ایک ریٹائرڈ بزرگ آدمی اپنے چھوٹے اور ننھے پوتے کے ساتھ گھر میں بیٹھا ہوا تھا ۔دادا جی اچانک کھڑے ہوئے اور کلینڈر کی طرف بڑھا اور تاریخ دیکھنے لگا ۔خود سے ہی کہنے لگا
"آج ۱۱ جنوری ۲۱۸۰ عیسوی ہے ،باہر بہت زیادہ سردی ہے "۔
دادا جی کی جان جیسے پوتے میں ہی تھی ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ ننھا بچہ باہر کڑاکے کی سردی میں نکلے، لہذا وہ اپنے پوتے کو کسی طرح مصروف رکھنا چاہتے تھے ،لیکن بچہ تو بچہ ہی ہوتا ہے وہ بھی باہر جانے کی ضد کر رہا تھا ۔دادا جی کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ وہ اس کو کوئی کہانی سنائے ۔
دادا جی: بیٹا میں آپ کو اپنے ماضی یعنی بیتےہوئے وقت کی ایک مزےدار کہانی سناتا ہوں۔
پوتا : (خوش ہو کر ) ہاں! ہاں !
دادا جی :آج جو تو دیکھ رہا ہے کتنی سادہ زندگی ہے ہمارے زمانے میں زندگی ایسی نہیں بلکہ بہت تیز تھی اور ٹیکنالوجی کی بھرمار تھی ۔
پوتا : ارے دادا جی !زمانہ ترقی کرتا ہے یازوال کا شکار ہوتا ہے ؟
دادا جی :زمانہ تو ترقی ہی کرتا ہے لیکن زمانے والوں کو زوال آگیا اور معاملہ الٹا پڑ گیا۔
یہ کہہ کر دادا جی ایک گہری سوچ میں کھو گئے ۔کئی دہائیوں کی یادوں کے سیلاب میں پتہ نہیں کہاں سے کہاں کھو گیا ۔یادوں کی قطار نے دادا جی کے سامنے وہ زمانہ پیش کیا جب وہ نوجوانی کے شباب میں داخل ہوگیا تھا ۔اس زمانے میں ہر طرف ترقی کا دور تھا ۔سائنس کی ٹیکنالوجی اپنے عروج پر تھی ۔ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد سامنے آ رہی تھی ۔ان سائنسی ایجادات میں ایک ایجاد موبائل فون اور انٹرنیٹ کی تھی ،جس سے لوگ بہت فائدہ حاصل کر رہے تھے _یہ سائنس کی بنائی ہوئی ایک رحمت تھی ،لیکن لوگوں کے غلط استعمال نے اسے کب زحمت بنا دیا پتہ ہی نہیں چلا ۔جب کسی چیز کا حد سے زیادہ اور غلط استعمال کیا جاتا ہے تو وہ نقصان دہ بن جاتا ہے ۔ ویسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوا جس کا نام موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔یہ چیز ہر وقت انسانوں کے ساتھ چھایہ کی طرح ان کے جیبوں میں ہوا کرتا تھا ۔اس سے فائدوں سے زیادہ نقصانات برآمد ہوئے ۔ایک تو لوگ سماجی لحاظ سے اتنی خرافات میں مبتلا ہوئے کہ شرم و حیا کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔دوسرا خطرناک پہلو یہ تھا کہ لوگوں کی صحت اتنی بڑھ گئی کہ آنکھوں، دماغ اور دل کے خطرناک امراض پیدا ہوئے ۔چھوٹے چھوٹے بچے بڑے بڑے امراض کے شکار ہوئے ۔ہر گھر میں کئی کئی ایسے مریض ہوتے تھے جو زندہ لاشوں کی شکل اختیار کر چکے تھے ۔کوئی دماغی معزوری ، کوئی قلبی امراض تو کوئی آنکھوں کی بینائی سے محروم نظر آتا تھا ۔غرض ناتوانوں کا شہر بن گیا تھا ۔دادا جی کا گھر بھی اسی طوفان میں ڈوبا ہوا تھا ۔اس کا جوان بیٹا ایسی ہی اذیت ناک صورتحال سے دوچار تھا ۔دادا جی کی بیوی اور بہو پہلے ہی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں۔اب اس گھر میں صرف تین لوگ رہتے تھے ۔دادا جی اور اس کا پوتا ہی نارمل انسان تھے اور دادا جی کا بیٹا زندہ لاش کی طرح بوڑھے باپ پر بھوج کا پہاڑ بن گیا تھا۔دادا جی کو خیالوں میں بھی پوتےکی فکر تھی ۔اسی اثنا میں دادا جی نے سوچا کہیں اس کا پوتا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توفورا خیالوں سے نکلا اور پوتے کو گلے لگایا ،لیکن دادا جی کی آنکھیں نم ہو چکی تھی اور چہرے پرخوف انتہا درجے کا صاف صاف نظر آ رہا تھا ۔اس کے منہ سے کوئی بھی لفظ ادا نہیں ہو رہا تھا ۔وہ صرف پوتےکو گلے لگا کر بوسے دے رہا تھا ۔اس کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کا پوتا نارمل انسان ہے ۔دوسری طرف پوتا بھی حیران تھا کہ دادا آپ تومجھے کہانی سنانے والے تھے ،آپ اچانک خاموش کیوں ہوئے؟
پوتا :دادا جی کی کہانی بتاؤ نا آپ رو کیوں رہے ہو ؟
دادا جی :(آنسو پونچھتے ہوئے ) آپ کو بڑا ہوتا ہوا دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں ۔
پوتا :کہانی سناؤں نا مجھے ۔
اسی دوران دوسرے کمرے سے کوئی خوف نہ آواز آتی ہے ۔دادا جی جلدی اس کمرے میں جا کر ششدر رہ جاتا ہے کہ اس کا بیٹا حالات بے کسی میں اپنی جان دے دیتا ہے اور دادا جب نے اپنے پوتے، جو اس کی آخری امید تھی ، کو اپنے سینے سے لگایا اور روتے روتے نڈھال ہوا۔ شاید دادا جب نے بھی کب کی ہمت ہاری ہوتی لیکن پوتے کی فکر نے اس کو بوڑھا ہونے نہیں دیا۔ دوسری طرف معصوم بچہ حیران تھا کہ دادا جی کو کیا ہوا ہے؟ دادا جی بار بار اپنے بیتے ہوئے کل یعنی بھیانک کل کے متعلق بار بار سوچ رہے تھے اور لرزتے تھے اور اسی صورتحال میں دادا جب کچھ دیر کے لئے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور پوتا اس کے آنسوں اور پسینے پونچھ رہے تھے اور وہ بھی ایسا کرتے کرتے سو گیا۔
تحریر :ارشاد احمد حجام
ستورہ ترال
موبائل نمبر :9797013883
ای میل : [email protected]