الحاج پیر میاں محمد مقبول باجی نے محرم الحرام کی فضلیت اور شہادت امام حسن ، امام حسینؑ کا پس منظر بیان کیا

0
0

منظور سمسھال
بھلیسہ ؍؍بلاک چلی میں جموں و کشمیر کے مذہبی شخصیت سجادہ نشین دربار عالیہ یونسیہ نقشبندیہ الحاج پیر میاں محمد مقبول باجی صاحب کا بھلیسہ کی سرزمیں پر روحانی دورہ ہے ۔حضرت نے گلی بھٹولی میں نماز مغرب کے بعد محفل ذکر و اذکار کی مجالس کا اہتمام کیا ۔محرم الحرام کی فضلیت اور شہادت امام حسن ، امام حسینؑ کا پس منظر بیان کیا ۔ محرم ،رجب، ذیقعدہ اور ذی الحجہ یہ چار مہینے ہیں جن کو عظمت والے مہینے کہا گیا ہے اور جن کو قرآن میں حرمت ( احترام) والے مہینے کہا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو با عظمت سمجھا جاتا تھا۔ ظہور اسلام کے بعد ان چار مہینوں کی عظمت اور بھی بڑھ گئی۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا،’’ ان چار مہینوں میں تم لوگ اپنی جانوں پر ظلم مت کرو ‘‘ اور ان چار مہینوں میں سب سے افضل ماہ محرم الحرام ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں آپؐنے ارشاد فرمایا،’’’رمضان کے بعد سب سے افضل محرم کے روزے ہیں ‘‘ اور ایک حدیث میں آپؐنے ارشاد فرمایا،’’ماہ محرم کا ایک روزہ دوسرے مہینوں کے تیس روزوں کے برابر ہے شہادت حسین ؑکا منظر جب حضرت معاویہ کے بعد یزید تخت نشین ہوا حضرت حسین نے یزید کو اس اعلیٰ منصب کے قابل نہ سمجھا ،ااس لئے کہ وہ اسلامی حدود اور تعلیمات اسلام سے روگرانی کرتا تھا۔ یہیں سے یزید اور حضرت حسین کا اختلاف شروع ہوا۔ یزید نے حضرت حسین پر دباؤ کیلئے ہر حربہ استعمال کیا مگر چونکہ یہ اختلاف یزید کے اسلامی حدود اور تعلیمات اسلام سے روگردانی کی بنا پر تھا ۔اس لئے حضرت حسین اپنے مؤقف پر اٹل رہے۔ یہاں تک کہ حق و صداقت کا بول بالا کرنے کیلئے اپنی اور اپنے پورے خاندان کی قربانی پیش کردی۔ سر کٹا دیا لیکن لمحہ بھر کیلئے بھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکا یا عاشورہ کے دن افق پر خونی سورج طلوع ہوا۔ حضرت حسین نے بھی محسوس کرلیا کہ یہ جابر و ظالم حکومت میرے خون کی پیاسی ہو چکی ہے۔ دشمنوں کے تیور بدلتے دیکھ کر ظالموں کو ندائے حق کی دستک دی کہ شاید ان ظالموں کا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ نواسۂرسول کے خون میں ہاتھ رنگنے سے باز آجائیں لیکن جب حکومت و اقتدار کا ضمیر سوجاتا ہے تو وہ کبھی بیدار نہیں ہوتا۔ حضرت حسین نے لوگوں سے یوں خطاب کیا اے لوگوں! میرا حسب و نسب یاد کرو اور سوچو میں کون ہوں ، کیا تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا روا ہے ؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں ؟ کیا سید الشہداء حضرت حمزہ میرے چچا نہ تھے ؟ اگر یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا استقبال کرنا چاہئے ؟ کیا یہ باتیں خون بہانے سے نہیں روک سکتیں ؟ واللہ اس وقت میرے علاوہ روئے زمین پر کسی نبی کا بیٹا موجود نہیں۔ میں تمہارے نبیؐ کا بلا واسطہ نواسہ ہوں ، آخر بتاؤ میرا قصور کیا ہے ؟ مجھے کس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کیا میں نے کسی کی جان لی ہے کیا میں نے کسی کا مال لوٹا ہے ؟ حضرت حسین کا یہ خطبہ اتنا اثر انگیز تھا کہ اگر پہاڑ سنتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ، اگر زمین سنتی تو وہ شق ہو جاتی ، بادل سنتے تو وہ اشکوں کی برسات بن جاتے لیکن ان ظالموں کے دل پر اس کا ذرا بھی اثر نہ ہوا ۔اس لئے کہ ان کے سینے میں دل نہیں پتھر تھے اور خون بہانا ان کا مقصد بن چکا تھا بالآخر میدان کا رزارگرم ہوا حضرت حسین لاشوں کو لالا کر خیموں میں ڈال رہے تھے اور باقی لوگوں کو صبر کی تلقین کررہے تھے۔ جنگ کے دوران اپنے 6 ماہ کے لخت جگر علی اصغر کو دیکھا اور اس کو گود میں اٹھایا اور دشمنوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے ظالمو ! تمہاری دشمنی مجھ سے ہے ۔اس معصوم سے نہیں ، اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟ یہ شدت پیاس کی وجہ سے بلبلا رہا ہے اسے تو دو گھونٹ پانی پلا دو ، لیکن ظالموں کو ذرا بھی رحم نہیں آیا اور اس ننھی سے جان کے حلق میں تیر نکالا تو خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔حضرت حسین نے اپنے لخت جگر کے خون سے ایک چلو بھری اور آسمان کی طرف اٹھا کر کہا کہ اے خدا دیکھ تیرے نبیؐ کی اولاد کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے۔ اس کے بعد حضرت حسین نے بھی بہادری سے دشمنوں سے مقابلہ کیا لیکن آخر کار دشمنوں کے گھیرے میں آگئے اور ایک ملعون و مردود زرعہ بن شریک تمیمی نے پیچھے سے آکر نیزے سے وار کیا تو حضرت امام حسین پیچھے گر گئے اور اس کے بعد اضحیٰ بن خولہ گردن کاٹنے کیلئے آگے بڑھا لیکن قریب پہنچ کر کانپنے لگا۔ پھر ایک ازلی بدبخت سنان بن نخعی کہنے لگا کہ کمبخت تو دشمن کا سر قلم نہیں کرسکتا ، یہ کہہ کر آگے بڑھا اور نواسۂرسولؐ حضرت امام حسین کا سر مبارک قلم کردیا اور آپ میدان کر بلا میں شہید ہوگئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا