ڈاکٹر ریاض توحیدی
(ہندوارہ،کشمیر)
سیاہ بادلوں کی کڑکتی بجلیوں نے پُر سکون سمندر کی خاموش لہروں کو سونامی کا روپ دھار نے پر مجبور کر رکھا تھا۔ اس کا جزیرہ نما دل بھڑکتے شعلوں کا خند ق بن چکا ہے اور برستی آگ کی سلسلہ وار پھٹوں نے اس کے دماغ میں غم اور خوشی کے تصور کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اس کی نمناک آنکھیں ، سنہر ے اُجالے کی تلاش میں ، کالے رات کے قیامت خیز اندھیرے کو کاٹتے کاٹتے تھک چکی ہیں۔ خوف زدہ دماغ کے مایوس خیالات اسے اشارہ کررہے ہیں کہ شاید سنہرے اُجالے کے چمکتے آفتاب کی روشن کرنوں کو کالے بادلوں نے قید کر رکھا ہے ۔ اس کا ارتعاش شدہ جزیرہ غم ناک سونامی کی خون آشام لہروں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یہ خون آشام لہریں شاہینی سوچ رکھنے والے انسانوں کو ہی اپنا شکار بنا رہی ہیں۔ ان کی اندھی یلغار کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہر شاہین کی پرواز آمنا وصدقناکے حدود تک محدود ر ہے۔ پرواز کی ہر آزادی پر قدغن لگائی جائے اور ان کی پسند سب کی پسند…!!
اُس کا پریشان دماغ سوچنے کی صلاحیت کے باوجود بھی صحیح سوچ نہیں سکتا کیونکہ اندھیرے نے اس کی سوچ کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ مذہب کا پرستار ہونے کے باوجود بھی وہ مذہب کو اپنا نہیں سکتا۔ مذہب کو اب صرف سیاست کے قالب میں بند کیا گیا ہے۔ مذہب کی تعلیم اُسے بتارہی ہے کہ ہر انسان کو پہلے انسان کی طرح سمجھو اور انسانیت کو ترجیح دو، لیکن وہ مذہبی تعلیم پر کیسے عمل کرسکتا ہے کیونکہ اس کی سوچ تو ’’ہائی جیک ‘‘ ہوچکی ہے جو اُسے بتارہی ہے کہ یہاں توا نسان نے اپنی سوچ کا مذہب بنارکھا ہے ۔ یہاں تو ہر قوم اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے مذہب کا استحصال کررہی ہے۔ مذہب ، انسان کو اپنی فکر بخشتا ہے لیکن یہاں تو انسان اپنی سوچ کومذہبی فکر کا لبادہ پہنا رہا ہے اور مذہبی فکر کو اپنی سوچ کی زمین میں ڈال کر نئے نئے نظریات کے پودے اُگا رہا ہے ۔ کوئی قدامت پر ستی کا اسیر اور کوئی جدیدیت کا یر غمال… انتہاپسندی صرف انتہاپسندی …!!
دن بھر کی مصروفیات سے تھک ہار کر وہ رات کی تنہائی میںسچ اور جھوٹ کی جنگ کا نظارہ کر نا چاہتا ہے ۔ نیوز چینل کا نمبر ریموٹ پر دباتے ہی اسکرین پر فلیش نیوز آتی ہے:
’’ڈرون کے حملے میں اسکول تباہ ، درجنو ں معصوم بچے موت کی آغوش میں ۔‘‘
’’یہ دہشت گردی ہے ، حیوانیت کے شکار معصوم بچوں کے والدین کا احتجاج۔‘‘
’’نہیں ایسے اقدام دنیا میں امن بحال کرنے کے لئے ضروری ہیں۔‘‘
سفیر امن کا بیان۔
’’ایک خوفناک دھماکے میں نیٹو کے درجن بھر فوجی ہلاک۔‘‘
یہ دہشت گردی ہے‘‘ سفیر امن کا بیان ’’جمہوریت کے دشمنوں سے ضرور بدلہ لیاجائے گا۔‘‘
اس کی سو چ ان خون آشام مناظر کو دیکھتے دیکھتے یہ سمجھنے سے قاصر نظر آرہی ہے کہ اصلی دہشت گرد کون ہے…؟‘‘
وہ ہسٹری چینل کا بٹن دباتا ہے ۔ وہاں پر بھی اسے صرف آگ کے گولے ہی نظر آرہے ہیں۔ وہ سوچتا ہے :
’’انسان نے لالچ کو اپنا دیوتا بنالیا ہے اور اس کی حیوانیت کے سیاہ کارنامے لکھتے لکھتے انسانیت کی تاریخ اب بوڑھی ہوچکی ہے وہ اب صحیح اور غلط کو پہچاننے سے بے زار نظر آرہی ہے۔‘‘
مرنے اور مارنے والوں کے فلسفۂ امن کے پروپگنڈہ نے اُس کے ذہن میں انتشار کاطوفان برپا کر رکھا ہے ۔ وہ انسان کی چینل سے مایوس ہو کر اب حیوانوں کی چینل کا بٹن دباتاہے ۔ اینمل چینل پر افریقہ کے وہ گھنے جنگل دکھائے جارہے ہیں جن میں غیر مہذب جنگلی جانور کثیر تعداد میںپائے جاتے ہیں ۔ ایک خوبصورت جھیل کے کنارے سینکڑوں ہر ن پُر امن ماحول میں پانی پی رہے ہیں۔ جھاڑیوں کے پیچھے خون خوار شیر حملے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔ طاقت کے نشے میں مست یہ خونخوار درندے اچانک ہر نوں پر جھپٹ پڑتے ہیں ، ہرنوں کے جھنڈ پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ بہت سارے ہرن درندوں کے شکار بن گئے ۔زخمی ہر ن خوف کے مارے جھیل میں کودتے چلے گئے۔ جھیل کے پُر سکون پانی میں ارتعاش کی لہریں اُٹھنے لگیں اور نیلا پانی سرخ مائل ہو تا گیا۔
معصوم ہرنوں کے خون سے درندوں کا پیٹ بھر گیا تھا اور اُن کے خون آلودہ منہ فتح کی دھاڑسے گرج رہے تھے۔ ان درندوں کی گرجدار آواز سارے جنگل میں گونج رہی تھی کہ یہاں ہمیشہ طاقت کی بادہشاہت رہے گی۔ یہ خوفناک نظارہ دیکھتے دیکھتے اُس کی سوچ میں اُبال آیا ۔ اُسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس کی سوچ ہائی جیکر کے شکنجے سے آزاد ہورہی ہے اور اس کی زبان سے بے ساختہ نکل پڑا… حیوان کون …؟
٭٭٭