طارق شبنم
سارے دروازوں سے نا امید ہو کر شاکر نے ساری رات پریشانی کی حالت میں کانٹوں پر گزاری کیوں کہ وقت تیزی سے نکل رہا تھا اورکوئی اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہو رہا تھا ،اپنے پرائے سب مُنہ موڑ رہے تھے ۔ اپنی پریشانی لے کر وہ صبح صبح ہی بڑی امید وںکے ساتھ با با سائیں کے گھر پہنچ گیاتو دیکھا کہ با با گھر کے اندر سے پانی کی بالٹی لے کر نکل رہا تھا ،شاکر کے نزدیک پہنچتے ہی رک گیا تو شاکر نے بڑے ادب سے سلام کی ،وعلیکم السلام کہہ کر اس نے شاکر کو آنگن میں ہی بچھی چٹائی پر بیٹھنے کو کہا اور خود بالٹی اٹھا کرپاس ہی رکھے ایک مٹی کے بڑے برتن میں پانی ڈال دیا ۔بالٹی لے کر پھر اندر گیا اور کچھ لمحوں بعد پھر سے پانی کی بالٹی لے کر آگیااور اس میں سے آدھا پانی اسی برتن میں ڈال دیا جب وہ بھر گیا توآدھا پانی کچھ دوری پر رکھے مٹی کے ہی ایک چھوٹے برتن میں ڈال دیا ۔شاکر جو یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا حیران رہ گیا کہ اتنی گرمی اور پانی کی شدید قلعت کے با وجود با با ان برتنوں میں پانی کیوں ڈال رہا ہے ؟
’’کہو بیٹا ۔۔۔۔۔۔ کہاں سے اور کس مقصد سے آئے ہو ؟‘‘
شاکر ابھی سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ بابا کی مٹھاس بھری آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔ میں دوسرے محلے میں رہنے والے کبیر پٹھان کا بیٹا ہوں اور آپ سے ملاقات کی غرض سے آیا ہوں‘‘۔
’’سلامت رہو بیٹا ۔۔۔۔۔۔ آباد رہو‘‘ ۔
شاکر کو دعائیں دیتے ہوئے بابا وہاں موجود ناشپاتی کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا جب کہ شاکر سوچنے لگا کہ آخر کس طرح وہ با با سے اپنے مْقصد کی بات کہے ۔
’’تیرا کرم ہے میرے مولا۔۔۔۔۔‘‘۔
دفعتاً با با مسکراتے ہوئے مٹی کے برتنوں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا ۔شاکر نے دیکھا تو ساتھ آٹھ کتے ہانپتے ہوئے آئے اور پانی پینے لگے جب کہ دوسرے برتن میں رکھے پانی سے درجنوں پرندے اپنی پیاس بجھانے لگے،شاکر کو بھی اپنے سوال کا جواب مل گیا ۔اسی لمحے گھر کے اندر سے ایک بزرگ باپردہ خاتون نکلی اور پرندوں کو دانہ ڈالنے لگی ۔
’’تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مولا ‘‘۔
آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کہہ کر وہ پھر سے شاکر کی طرف متوجہ ہوا ۔
’’معاف کرنا بیٹا ۔۔۔۔۔۔ میرا دھیان اس طرف گیا ۔اب بتائو میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’بتائوں گا با با،ابھی جلدی کیا ہے ؟‘‘
با با کا مانوس سا رویہ دیکھ کر شاکر نے بھی بے تکلفی سے کہا توبابا نے اس کے گھر والو ںکی خیر و عافیت دریافت کی اور دعائیں دینے لگا ۔ اسی وقت با با کی عمر رسیدہ شریک حیات کشمیری سماوار میں نمکین چائے لے کر آئی اور با با اور وہ باتوں کے ساتھ ساتھ چائے پینے میں مصروف ہو گئے ۔با با کے دو بیٹے بھی تھے جو اعلیٰ عہدوں پر فائیز تھے لیکن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شہر کی ایک پاش کالونی میں اپنے اپنے بنگلوں میں رہتے تھے جب کہ با با اور اس کی شریک حیات اپنے ہی چھوٹے سے آبائی گھر میں رہائیش پزیر تھے ۔
با با سائیں کا اصل نام قدرت اللہ تھا لیکن سارے لوگ اُسے بابا سائیں کے نام سے ہی پکارتے تھے ۔ وہ شہر کا ایک سادہ مزاج عزت دارعمر رسیدہ بزرگ تھا لیکن بالکل صحت مند اور چاک و چوبند ۔نورانی چہرے پربرف جیسی لمبی سفید داڈھی،لمبے سفید بال اور پرانا سا لمبا پیر ہن زیب تن کئے ہوئے وہ انتہائی با وقارلگ رہا تھا ۔وہ اپنے زمانے کا نامور فٹ بال کا کھلاڑی بھی رہ چکا تھا اور کئی تمغوں اور اعزازات سے نوازا جا چکا تھا ۔ہر ایک کے دکھ سکھ میں شامل ہوتا تھا اور ہر ایک کی مدد کے لئے پیش پیش رہتا تھا ،شاکر نے یہاں تک سنا تھا کہ بابا کسی بھی محتاج اور حاجت مندانسان کو نا امید نہیں کرتا ہے ۔شاکر بھی بڑی مشکل میں پھنسا تھا اور ہر دروازے سے نا امید لوٹ کر با با کے پاس مدد حاصل کرنے کی غرض سے آیا تھا ۔
شاکر اب اس سوچ میں پڑا تھا کہ با با سے اپنے مطلب کی با ت کیسے کہے تو دفعتا بابا کے چھوٹے سے مکان کے پاس ہی بنے بنگلے کی کھڑکی سے کسی نے دھڑام سے ایک بھرا ہوا بڑا تھیلہ با با کے آنگن میں پھینک دیا ۔
’’اللہ تجھے سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
با با کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے تھیلہ پھیکنے والے کو دعائیں دینے لگا ۔
’’با با یہ آدمی کون ہے ؟‘‘
’’یہ اس گھر کا ملازم ہے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’اللہ کے نام پر کچھ دے دو با با۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اسے پہلے کہ شاکر با با سے تھیلے کے بارے میں پوچھتا ایک سائیل نے آکر آواز دی ۔
شاکر نے پھٹ سے جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر سائیل کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
’’ بیٹھ جا اللہ کے بندے ‘‘۔
با با نے پڑے پیار سے کہہ کر اسے بٹھایا اور اس کے سامنے چائے کی پیالی رکھتے ہوئے گویا ہوا ۔
’’اب بولو کیا پریشانی ہے آپ کو ؟‘‘
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ میں بھکاری نہیں ہوں بلکہ ایک مجبور باپ ہوں ،میری بیٹی کچھ دنوں سے بیمار ہے اور اس کے علاج کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ‘‘۔
اس کی بات سن کر با با نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے بے چین ہو کرسوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔۔ چند لمحوں بعد ہی ایک لڑکا ہاتھ میں لوٹا لئے آیا اور اسلام علیکم کہہ کر کچھ رقم با با کو دیتے ہوئے بولا ۔
’’ بابا سائیں ۔۔۔۔۔۔ پورے مہینہ کی رقم ہے‘‘ ۔
’’شکریہ بیٹا ۔۔۔۔۔۔ خوش رہو‘‘ ۔
رقم لیتے ہوئے با با کے چہرے پر مسکرہٹ رقص کرنے لگی اور وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھائے خود سے بڑ بڑانے لگا ۔
’’تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مولا ۔۔۔۔۔۔ بے شک تو بڑا کار ساز ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
وہ لڑکا اندر گیا اور دودھ لے کر واپس چلا گیا ۔
’’آپ اپنی بیٹی کا ٹھیک سے علاج کرائو ،کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک میرے پاس آجانا‘‘ ۔
بابا نے لڑکے سے لی ہوئی ساری رقم سائیل کو تھماتے ہوئے انتہائی شفقت بھرے لہجے میں کہا ۔
’’ شکریہ با با ۔۔۔۔۔۔ آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا‘‘ ۔
’’ارے بیٹا احسان کیسا ۔۔۔۔۔۔ ؟احسان تو مجھ پر میرے پروردگار کا ہے جس نے عین وقت پر دستگیری کرکے مجھے آپ کی مدد کا موقع عطا فرمایا‘‘۔
’’اچھا با با اب میں چلتا ہوں‘‘۔
بابا کے حالات سے واقف ہو کرشاکر کے چہرے پر افسردگی چھا گئی اور کچھ دیر بعدوہ بھی اپنے آنے کا مقصد بیان کئے بغیر ہی جانے کے لئے اٹھا ۔
’’بیٹا ۔۔۔۔۔۔ تم نے بتایا نہیں کس مقصد سے آئے ہو ؟‘‘
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ میں بس یوں ہی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’یوں ہی نہیں بیٹا ،بلا جھجھک بتائو کس مقصد سے آئے ہو‘‘ ۔
اس نے شاکر کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔۔ وہ کیا ہے کہ ۔۔۔۔‘‘۔
شاکر کی زبان ہکلانے لگی ۔
’’ شرمائو مت بیٹا ۔۔۔۔۔۔ بولو کیا بات ہے ‘‘۔
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ دراصل میری بہن کی شادی ہے اور مجھے کچھ رقم کی اشد ضرورت ہے‘‘ ۔
’’بہن کی شادی اور رقم ،تیرے کرم ہے میرے مولا ‘‘۔
’’با با کے چہرے پر عجیب قسم کی طمانیت پھیل گئی‘‘ ۔
’’بیٹا ۔۔۔۔۔۔ کتنی رقم اور کب چاھیے ‘‘۔
’’پچیس ہزار‘‘ ۔
سن کر با با سر کھجاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے سوچوں میں پڑ گیا ۔
’’ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔۔۔ آپ چند دن بعد آجانا رقم آپ کو مل جائے گی لیکن ایک شرط پر‘‘ ۔
’’وہ کیا با با ؟‘‘
’’تم اس بات کا ذکر کبھی بھی کسی سے نہیں کروگے‘‘ ۔
’’ٹھیک ہے با با‘‘ ۔
کہہ کر شاکر وہاں سے نکلنے لگا ،با با بھی کھڑکی سے پھینکا ہوا تھیلہ کاندھے پر اٹھا کر اس کے پیچھے پیچھے آگیا ۔
’’با با ۔۔۔۔۔۔ اس تھیلے میں کیا ہے ؟مجھے دیدو میں اٹھاتا ہوں ‘‘۔
’’نہیں بیٹا ۔۔۔۔۔۔ میں یہ کام خود ہی کرتا ہوں ‘‘۔
با بانے وہ تھیلہ گھر سے کچھ دوری پر موجود رکھے کوڑے دان میں پھینک دیاتو شاکر کو اس نوکر پر سخت غصہ آگیا ۔ چند دن بعد شاکر پھر با با کے گھر پہنچ گیا ،اسے با با سے رقم ملنے کی ذرا بھی امید نہیں تھی ۔لیکن با با نے بغیر کسی تاخیر کے دعائیں دیتے اور مسکراتے ہوئے مظلوبہ رقم اس کو تھمادی جس دوران اس کے نفسیاتی زیر و بم میں عجیب سا سرور چھا گیا ۔شاکر با با کا شکریہ ادا کرکے رقم لے کر خوشی خوشی یہ سوچتے ہوئے کر گھر کی طرف جانے لگا کہ آخر با با نے رقم کا انتظام کیسے کیا۔۔۔۔۔۔ ؟ راستے میںشاکر کچھ خریداری کی غرض سے ایک شاپنگ مال میں داخل ہو گیا ۔
’’چالیس ہزار ۔۔۔۔۔۔ چالیس ہزار پانچ سو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
وہاں ایک بڑے شو روم میںبہت بھیڑ تھی اور کسی چیز کی نیلامی ہو رہی تھی،شاکر بھی دیکھنے کے لئے شو روم میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
’’چالیس ہزار پانچ سو ۔۔۔۔۔۔ باپ رے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ارے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے وقت کے مشہور زمانہ فٹبال کھلاڑی قدرت اللہ کا سونے کا مڈل ہے جو اس نے کل ہی اس شو روم کے مالک کو بہت کم قیمت میں بیچاہے ‘‘۔
’’مگر اس نے بیچا کیوں ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
کچھ نوجوان آپس میں گفتگو کر رہے تھے جسے سنتے ہی شاکر کے وجود میں ہل چل مچ گئی ،درد کی ایک تیز ٹیس اس کے پورئوجود میں دوڑ گئی۔
’’پچاس ہزار ۔۔۔۔۔۔۔ اکاون ہزار ۔۔۔۔۔۔پچپن ہزار۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
نیلامی کی رقم ہر لمحہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور شا کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکل گیا ۔اسے لگا کہ جیسے موت کا ایک سرد جھونکا اسے چھو کر گزرا ہو ۔
٭٭٭
رابطہ ۔۔۔۔۔۔ اجس بانڈی پورہ193502 کشمیر
۔ ای میل ۔۔۔۔۔۔ [email protected]