اقتصادی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، روزگار، مساوات کی صورتحال میں بہتری: رپورٹ

0
0

کورونا وبا کی وجہ سے 2019 کے بعد باقاعدہ تنخواہ والی نوکریوں کی تخلیق میں کمی آئی ہے
یواین آئی

نئی دہلی؍؍عظیم پریم جی یونیورسٹی کی طرف سے بدھ کو جاری کردہ ‘اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2023’ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائیوں کے دوران اقتصادی ترقی اور ساختی ترقی سے ملک کے لوگوں کی سماجی شناخت اور لیبر مارکیٹ کی مساوات میں مختلف محاذوں پر نمایاں بہتری آئی ہے اور خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 کی دہائی میں ملک کی آبادی میں باقاعدہ اجرت حاصل کرنے والوں کا حصہ جمود کا شکار تھا لیکن 2004 میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سال 2004 کے بعد مرد کارکنوں کی تعداد 18 سے بڑھ کر 25 فیصد اور خواتین کارکنوں کی تعداد تیزی سے 10 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد تک پہنچ گئی۔ 2004 اور 2017 کے درمیان ہر سال تقریباً 30 لاکھ نئے روزگار کے مواقع باقاعدہ اجرت کے ساتھ پیدا ہوئے۔ جبکہ 2017 اور 2019 کے درمیان یہ تعداد بڑھ کر 50 لاکھ سالانہ ہو گئی۔ کورونا وبا کی وجہ سے 2019 کے بعد باقاعدہ تنخواہ والی نوکریوں کی تخلیق میں کمی آئی ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے بعد ذات پات کی بنیاد پر تقسیم میں کمی آئی ہے۔ یہ رپورٹ آئی ویز اورآئی آئی ایم بنگلور کے اشتراک سے کئے گئے انڈیا ورکنگ سروے (ا?ئی ڈبلیو ایس) کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں باقاعدہ اجرت حاصل کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، کام کی ذات پات کی بنیاد پر تقسیم پہلے کے مقابلے میں کم ہے اور افرادی قوت میں صنفی بنیاد پر تفاوت کم ہوا ہے، تاہم اس میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔عظیم پریم جی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اندو پرساد نے کہا، "اس وقت پوری دنیا میں روزگار کے بارے میں کسی بھی رپورٹ میں اچھی خبریں نایاب ہو گئی ہیں۔ اس لیے یہ رپورٹ نہ صرف حوصلہ افزا ہے۔ روزگار کے تمام پہلوؤں پر پیش رفت ہوئی ہے، بشمول ان کے معیار، مساوات اور انصاف۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا میں تحقیق کی طرف پوری سنجیدگی سے کام لیا گیا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا