل بدعنوانی کے جھوٹے الزامات لگاتے رہے ، حالانکہ حزب مخالف کے لیڈران انھیں کمل چھاپ واشنگ مشین میں دھوئے گئے بدعنوانوںکو پارٹی میں شامل کئے جانے کی طویل فہرست کی یاد دلادلا کر شرمشار کرتے رہے ۔اس انتخاب میں انڈیا اتحاد بہت سنجیدگی اور دور اندیشی کے ساتھ میدان میں آئی ۔ وزیر اعظم کے جھوٹے اور بے تکے بیانات اور الزامات میں اپوزیشن اتحاد، الجھے بغیر عوام کے سامنے ان کے بنیادی مسائل کو فوقیت دیتا رہا اور بار باراس امر کا احساس کراتا رہا کہ انڈیا اتحاد کو آسمان چھوتی مہنگائی ، بے روزگاروں کو روزگار ، غریبوں، مزدوروں ، کسانوں کے بڑھتے مسائل کو ختم کرنے کا وعدہ ،خواتین کی محافظت ، ان کی اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کا وعدہ، یہ ایسے وعدے رہے کہ جن پر یقین نہ کئے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے بھی کہ کانگریس اور انڈیا اتحاد کی پارٹیوں نے ایسے وعدوں کو اپنی اپنی برسراقتدار ریاستوں میں پورا کر کے دکھا یا بھی ہے ۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ا س انتخاب میں مودی لہر کہیں نہیں دیکھنے کو ملی، بلکہ انڈیا اتحاد کی حمایت میں ملک کے عوام کوپورے جوش و خروش میں دیکھا گیا ۔اس وجہ کر عام طور پر یہ بات بھی کہی گئی کہ یہ انتخاب بی جے پی کے خلاف انڈیا اتحاد کے امیدواروں کے بجائے بلکہ عوام لڑ رے ہیں ۔ٹھیک اس کے برعکس ملک کے بیشتر پارلیمانی حلقوں میں این ڈی کے امیدواروں کو پوری طرح مسترد کئے جانے کابھی اندازہ اس طرح لگایا گیا کہ بیشتر پولنگ بوتھوں پر ایک جانب جہاں انڈیا اتحاد کے امیدواروں کے لئے جو جوش و خروش تھا ،پولنگ بوتھوں پر ان کے لئے جو بھیڑ تھی ۔اس کے برخلاف این ڈی اے کے لئے بہت زیادہ سرد مہری دیکھنے کو ملی اور این ڈی اے کے حمایتی پولنگ بوتھ تک جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ انتخاب کے ساتوں مرحلوں میں ایسا منظر نامہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں دیکھا گیا جس میں حکومت کے خلاف زبردست ناراضگی اور حزب مخالف سے حمایت کا رجحان تھا ۔ گرچہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مختلف پولنگ بوتھوں پر حکومت کے اشاروں پر انڈیا اتحاد کے ’کپڑوں سے پہچانے جانے والوں ‘ ووٹروںکو زد وکوب کیا گیا ۔ خلاف قانون پولیس والوں نے ووٹ دہندگان سے ان کے ووٹرس کارڈ چیک کئے جارہے تھے ، نقاب پوش خواتین کے چہروں پر سے نقاب ہٹاکر پہچان کی جا رہی تھی ۔ پولیس کی مدد سے کئی پولنگ بوتھوں کے اندر موجود شخص کے ذریعہ دوسروں کے ووٹ دیتے بھی دیکھا گیا ۔کئی حلقوں میں ووٹنگ کے تما م مرحلوں کے ختم ہونے کے دوسرے اور تیسرے دن ای وی ایم سے بھرے ٹرکوں پرکو پکڑا گیا۔ ای وی ایم بدلنے والے جو پکڑے گئے وہ سامنے آئے اور جو نہیں پکڑے گئے وہ اپنی سازش میں کامیاب رہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس انتخاب میں روز ا وّل سے ہی الیکشن کمیشن کا کردار بے حد مشکوک رہا ہے اور ہر چہار جانب سے اس ادارہ کو سرکاری ادارہ بن جانے کے خلاف آواز بلند ہوئی ۔ انتخاب کے کئی مراحل کے ووٹنگ فیصد کے اعدادو شمار11 دنوںکی تاخیر سے کئے جانے اور ووٹنگ فیصد کے اعداد شمار میں تقریباََ چھ فی صداضافہ کئے جانے پر پورے ملک میں الیکشن کمیشن کے ایسے منفی کردار وعمل پر زبردست ناراضگی دیکھی گئی اور اس کے خلاف احتجاج بھی ہوئے۔ اس لئے کہ 6 فیصد ووٹنگ بڑھنے سے تقر یباََ ِ ایک کروڑ سات ہزار کے ووٹوں کا اضافہ ہو گیا جو یقینی طور پر این ڈی اے کے کھاتے میں ہی گئے ہونگے ۔الیکشن کمیشن کے ایسے جانب دارانہ عمل سے بڑھتے شک و شبہ میں مذید اضافہ ہوا اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے جو سوالات کئے ، ان کے جوابات کمیشن کے وکیل نہیں دے سکے ۔بلکہ آئین کا حوالہ دے کر عوامی طور پر ووٹنگ فیصد کے اعداد شمار بتانے سے انکار کر دیا ۔ اس انکار سے سپریم کورٹ نے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور جاری انتخابی عمل پر رخنہ نہ پڑے اس بنا پر کسی طرح کا کوئی فیصلہ نہیں دیا لیکن کئی ہدایات ضرور دئے ، جس سے الیکشن کمیشن کی پریشانی کچھ ضرور بڑھ گئی ہے ۔اس انتخاب میں بی جے پی نے کامیابی کے حصول کے لئے اپنی پوری سرکاری مشنری کو لگا دیا ہے ۔ایسے میں انڈیا اتحاد ہر قدم پھونک پھونک کر چلنے کی کوشش کرتا رہا ۔ یہی وجہ ہے انتخاب کے آخری مرحلہ یعنی یکم جون کو ووٹنگ ختم ہوتے ہی انڈیا اتحاد کے 23 ممبران کی دلّی میں کانگریس صدرملکا رجن کھڑگے کی رہائش گاہ پر بہت ہی خاص میٹنگ منعقد ہوئی ۔ جس میں انڈیا اتحاد کی تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے حلقوں کی تیار رپورٹ کی بنیاد پر انڈیا اتحاد کو کم از کم 295 سیٹوں پر اپنی کامیابی کا دعوٰی کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کاونٹنگ بوتھوں پر پینی نظر رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے، نیز نتیجہ کے دن یعنی 4 جون کو کیا کیا مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس ضمن میں بھی تمام اراکین کو ہدایتیں دی گئیں ۔ ان ہی خدشات کے پیش نظر ابھیشیک منو سنگھوی کی قیادت میں اپوزیشن رہنماؤں نے ووٹوں کی گنتی سے قبل الیکشن کمیشن سے مل کر کاونٹنگ میں شفّافیت سے متعلق سوال کئے اور مطالبہ کیا کہ پہلے کی طرح پوسٹل بیلٹس کا شمار ای وی ایم کے نتیجہ سے قبل کیا جائے۔یہ خدشات اس لئے پیدا ہو رہے ہیں کہ انڈیا اتحاد کا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے جو ایمانداری ، جمہوری اقدار اور آئین کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ یہ انتخاب بھی ہر قیمت پر وہ جیتنا چاہتے ہیں ۔ کانگریس جئے رام رمیش نے انتخاب کے آخری دن وزیر داخلہ امت شاہ پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ملک کے تقریباََ 150 ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں سے بات کی ہے ۔ کیا بات ہوئی ہوگی ۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ادھر کانگریس ترجمان اجئے ماکن کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی آ رہی ہے کہ انھوں نے کاؤنٹنگ میں ایک نئے طریقہ پر اعترض کیا ہے اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پہلی بار اسسٹنٹ ریٹرننگ آفسر کی میز پر امیدواروں کے ووٹنگ ایجنٹ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ ایسے میں کاؤنٹنگ میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ایسے ہی حالات کے پیش نظر چند روز قبل انڈیا اتحاد کے لیڈر کپل سبّل نے بھی کاونٹنگ بوتھوں پر تعینات کئے جانے والے امیدواروں کے ایجنٹوں کو ایک خاکہ تیار کر مستعد رہنے کی صلاح دی ہے۔ بہت ممکن ہے الیکشن کمیشن نے کپل سبّل کے ایسے ہی صلاح کے مد نظر پہلی بار ایسا طریقہ نافذ کیا ہے ۔بی جے پی کو کامیاب کرنے میں الیکشن کمیشن اب پوری طرح ایکسپوز ہو چکا ہے ۔ ان ہی خدشات کے مد نظر کچھ دنوں قبل سول سوسائٹی کے 122 ممبران نے دہلی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا تھا ۔ جس میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے کئی سابق جج ، سبکدوش اعلیٰ افسران ، سینئیر وکلأ وغیرہ نے اس میٹنگ ایک تجویز پاس کرکے مطالبہ کیا تھا کہ اقتدار منتقلی کے لئے باضابطہ ایک نظام تیار کیا جائے تاکہ اقتدار منتقلی میں کسی طرح کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ خیال رہے کہ اسی سول ساسائیٹی نے وزیر اعظم مودی اور راہل گاندھی کو میڈیا پر کھلی بحث کا مطالبہ کیا تھا ۔ جسے راہل گاندھی نے تو مان لیا تھا لیکن مودی اس کے لئے تیار نہیں ہوئے ۔ سول سوسائٹی کے لوگوں کا خدشہ بھی یونہی نہیں ہے ۔ ایسی افواہ ہے کہ انڈیا اتحاد کی کامیابی کے بعد اقتدار منطقلی میں حکومت رخنہ اندازی کر سکتی ہے۔ اب آیئے پہلی جون کی شام سے ہی مختلف چینلوں کے اگزٹ پول کی طرف ، جو گودی میڈیا پہلے سے تیار کئے بیٹھی تھی ۔ مختلف چینلوں کے مختلف اگزٹ پول ہیں اور گودی میڈیا کے اگزٹ پول میں این ڈی اے کو سبقت حاصل کرتے دکھایا جا رہا ہے اور یہ بات قیاس کے مطابق ہے کہ گودی میڈیا کو اپنی وفا داری ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے خوش کن اگزٹ پول کافی پیسے دے کر کرائے جاتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ووٹنگ اور کاؤنٹنگ کے درمیان کی جانے والی بے ایمانی پر پردہ پڑ جائے ۔ پہلے تو کسی کسی اگزٹ پول پر کچھ لوگ بھروسہ بھی کر لیا کرتے تھے لیکن مودی کے دور اقتدار میں کہا جا رہا ہے کہ اگزٹ پول بھی مودی کی گارنٹی کی طرح ناقابل اعتبار ہیں ۔ حالانکہ ایک خبر کے مطابق بی جے پی نے اس بار کسی جرمنی کی سروے کمپنی سے اگزٹ پول تیار کرایا ہے جو کہ تمام گودی میڈیا کوکچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ دکھانے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اسی لئے کانگریس دفتر جاتے ہوئے میڈیا والوں نے راہل گاندھی سے جب سامنے آنے والے اگزٹ پول کی بابت پوچھا تو انھوں نے یہی کہا کہ یہ اگزٹ پول مودی پول ہے عوامی پول 4 جون کو آئے گاساتھ ہی اپنے انڈیا اتحاد کی 295 سیٹوں پرکامیابی کا یقین دلایا ۔ جن لوگوں نے مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا پر اگزٹ پول دیکھا ہوگا ، انھیں اس بات کا اندازہ ضرور ہوا ہوگا کہ بعض اگزٹ پول کس حد تک مضحکہ خیز ہیں ۔ مثال کے طور بہار میں چراغ پاسبان کی لوک جن شکتی پارٹی پانچ سیٹوں پرانتخاب لڑ رہی ہے اور انڈیا ٹو ڈے اسے چھ سیٹوں پر کامیاب ہوتا دکھا رہا ہے ۔ اسی طرح ہریانہ میں کُل دس سیٹیں ہیں اور ایکزٹ پول میں سولہ سے انیس سیٹوں پر این ڈی اے کو کامیاب بتایا جا رہا ہے ۔ ہماچل پردیش میں کُل چار سیٹیں ہیں اور زی نیوز کے مطابق این ڈی اے کو یہاں چھ سے آٹھ سیٹیوں پر کامیابی کی امیدہے ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جو اگزٹ پول کو مضحکہ خیز بناتی ہیں ۔ ایسے میں اگزٹ پول پر کس طرح بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔لوک سبھا کے اس انتخاب میں جو منظر نامہ دیکھنے کو ملا ہے ، اسے دیکھتے ہوئے انڈیا اتحاد کی کامیابی یقینی ہے ۔بشرطیکہ الیکشن کمیشن شفّافیت کا مظاہرہ کرے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا