محمدیوسف رحیم بیدری
:9141815923
۱۔رونے والے
رونے والے ہمیشہ روتے رہے ۔ کرنے والوں نے کسی کے ساتھ کے بغیربھی دنیا فتح کرلی ۔ یہ بات چھوٹے قائد کی کبھی سمجھ میں نہیں آسکی۔ اور چھوٹاقائدہمیشہ قاعدے میں ہی رہا۔آگے بڑھ کردنیادیکھی اور نہ سجدہ کیا۔
۲۔ بیٹیوں کا فیصلہ
عزیزہ دہم جماعت کی تکمیل کے ساتھ ہی مہنگی فیس والے پرائیویٹ کالج کے بجائے سرکاری کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی، جہاں قابل لیکچررس کے ذریعہ مفت تعلیم دی جاتی ہے۔روا انعم کاارادہ کچھ اور تھا.جو اس نے ظاہر نہیں کیا. فیروزہ محوش اور مونا صوبیدار ڈرائنگ کالج جوائن کرنا چاہتی تھیں۔ناصرہ کو سائنس میں دلچسپی نہیں تھی، اس لئے آرٹس میں داخلہ لینے کا ارادہ تھا۔
مجموعی طورپر یہ تمام سہیلیاں نہیں چاہتی تھیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اپنے والدین کے لیے مشکلات کا سبب بنیں اسی لئے انھوں نے اس طرح کی تعلیم کا فیصلہ کیا تھا۔ جب والدین کو معلوم ہوا کہ ہماری بیٹیاں مہنگی ترین فیس والی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتیں تو وہ دل کے نہ چاہتے ہوئے بھی خوش ہوگئے۔ انھیں لگاکہ اب ہماری زندگی میں بھاگ دوڑ، چڑچڑاپن، فیس کی کمی کا مایوس احساس اور تعلیمی توقعات کی سونامی نہیں ہوگی۔
۳۔ نفرت پر لگام
سوشیل میڈیا نفرت کاہمالیہ کھڑا کرچکاتھا۔ اس ہمالیہ کو سرکرنے اور زیر کرنے کے لئے مختلف سائبر پولیس اسٹیشنوں میں شکایات کی ضرورت تھی۔ لہٰذا جس طبقہ کے خلاف نفرت پروسی جارہی تھی ، نفر ت کابکھان کیاجارہاتھا، اور نفرت کو ہاٹ کیک بناکر پیش کیاجارہاتھا، اس طبقہ نے پورے ملک میں سوشیل میڈیا پر ڈالی جانے والی نفرت انگیز ویڈیوکلپ کے خلاف احتجاج اور انتظامیہ ومحکمہ پولیس(سائبرکرائم) میں یکے بعددیگرے تسلسل کے ساتھ تحریری شکایات درج کرانا شروع کردیا۔اور یہ کام روزانہ کی بنیاد پرہوا۔ نفرت پھیلانے والے ویڈیوز کے علاوہ خود سوشیل میڈیا کے خلاف بھی کارروانی کرنے کامطالبہ کیاگیا۔جہاں کہیں پولیس نے شکایت وصول کرنے سے انکار کردیا وہاں عدالتوں کے ذریعہ سے FIRکروائے گئے۔
تین مہینے کی مسلسل پرامن کوششوں کانتیجہ یہ نکلا کہ سوشیل میڈیاپرلگام کسی گئی۔آج کل نفرت انگیز ویڈیوکلپ کی تعداد میں 70%تک کمی آئی ہے۔اوریہ بہت بڑی کامیابی تھی ۔ اس کامیابی کے لئے اس طبقہ نے اپنے خلاف غلط پروپگنڈا کو سنجیدگی سے لیاتھا۔ ورنہ کئی اور طبقات ہیں جن کے خلاف آج بھی غلط پروپگنڈا چل رہاہے۔ لیکن ان طبقات کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی کیوں کہ وہ طبقات پریشان ہونا تو جانتے ہیں لیکن افسوس اس پریشانی کوحل کرنا نہیں جانتے۔ پریشانی کاحل نکالنا یا حل جان لینا بھی خدائی توفیق ہے۔
۴۔ ساتھ اور قسمت
مایوسی اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ شوہر نے پوچھابھی کہ کیابات ہے ؟اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شام واپسی کے وقت اس نے اس کی پسند کی مٹھائی لاکر بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ خوش ہوگئی۔ اور کہا’’آپ کو کیسے پتہ کہ تیسرے بچے کی خوش خبری ہے ؟‘‘ شوہر حیران رہ گیا لیکن پھر فوراًہی اس نے کہا’’اب اتنے سال سے ساتھ میں ہیں تو بیوی کے موڈ کو نہ پہچانوں، یہ کیسے ممکن ہے ؟‘‘
رات سونے سے قبل اس نے بیوی سے کہا’’دیکھوبیگم ، اولاد اللہ کی عطاہے ۔ ان کامستقبل بھی اللہ کے ہاتھ ہے۔ مایوس نہ ہونا، مائیں جب بچوں سے مایوس ہوجاتی ہیں تو زمین وآسمان ہل جاتے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ اور ان شاء اللہ بہترقسمت ہمارے بچوں کی ہوگی‘‘
اہلیہ نے شوہر کے کندھے پر سررکھتے ہوئے سوچا’’مجھے تمہاراساتھ اور بچوں کی بہترقسمت کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے‘‘
۵۔ رقم کاحصول
اس نے اپنے 33کروڑخداؤ ں سے صرف ایک ایک روپیہ طلب کرنے کی اپنی ویڈیوسوشیل میڈیاپرپوسٹ کردی تھی۔623kویورس نے اس پوسٹ کوا ب تک دیکھاتھاجب کہ 28kافراد نے اپنے اپنے ری ایکشن ظاہر کئے تھے۔ سوربھ شرماسنگر نے ہندی زبان میں لکھاتھا۔’’33کوٹی کوٹی دیوتا ہیں ، 33کروڑ نہیں‘‘ روہت کمارساگر کاکمنٹ رومن میں تھااور انتہائی مختصر تھا’’ہوں گے تو دیں گے ‘‘رام نریش Uikeyنے رائے دی تھی ’’تھوڑا انتظار کروبھائی اگلے جنم تک مل جائیں گے ‘‘دھن سنگھ نوریٹی نامی شخص نے کمنٹ میں لکھاتھا’’دیوتا کے پاس پیسہ نہیں ہے ۔ پنڈت کے پاس پیسہ ہے ۔ مانگنا ہے تو پنڈت سے مانگو‘‘
سنا ہے کہ وہ پنڈت سے پیسہ مانگنے تیار نہیں ہے۔ شاید بیچارا پنڈت سے ڈرتاہوگایااس نے مذاق ہی کو سب کچھ سمجھاہوگا۔