شیخ ابوبکر احمد ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی معرفت اپنے دین کی سر بلندی و سرفرازی اور مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کیلئے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک تقریباً کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار یا دو لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اور پھر آقائے دو جہاں ﷺ پر باب سلسلۂ نبوت و رسالت بند کردیا۔ صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین آپ کے جانشین ہوئے ۔ پھر اہل علم و اہل تقویٰ سلسلہ در سلسلہ آپ کے وارث ہوتے رہے آپ کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کا فریضہ پوری امانتداری کے ساتھ انجام دیتے رہے اور آپ کا پیغام عام کرتے رہے۔ یہی وہ علمائے اسلام ہیں جن کے بارے میں محبوب خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں ، وارثین انبیاء کی اسی فہرست میں امام اہل سنت مجدددین اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان بھی شامل ہیں۔ کہ جنہوں نے اپنے دور میں امت محمدیہ ﷺ کو راہ حق پر گامزن فرمانے کا اہم فریضہ انجام دیا ، اور ہر طرح کے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانان عالم کو ہر طرح کے کفر و ضلالت سے محفوظ رکھا ، اور باطل افکار و نظریات کا قلع قمع کیا ۔ چنانچہ مخبر صادق ﷺ حدیث پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے اختتام پر ایک ایسی علمی شخصیت کو بھیجتا رہے گا جو ان کے لئے ان کے دین کو تازہ کرتا رہے گا۔ اور نگاہ نبوت ﷺ تمام جہان کے نظام کو پہلے ہی سے دیکھ رہی تھی ، تغیرات زمانہ اور پیدا ہونے والے نئے نئے بدعت و گمراہیت کے فتنوں سے پوری طرح باخبر تھے، اس لئے پہلے ہی امت کو خوشخبری دیدی کہ ہر صدی کے اختتام یا اس کے آغاز میں کچھ ایسے نفوس قدسیہ پیدا ہوتے رہیں گے جو مسلمانوں کے اسلام و ایمان اور ان کے عقائد حقہ کی حفاظت کے لئے کمر بستہ رہیں گے، بے دینی و بد عقیدگی کے طوفانوں اور فتنوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے ۔ تاریک رات میں اجالا پھیلاتے رہیں گے۔ اور ان کے وجود سے مسلمانوں کے اندر عظیم دینی و روحانی انقلاب برپا ہوتا رہے گا ۔
تاریخ ولادت : چودہویں صدی کے فقیہ اسلام امام اہلسنت مجددین و ملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضاخان حنفی قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کی ولادت ۱۰/شوال المکرم ۷۲ ۱۲ ھ بروز شنبہ بوقت ظہر، مطابق ۱۴/جون ۱۸۵۶ ء کو بریلی شریف ، یو پی میں ہوئی ۔آپ کا نام محمد رکھا گیا، جد امجد نے آپ کا نام احمد رضا رکھا ، جس نام سے آپ مشہور و معروف ہیں ، اور بعد میں خوداعلی حضرت نے عبد المصطفیٰ کا اضافہ کیا ۔ جیسے کہ خود اعلی حضرت ایک شعر میں یوں عرض کر رہے ہیں۔
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبد مصطفیٰ
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے
امام احمد رضااپنے علم و عمل کی روشنی میں امام ربانی بھی ہیں ،مجدد بھی ہیں مفکر بھی ہیں ،حکیم الامت اورشیخ الاسلام والمسلمین بھی ہیں ،آپ کا فقہی مقام اتنا اونچا ہے کہ وقت کے ابو حیفہ اور سرخسی نظر آتے ہیں ، چنانچہ محافظ کتب حرم شیخ اسماعیل بن خلیل نے آپ کے فتوے مطالعہ کیے تو بے ساختہ کہہ اٹھے ’’قسم با خدا بالکل سچ کہتا ہوں کہ اگر ابو حنیفہ نعمان آپ کا فتاوی ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے مؤلف کو اپنے خاص شاگردوں میں شامل فرماتے‘‘۔
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ اپنے دور کی عبقری شخصیتوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ جن کے علم و فضل ، بصیرت و فراست کو معاصرین و متاخرین بجا طور پر سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں ۔دینی و علمی و اخلاقی و تحقیقی ہر اعتبار سے اور ہر لحاظ سے آپ علماء کرام و مشائخ عظام کے درمیان ممتاز ہیں۔ علماء و محققین زمانہ نے آپ کی شخصیت اور آپ کی سیکڑوں کتب و رسائل کا مطالعہ کیا ہے ، جن میں سے چند ذکر کئے جاتے ہیں ۔ کنز الایمان ترجمۃ القرآن ، فتاویٰ رضویہ ، فتاویٰ افریقہ ، الدولۃ المکیہ ، حسام الحرمین ، تمہید ایمان بآیات قرآن ، احکام شریعت ، حدائق بخشش ، دوام العیش ،کشف حقائق و اسرار دقائق، بدر الانوار فی آداب الآثار، ختم النبوۃ ، اعتقاد الاحباب ، روحوں کی دنیا ، مزارات پر عورتوں کی حاضری ۔وہ آپ کو ذہین عالم ہی نہیں بلکہ سراپا علم و ذہن سمجھتے ہیں ۔جو ان سبھی خصوصیات کا حامل اور صفات و کمالات کے جامع تھے ، جو ایک مجدد کیلئے ضروری ہے وہ سبھی کچھ ان کے اندر موجود تھے ۔ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ایسے دور میں تشریف لائے جب ہندوستان کے کونے کونے میں کفر و ضلالت ، بدعت و گمراہیت پھیل چکی تھی ، اور لوگ حضور ﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرنے لگے ، اور خریدے گئے ان لوگوں کو جنہوں نے دولت و شہرت کے خاطر نبی ٔ پاک ﷺ کی ذات مقدسہ پر متعدد حملے کرنے لگے ،ہندوستان کے سنی مسلمانوں کا دل جلنے لگا ، تمام اہلسنت گنبد خضریٰ کی طرف منہ کرکے رو رو کے رب کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے ۔ یا اللہ تیرے محبوب کے ناموس پر حملہ ہورہا ہے بچالو ، یا اللہ یزیدیوں نے تیرے محبوب کے ناموس پر حملہ کیا ہے، پیغمبر اسلام کے عزت و آبرو پر حملہ کیا ہے ، ہمارے مال و دولت پر حملہ کرتے ہم برداشت کرلیتے، ہماری اولاد کو قتل کردیتے ہم برداشت کرلیتے کیونکہ یہ قیامت کے دن ہمارے شفیع ہوجائیں گے ، لیکن نبی پاک ﷺ کی توہین کو برداشت نہیں کرسکتے ، مدنی والے آقا کی عزت و آبرو پر حملہ ہو یہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ الغرض جس کے سمجھ میں جو آیا وہ پکار پکار کر مدد کی بھیک مانگنے لگا ، جب ساری امت رب کی بارگاہ میں سر پٹک پٹک کر دعا کرنے لگے تو رحمت الٰہی کو جوش آیا اور پھر اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو، اس امت کو صراط مستقیم پر لانے کیلئے بھیجا ۔ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ وہ ہیں جنہوں نے فتنۂ انکار کی زبردست تردید فرمائی ،اور کتاب و سنت کے روشنی میں تمام عقائد باطلہ کا رد فرمایا، اور صحیح عقیدے کو ثابت کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا تحفظ فرمایا، اور باطل فرقوں کا ہر طرح سے رد کیا ، چاہے وہ تحریری میدان ہو یا تقریری میدان ، کفر و ضلالت ، شرک و بدعت والے فرقوں کو آپ نے ہر طرح سے زیر فرمایا۔ الغرض اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور مختار کائنات ﷺ کے بے شمار معجزوں میں سے ایک معجزہ کا نام ہے ۔
سفر آخرت : آپ کا وصال ۲۵ / صفرالمظفر ۱۳۴۰ ھ مطابق ۲۸ /اکتوبر ۱۹۲۱ ء بوقت نماز جمعہ ۲ بج کر ۳۸ منٹ پر ہوا ۔آپ کے والدماجد کا اسم گرامی حضرت مولانا نقی علی احمد خان علیہ الرحمۃاور جد امجد حضرت مولانا رضا علی خان علیہ الرحمۃ ہیں جو بڑے ہی بزرگ شخصیات کی فہرت میں شامل ہیں ۔
گرانڈ مفتی آف انڈیا نئی دہلی