انتخابات میں پورے جوش وجذبے سے حصہ لیں جمہوری روایات کے استحکام کے لیے ہمیں بہر کیف انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے

0
0

 

 

ڈاکٹر غلام زرقانی

انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عام طورپر لگائے جاتے رہے ہیں، لیکن اگر یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوں، توبات واقعی حد درجہ تشویشناک ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ ملک کی قیادت جس پارٹی کے حوالے کی جائے،وہ عوام کی کثرت رائیکی ائینہ دار ہو، ورنہ انتخابات کے حوالے سے تمام تراقدامات بے معنی ہوجاتے ہیں۔اپ غورکریں کہ انتخابات کی تیاری سے لے کر اعلان نتائج تک ، کس قدر قومی صلاحتیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ انتخابی کمیشن اور عملے پر ہونے والے اخراجات، مقامی انتظامیہ کی تگ ودو، حفاظتی عملے ، سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کی شبانہ روز جد وجہد، اور موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے رائے دہندگی کے لیے شہریوں کی قربانیاں،یہ سب صرف اس لیے ہیںکہ عوام اپنی فہم وفراست کے مطابق کسی ایک سیاسی پارٹی کوبرسراقتدار دیکھنے کے لیے اپنی قیمتی رائیسے نوازے۔ اب اگرمقام انتخاب پر قبضہ کرکے رائے عامہ پرڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہو، یا ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کرکے نتائج تبدیل کرنے کی جسارت، دونوں انکشافات عوام کے لیے کس قدر اذیت ناک ہیں ، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
کہنے کو توہم علم وہنر، تحقیق وجستجو اور سائنسی انکشافات کی بلندیوں کی چھو رہے ہیں ، لیکن جب بات اتی ہے اپنے مفاد میں کسی کو قائل کرنے کی، توسارے اخلاقی ضابطے پر ے رکھ دیے جاتے ہیں۔انتخابی سرگرمیوں کے درمیان جھوٹ ،افترا، بے بنیاد باتیں ، بے ہودے الزامات اور مذہبی منافرت پھیلانے کی مذموم جدوجہد اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔یقین نہیں اتاتوزعفرانی پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کے خطابات سن لیجیے۔ مسلمان، پاکستان اور دراندازی ، جیسے موضوع سے شاید ہی کوئی انتخابی مجلس برخواست ہوتی ہو۔ہونا تویہ چاہیے تھا کہ برسراقتدار پارٹی اپنی دس سالہ کارکردگی عوام کی عدالت میں رکھتی اور اسے مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے لیے تیسری بار عوام سے حمایت کی اپیلیں کرتی، جب کہ حزب اختلاف سے امید یہ تھی کہ وہ موجودہ حکومت کی خامیوں اور کوتاہیوں کی وضاحت عوام کے سامنے پیش کرتی اور انھیں سدھارنے کے لیے منظم لائحہ عمل کے سہارے حمایت کی گزارشات کرتی۔ اب عوام جسے مناسب سمجھتے ، اسے اپنی حمایت سے نوازدیتے۔یہ جمہوری طرز حکومت میں دوران انتخابات اپنی تشہیر کے لیے سب سے بہتر اور مہذب طریقہ ہوتا۔ تاہم اب انتخابات بھی کسی تجارتی رسہ کشی سے کم نہیں رہ گیا ہے۔پہلی کوشش یہ نہیں ہوتی کہ ہم برسراقتدار انے کے بعد عوام کے لیے کیا کچھ کریں گے،
بلکہ پوری طاقت مدمقابل پارٹی کو نیچا دکھانے، ذلیل کرنے اور اسے ملک کے لیے خطرناک ثابت کرنے پر جھونک دی جاتی ہے۔اس طرح لوگ سخت مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں ، انھیں ووٹ نہ دیں ،
یہ بات سمجھانے میں اپ پوری تقریر کرڈالتے ہیں، لیکن اپ کو ووٹ کیوں دیں ، یہ کسی طور واضح نہیں ہوپاتا۔اس لیے ایسے خطابات کسی طرح ’انتخابی تشہیر‘ سے موسوم نہیں کیے جاسکتے، بلکہ یہ تو ایک غیر مہذب طریقہ مجادلہ ومباحثہ ہے، جس کی مذمت کی جانی چاہیے۔
اچھا ،پھر ایک بات تومیرے حلق سے نیچے اترتی ہی نہیں ہے کہ جمہوریت کے سائے میں توقع یہ کی جاتی ہے کہ انتخابات پورے طورپرغیر جانبدارنہ رہیں۔ یعنی ہر سیاسی پارٹی اور ہر ایک امیدوار کوایک جیسی سہولتیں میسر ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ ایک پارٹی کے لیے ضابطہ اخلاق کچھ اور ہو اور دوسرے کے لیے کچھ اور۔ اور ایسا بھی نہ ہو کہ ایک پارٹی یا امیداوار کو زیادہ سہولتیں میسرہوں اور دوسرے کو کم۔ اب یہی دیکھیے کہ جو پارٹی برسراقتدار رہتی ہے ، وہ انتخابی تشہیر کے لیے دل کھول کر سرکاری سہولتوں کا استعمال کرتی ہے ، جب کہ حزب مخالف کے امیدواروں کو یہ سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں۔بطور مثال یوں سمجھیں کہ ملک کے وزیر اعظم اپنی پارٹی کی انتخابی تشہیر کے لیے سرکاری جہاز، سرکاری عملے ، اور قوم حفاظتی دستے استعمال کرتے ہیں ، جب کہ حزب اختلاف کے نمائندے اپنی جیب خاص سے انتخابی تشہیر کرتے ہیں۔ اس طرح اپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کے لیے ایک جیسی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔میرے خیال میں بہتر یہ ہوتا کہ تمام تر سرکاری سہولتوں سے لطف اندوز ہونے والوں کی دو حیثیتں متعین کی جائیں۔ ایک سرکاری اعتبار سے اور دوسری ذاتی اعتبار سے۔اب اگر وہ سرکاری مصروفیات میں منہمک ہے ، تواسے بجاطورپر اجازت ہونی چاہیے کہ وہ سرکاری سہولتوں سے بھی لطف اندوز ہو، تاہم اگر وہ اپنی پارٹی یا ذاتی معاملات میں مصروف ہے، تواسے سرکاری سہولتوں کے استعمال کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔اپ غیر جانبداری کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ کر غور کیجیے کہ اپ اپنی کمپنی کے کسی ملازم سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی مصروفیات کے لیے کمپنی کی طرف سے دی گئیں سہولتیں استعمال کرے ؟ سفر خرچ سے لے کر قیام وطعام تک سارے اخراجات وہ خود ذاتی طورپر کرتاہے۔ اگر یہ دستور ساری دنیا میں رائج ہے ، توبڑے پیمانے پر یہی ضابطہ تمام سرکاری عہدیداروں پر منطبق کیوں نہیں کیا جاتا؟کیا کسی سیاسی پارٹی سے مستقبل میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں ملک اور قوم کے مفاد کی خاطر انتخابات میں غیر جانبداری کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے پارلیامنٹ میں ایسے ضابطے بنائے ، جن کی روشنی میں ٹھوس اصلاحات کی جاسکیں ؟
بہر کیف ،ایسے حالات میں جب کہ تصورِ انتخابات کے انگ انگ سے خون رس رہاہواور ہر زاویے سے اخلاقی قدرو ں کی پامالی کی دل خراش صدائیں کانوں سے ٹکرا رہی ہوں،تویہ سوال قطعی بجا ہے کہ پھر ہمیں انتخابات میں حصہ لینے کی حاجت ہی کیا ہے؟یادرکھیے کہ ہمیں اسی سرزمین میں اپنے شب وروز گزارنے ہیں ، اس لیے میدان چھوڑکر بھاگ جانا مسئلے کا حل قطعی نہیں ہے، بلکہ جمہوری روایات پر ڈٹے رہنا پراگندہ ذہنیت کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہے۔ خیال رہے کہ فرقہ پرست طاقتیں چاہتی ہی ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کسی طرح انتخابی تحریک سے باہر ہوجائے ، یا کم از کم ان کے ووٹ بے وقعت ہوجائیں ، تاکہ انھیں میدان مارنے میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لییووٹنگ سے دور رہنا درحقیقت فرقہ پرست طاقتوں کی مذموم خواہشات کے عین مطابق ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ پورے جوش وجذبے سے ووٹنگ میں حصہ لیں ، تاکہ درپردہ سازشوں کے تار وپود پوری طرح بکھر کر پاش پاش ہوجائیں۔
صاحبو! حالات جیسے بھی ہوں ، ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ ملک کی عمر ، ہماری عمروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ہم توپچاس سو سالوں کے بعد یہاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائیں گے، لیکن یہ ملک رہے گااور یہیں ہماری نسلیں پروان چڑھیں گی۔ اس لیے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ جمہوری روایات باقی رکھی جائیں ، تاکہ ا نے والے دور میں کیا عجب کہ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے والی سیاسی پارٹیاں معرض وجود میں اجائیں اور حالات بہتر ہوجائیں۔ چیئرمین حجاز فاونڈیشن ، امریکہ
[email protected]
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا