ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)
میں الشفاء ہسپتال ہوں، میں ہی اپنے فلسطینی زخمی بھائیوں کے دل کی دھڑکنیں تھا، میرے اندر عام مریضوں، مرد، خواتین، بچے و حاملہ عورتوں کے علاوہ موجودہ حال میں صیہونی درندوں کی بمباری سے زخمی ہونے والے جنگجوئوں جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے انہیں سے بچانے کے لئے میری ہر ممکنہ کوششیں ہو رہی تھیں ،مگر میں آج بڑی مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوں ۔ صیہونی فوجیں ہر دن توپوں کے ذریعہ گولے بارود غزہ کی آبادی،پناہ گزیں کیمپوں اور میرے جیسے ہسپتالوں پر برسارہے ہیں۔ جن معصوم اور مظلوم فلسطینیوں کو زخمی حالت میں ہسپتالوں میں زندگی کی ڈوبتی سانسوں کو جینے کی آس مل رہی تھی، اس خوفناک بمباری میں اب وہ ان کی امیدیں ٹوٹنے لگی ہیں، ہر دن فائرنگ اور وحشیانہ حملے ہو رہے ہیں،جہاں مریضوں اور زخمیوں کا علاج کرنا دوبھر ہو گیا ہے، میری گھیرا بندی ہر روز سخت ہوتی جا رہی ہے۔ ان حیوانی دشمنوں کا مجھ پر الزام تھا کہ میرے سینے کے اندر حماس جہادیوں کا بنکر پوشیدہ ہے جو ایک لغو اور سراسر جھوٹا الزام تھا۔ وہ درندے فوجی اپنی توپوں کو لیکرمیری طرف بڑھتے آرہے ہیں، ہر طرف سے میری ناکہ بندی کر دی گئی ہے، اب تو دشمن کی توپیں میرے مین گیٹ پر آکھڑی ہوئی ہیں۔ ان کے دہانے مریضوں کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف نشانے تانے ہوئے ہیں ، باہر سے بجلی، پانی، دوائیاں، جرنٹر کے لئے ایندھن، ایمبولینس کا آنا جانا، لاشوں کو تدفین کے لئے کیمپس سے باہر لے جانے پر روک لگا دی گئی ہے ۔ میرے درو دیوار پرہونے والی فائرنگ سے گولیوں کے جگہ جگہ نشان انسانی زخموں کی طرح نظر آرہے ہیں ۔ نگہداشت یونٹ کے تمام مریض باہری سپورٹ کی کمیوں کے سبب شہید ہو چکے ہیں، ایندھن کی کمی کے باعث مواصلاتی نظام بھی ٹھپ پڑ گیا ہے، اسرائیلی بلڈوزروں اور ٹینکوں نے سر جری والی عمارت، دوائوں اور طبی آلات کے گودام کو دھماکے سے اڑادیا ہے ، مریضوں پراسنائپر (Sniper) سے حملے ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ یہ درندے کچھ شہیدوں کی لاشوں کو بھی اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے، میرا سارا ڈیپارٹمنٹ ان وحشی فوجیوں کی گولہ باری سے ویران ہو چکا ہے، میرے پاس اب کوئی طبی آلات اور دوائیں نہیں ہیں جو زخمیوں کا علاج کر سکے،میرے ڈاکٹرس اورمیرے عملے ان خونی فوجیوں کے شکنجے میں گھرے ہوئے ہیں، وہ اپنے زخمی فلسطینی بھائیوں کو علاج کرنے کے بجائے انہیں مرتے ہوئے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کا سانحہ بنا ہوا ہے،انہوں نے میرے اندر ہر کونے کتھرے کی اچھی طرح تلاشی لی لیکن انہیں کسی حماس جنگجوئوں کا سرنگی ٹھکانہ نہ ملا، آخر کار اس جارح فوج کو تہہ دست منہ کی کھانی پڑی، اس کے باوجود یہ جابرو قاتل فوجی دستے میرا محاصرہ کئے ہوئے ہیںمیرے اس کھنڈر عمارت میں اب بھی سات ہزار مریض زندہ ہیں انہیں اس کیمپس سے باہر جانے نہیں دیا جا رہا ہے، موت ان کے سر پر ناچ رہی ہے، میں لاچار اور بے کس ہو چکا ہوں، انہیں اگر فوری طور پر طبی ضروریات مہیا نہیں کیا گیا تو شہید ہونے سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا ہے، جن شہیدوں کی لاشیں ہماری گرفت میں تھیں انہیں میرے ہی صحن میں اجتماعی طور پر دفن کر دیا گیا ہے، بہت سی لاشیں مدفون نہیں ہو سکی ہیں، وہ لکڑیوں کے کندوں کی طرح تہہ بہ تہہ پڑی سڑ رہی ہیں، میری عمارت جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حیات نو کی حامل تھی، اب وہ ایک کھنڈر ، میدان جنگ بن چکی ہے، میری زمین توپوں اور سفا کی فوجیوں کا اڈہ بنا ہوا ہے جیسے ان بھوکے گیدوں کو مردار مل گیا ہو، میرے سر پر ڈرون اڑ رہے ہیں، فوجیں بندوق لئے ہمارے احاطے میں دوڑ رہی ہیں، ایک ذرا سی حرکت پر وہ گولیاں چلا رہے ہیں، کسی ڈاکٹر اور طبی عملہ کو اجازت نہیں ہے کہ وہ مریضوں کی حالت دریافت کر کے ان کا علاج کر سکیں، بین الاقوامی ادارے، امدادی ٹیمیں کام کرنے سے بالکل مفلوج ہو چکی ہیں، ایسی مظلومیت اور سفاکیت کا منظر شاید کبھی دنیا والوں نے نہیں دیکھی ہوگی! ساری عالم انسانیت، اس وحشت ناک درندگی کو دیکھ کر کانپ رہی ہے مگر ان حیوان نما مردہ خوروں کو انسانی جانوں کا اتلاف پر ذرا بھی شرمندگی اور ندامت نہیں ہو رہی ہے، آج انبیاء کا یہ ارض مقدس جو ہمارا وطن ہے، پھر بھی ہم بے وطن، بے یار ومدد گارعالم اضطراب میں زندہ ہیں ، ہمارے ملک کی کھلی آزادی کو صیہونی فسطائی طاقتوں نے غیر قانونی اور ہتھیاروں کے بل بوتے پر سقوط بنا لیا ہے۔
ہمارے دوسرے اسپتال ، العہلی پر میزائیل سے اچانک حملہ کیا گیا ہے جس میں ۵۰۰ میرے فلسطینی بھائی شہید ہو گئے، جس کا الزام خود فلسطینی جنگجوئوں کے سر پر یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ یہ ان کے خود کے غلط نشانے پر میزائل داغے کا نتیجہ ہے جس سے اتنا بڑا سانحہ پیش آیا، اسرائیلی فوجوں نے العہلی اسپتال پر کوئی حملہ نہیں کیا ہے، اسی طرح حنین میں ’ابن سینا‘ ہسپتال کو خالی کر لیا گیا ہے، غزہ میں تل الحوا کے علاقے میں ’القدس ہسپتال‘ پر بمباری ہو رہی ہے، غزہ کا ’خان یونس ہسپتال‘ بھی اسرائیلی فوجوں کے حملے کی زد میں ہے، اس کے علاوہ ’العودہ‘اور ’انڈونیشیا اسپتال‘ بھی گولہ باری سے خالی نہیں ہیں، انسانوں کو زندگی دینے والے یہ ہسپتال اب قبرستان میں بدل چکے ہیں، مرنے والے فلسطینی شہید بھائیوں کی تعداد کتنا بتائوں گیارہ ہزار۔۔۔بارہ ہزار۔۔۔ہر دن موت کی آغوشیں بڑھتی جا رہی ہیں،اب تک چودہ ہزار سے بھی زائد لوگ جان بحق ہو چکے ہیں، شہید بچوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار سے بھی زائد ہے خواتین کی تعداد تین ہزار پانچ سو سے بھی زائد ہے،
اے میرے بھائیو! آپ نے کسی بچہ کی لاش کو ایسے کفن میں لپٹے ہوئے دیکھا ہے جس کے سفید کفن پر خون کے دھبے جگہ جگہ نظر آ رہا ہو، میری آنکھوں نے یہ سچ بھی دیکھا ہے، وہ باپ ہوش میں تھا کہ نہیں، میں اس کی ضمانت تو نہیں دے سکتا ہوںمگر وہ مجاہد باپ خون سے لتھڑے ہوئے کفن میں اپنے لخت جگر کو دونوں ہاتھوں میں تھامے ہوئے ،آخری آرام گاہ کی طرف جا رہا تھا، یہ ایک فلسطینی بچے کی کہانی نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ایسے شہداء بچے صیہونی درندہ فوجیوں کی گولیوں کا شکار ہوئے ہیں،
میری آخری چیخ !ہے کوئی دنیا میں مدد گار جو ہمارا محافظ بنے، ہمیں اس وقت، بجلی، پانی، ایندھن اور طبی آلات کی سخت ضرورت ہے، ہم اور ہمارے عملے مظلوم زخمی فلسطینیوں کی زندگی بچانا چاہتے ہیں، ہم ان درندوں سے کبھی اپنی پسپائی کا اقرار کرنے والے نہیں ہیں، آپ یقین رکھیں، اس کھلی بربریت و ظلم سے کسی قوم کی نسل کشی نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ان کا وجود مٹ سکتا ہے، باطل ہمیشہ حق جنگ میں ذلت و شکست پائی سی ہمکنار ہوتا ہے، آج ہم مظلوموں پر کوہ گراں کا امتحان الٰہی ہے، کل ان کی باری ہے، فنا در فناہونا، نیست در نیست ہونا!!، اللہ ہم پر رحم فرما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہم پر رحم فرما آمین!
موبائل و واٹس اپ نمبر:9903651585
Email:[email protected]